Pegham e Ashura
پیغامِ عاشورہ
عاشور، کربلا اور قیام امام حسینؑ انسانی تاریخ کی وہ زندہ حقیقتیں ہیں جن سے بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب ہر حریت پسند اپنی جدوجہد کے لئے ولولہ تازہ حاصل کرتا ہے، لبِ فرات ریگزار کربلا میں اترے محبوبانِ خدا کے قافلے نے جس کی قیادت سرکار دو عالم آقائے صادق احمد مرسلؐ کے نواسے فرزند امام علیؑ و سیدہ فاطمۃ الزہراؑ امام حسینؑ کر رہے تھے اپنی استقامت، فکری پختگی اور رضائے الٰہی میں سب کچھ نچھاور کر کے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ حق آگہی کا درس اول یہ ہے کہ جب حق کو ضرورت پڑے تو اعلائے کلمتہ الحق کرتے ہوئے تعداد نہیں یقین کی اہمیت ہوتی ہے۔
ہر سال محرم الحرام کی 10 تاریخ کو دنیائے اسلام میں خصوصاً اور پوری دنیا میں بالعموم امام حسینؑ اور آپ کے باوفا جانثاروں شہدائے کربلا کی یاد میں مجالس و جلوس اور ذکر آلِ رسولؐ کی مناسبت سے اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
آج روز عاشور ہے، یہ دن کرہ ارض پر بسنے والے آزادی پسندوں اور مساوات کے علمبرداروں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ کیسے کربلا کے میدان میں 72 نفوس پر مشتمل ایک مختصر قافلے نے خود سے ہزار ہا گنا بڑے لشکر کے مقابلہ میں شجاعت وثابت قدمی کے جوہر دکھائے کہ تاریخ کا دامن ان روشن کرداروں کے بھر گیا، عاشور، کربلا اور امام حسینؑ، محض روایتی داستان نہیں بلکہ یہ حریت فکر، ثابت قدمی، ایثار و وفا کی ایک ایسی زندہ داستان ہے جسے سنتے پڑھتے ہوئے آج بھی ہر خاص و عام کی زبان سے پہلا کلمہ یہی نکلتا ہے کہ
"اے کاش ہم بھی اس زمانے میں ہوتے اور نصرت امام حسینؑ میں اپنی جان نچھاور کرتے"۔
کربلا اور امام حسینؑ ہر دور میں اپنی زندہ فکر کی بدولت ان حق پرستوں کے لئے مشعل راہ ہیں جو انسانی سماج میں تعصبات، ظلم و جبر، ناانصافی اور خود پسندوں کے قائم کردہ طبقاتی امتیازات کی جگہ مساوات، انصاف، ایثار، محبت، برابری اور سماجی وحدت کو مقصد زندگی سمجھتے ہیں۔ عاشور کا پیغام فقط یہی ہے کہ کرہ ارض پر زندہ و موجود ہر شخص کو جبر و استحصال کے خلاف اپنے حصے کی آواز بلند کرنا چاہئے، عاشور فقط یہ نہیں کہ ذکر شہیداں و شاہِ شہیداںؑ کر لیا اور غم گساری ہو گئی۔
عاشور دعوت فکر و عمل ہے ہر عہد کے زندہ ضمیر لوگوں کے لئے عاشور نے قیام حسینؑ کی استقامت اور یذیدیت کے جبر و ستم کو آشکار کر دیا۔ روز عاشور بظاہر شاہ شہیداںؑ کے 72 ہمراہیوں اور اس وقت کی جابر حکومت کے پہروں اور جبر و ستم سے لڑتے بھڑتے کربلا میں امام حسینؑ کی نیابت کرتے ہوئے قربان ہو جانے والوں پر حکومت وقت کے لشکر کی فتح ہے مگر حقیقت میں عاشور مظلوموں اور بےیار و مددگار قافلہ حسینؑ کے شہداء کی جبر و ستم پر ابدی فتح کا دن ہے۔
