Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Qaswar Saeed Mirza, Doston Ka Dilbar Rukhsat Hua

Qaswar Saeed Mirza, Doston Ka Dilbar Rukhsat Hua

قسور سعید مرزا، دوستوں کا دلبر رخصت ہوا

قسور سعید مرزا رخصت ہوئے۔ اس عالم ناپائیدار میں مستقل قیام کا پروانہ کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ صدیوں ہزاریوں کی متھ یہی ہے۔ ان سے ساڑھے چار دہائیوں پر پھیلے تعلق کی یادیں دستک دے رہی ہیں۔ ان سے تعارف 1970ء کی دہائی کے ان برسوں میں ہوا تھا جب میں نصیر میمن کے کراچی سے شائع ہونے والے جریدے "جدوجہد" میں معاون مدیر تھا۔ ان کی تحریر اشاعت کے لئے آئی۔ خلیل نقوی نے مجھے تھماتے ہوئے کہا لو یار اسے دیکھ کر کتابت کے لئے دے دو۔

کاغذ پر موتی پروئے ہوئے تھے۔ شستہ تحریر منفرد اسلوب "کامل جملے"۔ جریدے کی پالیسی کے مطابق کچھ ایڈیٹنگ کی کتابت کے لئے تجمل صاحب (خوش نویس) کو دے دی۔ پھر ایک دن ان کا فون آیا۔ کمال کی اردو تھی رواں رواں۔ ایڈیٹنگ پر شکوہ تھا۔ عرض کیا ادارے کی پالیسی پر عمل کیا چند جملے ہی ایڈیٹ کئے۔ پھر پتہ نہیں مجھے کیا سوجھی میں نے سرائیکی زبان میں کہا، سائیں اے شجاع آباد لکھنؤ اچ ہے کیا؟

ویسی ہی ٹھیٹھ سرائیکی میں جواب سماعتوں سے ٹکرایا۔ کیناں سئیں ملتان دی تحصیل اے، تساں کتھوں دے ہو، انہوں نے پوچھا۔ عرض کیا ملتانی ہوں۔ مزید کچھ تعارف اور ملتان کا اتہ پتہ دریافت کرچکے تو بولے "اچھا تساں وعظ والی سیدہ عاشو بی بی دے فرزند او"، اب حیران ہونے کی باری میری تھی۔ حیرانی دور کرتے ہوئے بولے ہمارے ساتھ والے گھر میں وعظ کے لئے تشریف لاتی ہیں۔ ہماری اماں حضور ان کی تشریف آوری پر بہت خوش ہوتی ہیں۔

یہ ابتدائی تعارف پھر دوستی میں تبدیل ہوا اور دوستی کے یہ ماہ و سال خوب گزرے۔ قسور سعید مرزا وسیع مطالعہ تھے بہت بار مختلف موضوعات پر ان سے مکالمہ بھی ہوا گاہے ملاکھڑا بھی۔ اپنی جوانی انہوں نے پیپلزپارٹی کو دی۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں کئی بار زنداں (جیل) کی صعوبتیں جھیلیں۔ ملتان، شجاع آباد، کراچی، اسلام آباد میں انگنت ملاقاتیں رہیں۔

1970ء کی دہائی کے برسوں میں شجاع آباد پولیس سٹیشن کے سامنے نیشنل بینک کے تھڑے پر مختلف الخیال سیاسی کارکنوں کی روزانہ مغرب کے بعد مجلس جما کرتی تھی۔ دو تین بار اس میں شرکت کا موقع ملا۔ ان برسوں میں قسور سعید مرزا رانا تاج احمد نون مرحوم (پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی) کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔

ایم آر ڈی کی تحریک بحالی جمہوریت میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ ایک سیاسی کارکن، ادیب اور صحافی کے طور پر انہوں نے اپنی شناخت بنائی۔ بڑے بھائیوں کی طرح قابل احترام سید امتیاز بخاری کی آئس فیکٹری اور نیشنل بینک کے تھڑے پر یادگار ملاقاتیں رہیں۔