عاشور کا پیغام برحق یہی ہے کہ عدو کا لشکر اور حامیوں کی تعداد خوا کتنی بھی کیوں نہ ہو مقابلتاً چند حق پرست فکری استقامت سے ڈٹ جائیں تو فتح مبین حق پرستوں کا مقدر ہی بنتی ہے۔ دنیائے اسلام کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال شاہ شہیداں امام حسینؑ اور آپ کے جانثاروں کی قربانیوں کی یاد منائی جاتی ہے، آج ذکر شاہ شہیداںؑ کرتے ہوئے ہم میں سے ہر شخص کو احتساب ذات پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
ملت اسلامیہ پاکستان کے ہر فرد کو اس امر پر غور کرنا ہو گا کہ کیا وہ اپنی زندگی کو حقِ عاشور کے طور پر بسر کر رہا ہے؟ یا پھر ہمارا حال بھی ان لوگوں جیسا ہے جن کے دل امام حسینؑ کے ساتھ اور تلواریں یزیدی حکومت کی ہمنوا تھیں۔ ہم آج بھی حق عاشور ادا کر سکتے ہیں، مظلوموں، بے کسوں بے نواؤں اور محروم طبقات کی دست گیری کر کے، حق عاشور اس طور پر ہی ادا ہو سکتا ہے کہ ہم رنگ و نسل، ذات پات اور مسلکی تقسیم سے بالاتر ہو کر ایک ایسے نظام کے قیام کے لئے جدو جہد کریں جو اس ملک کے زیر دست طبقات کو شرف انسانی کے اعلیٰ معیار سے ہمکنار کر دے۔
حق عاشور یہی ہے کہ غلط کو غلط اور درست کو درست کہا جائے، جبر و ستم اور استحصال کو ٹھوکروں سے اڑا دیا جائے۔ کربلا میں سرکار دو عالم حضرت محمدؐ کے عالی مرتبت نواسے امام حسینؑ نے خود اپنی زبان مبارک سے دو ٹوک انداز میں واضع کر دیا تھا کہ "اعلائے کلمتہ الحق ہمارا فرض ہے، طبقاتی تقسیم انقلاب محمدؐ کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے، اسلام وحدت، امن اور مساوات کی تعلیم دیتا ہے"۔
ہمارے چار اور، اور بالخصوص پاکستان میں آج جو حالات ہیں یہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم مقصد قیام امام حسینؑ کو شعوری طور پر سمجھنے کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ ریگزار کربلا میں قربان ہونے والے محبوبانِ خدا کی پیروی کرتے ہوئے عدم مساوات، انصاف کی فروخت، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور طبقاتی امتیازات کے خلاف اعلائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کریں۔
یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم مخصوص سیاسی مقاصد کے لئے کسی کو حسینی اور یزیدی قرار دینے کی بجائے اپنے عصری شعور سے اس ابدی سچائی کو تسلیم کریں کہ طبقاتی امتیازات، عدم مساوات، سرکاری وسائل پر چند سو یا ہزار خاندانوں کی اجارہ داری، طبقاتی انصاف، جبر و ستم اور استحصال نے یزیدیت سے جنم لیا ہے۔ مقابلتاً، محبت و ایثار، سماجی وحدت، بلا امتیاز انصاف، مساوات اور شرف آدمیت پیغام حسینیتؑ ہے۔
آج کے دن جہاں ہمیں احتساب ذات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے وہیں اس امر پر بھی غور و فکر کرنا چاہئے کہ کہیں ہم یاد شاہ شہیداںؑ مناتے ہوئے پیغام شاہ شہیداںؑ کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے؟ اس سوال کا جواب ہی ہماری انفرادی و اجتماعی جدوجہد میں رہنمائی کا باعث بنے گا، اور جواب ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ حق بندگی ادا کرنا ہی اصل حسینیتؑ ہے، حسینیتؑ یہی ہے کہ اپنے حصے کا سچ وقت پر بولا جائے اور اپنے عہد کے ظالموں اور استحصالی نظام کے خلاف فکری استقامت کے ساتھ قیام کیا جائے۔