اردو غضب کی تھی شستہ اور رواں۔ رزق سے بندھی ہجرتوں اور بھاگم دوڑ میں ان کے خطوط نجانے کیا ہوئے۔ دستیاب ہوتے تو چند سطریں قارئین اور احباب کے استفادے کیلئے یہاں نقل کرتا۔ 1970ء کی دہائی بلکہ اگلی دہائی خطوط نویسی کی ہی دہائیاں تھیں۔

ایک بار ہمارے دوست ارشاد امین نے لکھا تھا "شاہ زادے کے دوستوں کو لکھے اور دوستوں کے اسے لکھے خطوط محفوظ ہوں تو کتابی صورت میں شائع ہونے چاہئیں تاکہ آج کی نسل اس دور کے دوستوں کے احساسات، سیاسی رجحانات کے ساتھ ان ماہ و سالوں کی معاشرت سے آگاہ ہوسکے۔ جب دوست ہوتے اور دوست ہی ہوتے تھے"۔

یہی سچ ہے یہ دوستوں میں ذات برادریاں، مذہب و عقیدہ، سیاسی تعصبات کی بدعتیں 1985ء کے بعد در آئیں اب تو لوگ نام دیکھ کر خود فیصلے کرلیتے ہیں اس نام والے شخص کا عقیدہ کیا ہوگا۔ ذات برادریاں اور عقیدہ اہم ہوگیا انسانیت گئی بھاڑ میں۔

قسور سعید مرزا اس دنیا سرائے سے رخصت ہوئے۔ بدھ کی سپہر سے کچھ دیر بعد برادر عزیز شاکر حسین شاکر کے توسط سے ان کے سانحہ ارتحال کی اطلاع ملی۔ دل رنج سے اور آنکھیں پانی سے بھرگئیں۔ ان سے پہلا تعارف، پہلی ملاقات پھر ملاقاتیں۔ بحث مباحثے ملاکھڑے، سنٹرل جیل ملتان میں ہونے والی ملاقاتیں یادوں کا دفتر کھل گیا۔

پچھلے کئی برسوں سے رابطہ کچھ کچھ کم تھا پھر بھی وہ کسی تحریر پر داد دینے کیلئے فون کرتے داد دیتے۔ عدم ملاقات کا شکوہ کرتے۔ کچھ عرصہ قبل ان کا فون آیا شکوہ کررہے تھے کہ تم ملتان آتے ہو رابطہ نہیں کرتے۔ عرض کیا اب تو آپ بھی ایک قدم یہاں ایک وہاں مکہ مدینہ یا کسی اور شہر میں۔ بولے چلو میں تمہیں فون کروں گا بھابی اور بھتیجی کو لے کر آنا۔ عرض کیا میں اور آپ کی بھابی حاضر ہوجائیں گے۔ بھتیجی آپ کی امریکہ میں ہے۔ ڈھیروں دعائیں دیں۔ وہ آخری رابطہ ہی ثابت ہوا۔

ہاں ایک بار میں نے امڑی حضور پر کالم لکھا تو ان کا پیغام موصول ہوا "شاہ جی جب تم اپنی والدہ صاحبہ کو یاد کرتے ہو تو میں دعا کرتا ہوں دنیا کے سارے بچے اپنی مائوں کو اسی محبت سے یاد کیا کریں، جیتے رہو"۔

سوا چار ساڑھے چار دہائیوں پر پھیلی دوستی کابھرم ان کے سانحہ ارتحال سے ٹوٹ گیا۔ ہاں یاد آیا ان سے دوستی کی بڑی بنیاد کی ایک وجہ ہم دونوں کا عاشقانِ خلیل جبران ہونا بھی تھا۔ یہ صرف 1970ء کی دہائی میں شعور و آگہی کی روشنی سے منور ہوئی نسل کا نہیں بلکہ اس سے پہلے کی دو اور بعد کی کئی نسلوں کا بھی یہی معاملہ رہا ہے

لکھنے پڑھنے سے دلچسپی رکھنے والوں کو خلیل جبران محبوب ہوئے۔ ہماری نسل تو اس کی عاشق صادق ثابت ہوئی۔ اس دہائی (1970ء والی) میں جب خطوط نویسی ہی اظہار کا بڑا ذریعہ تھا نئی نسل اپنے دوستوں اور پیاروں کو جبران کے انداز میں ہی خط لکھا کرتی تھی۔ مجھ طالب علم کو جب خلیل جبران پر کچھ کام کرنے اور ان کے افکار و خیالات اور ناولوں افسانوں کو "کلیات خلیل جبران" کی صورت میں ترتیب دینے کی سعادت حاصل ہوئی تو کلیات شائع کرنے والے ادارے کے توسط سے سب سے پہلے ان کا خط موصول ہوا۔

جی بھر کے داد دی انہوں نے پھر ایک دن ان کا طویل فون آیا انہوں نے کہا مجھے خوشی ہے کہ کلیات پر تم نے بھی کام کیا گو یہ کام پہلے بھی ہوا ہے لیکن تمہاری مرتب کردہ کلیات کا پیش لفظ اور خلیل جبران کا سوانحی خاکہ اردو پڑھنے والوں کو نئے آہنگ سے آشنا کریں گے۔

قسور سعید مرزا پیپلزپارٹی کے کارکن تھے رہنما ہوئے، تھانے کچہریاں بھگتیں، جیلیں کاٹیں۔ فاروق لغاری صدر مملکت بنے تو وہ ایوان صدر میں ڈی جی پبلک ریلیشن بنادیئے گئے۔ ہمارے لائق احترام دوست مظہر عارف بھی ایوان صدر میں اچھے منصب پر فائز ہوئے۔

اس دفتر میں ان سے ایک یادگار ملاقات بھی ہوئی۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا، فاروق لغاری کے ہوکر رہ گئے ان کے ساتھ پیپلزپارٹی چھوڑ کر ملت پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کے عمل میں مصروف ہوگئے۔

پھر ایک دن انکشاف ہوا کہ 1970ء کی دہائی کا ترقی پسند سیاسی کارکن قسور سعید مرزا خانقاہی نظام کا ہوکر رہ گیا۔ اب وہ سیاست سے زیادہ علم و ادب، تاریخ اور خانقاہی نظام پر بولتے پڑھتے اور لکھتے تھے۔ انکی زندگی کے اس بھرپور مگر دلچسپ مرحلہ میں ایک ہی ملاقات ہوپائی۔ ہمارے سامنے الحاج قسور سعید مرزا تھے ہم ویسے کے ویسے سو وہ نشست خوب رہی۔

انہوں نے میری کتابوں"پورا سچ" اور "یہ عشق نہیں آساں" پر بھرپور اور ناقدانہ تبصرہ کیا۔ مجھے عرض کرنا پڑا یار مرزا، خانقاہی نظام کا احترام اپنی جگہ لیکن مجھ سے طالب علم سیدی بلھے شاہؒ سے متاثر ہوجائیں تو اپنے اپنے وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے "ستون" بننے والے پیروں اور ان کے سلسلے سے دور رہتے ہیں۔

اس نے زندگی بے بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا، راجی شاہ تیرا کچھ نہیں ہوسکتا تونے دوستوں کو حیران کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔ پھر بولے اچھا چل یہ بتا تو ملامتی کب نہیں تھا۔ جماندرو ملامتی ہے۔ اس پر ہم دونوں مسکرادیئے۔

یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے اپنے اور قسور کے محبوب جاں دوست مرحوم عزیز نیازی ایڈووکیٹ کا ضلع کچہری ملتان والا چیمبر یاد آرہا ہے جہاں ہم کئی کئی گھنٹوں ادیان کے اقرار و انکار پر بحثیں اٹھاتے تھے اور کبھی تنگ آکر عزیز نیازی کہتے

"مرزا اے شاہ انج ای گمراہ راہسی توں ایندا غم نہ کیتا کر"۔

حق تعالیٰ قسور سعید مرزا کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے بس ایک شکوہ ہے وہ یہ کہ یار مرزا جس ملاقات کا وعدہ تھا کم از کم وہ تو کرتے جاتے۔

Check Also

Kashmiri Bhaiyon Ke Naam

By Najam Wali Khan