Pakistanio Ki Scienci Tehqeeq Aur Inke Khilaf Sazishain
پاکستانیوں کی سائنسی تحقیق اور ان کے خلاف سازشیں
سوشل میڈیا کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ ویسے ہر نئی ایجاد کے فائدے اور نقصانات ہوتے ہیں۔ اب یہ آپ کے شعور پر ہے کہ نئی ایجاد سے مثبت کام لیتے ہیں یا منفی۔ مثلاً تحقیق کرکے دیکھ لیجئے سوشل میڈیا کی کچھ سائٹس پر غیر مثبت چیزوں کی کھوج میں جنوبی ایشیاء کے لوگ پہلے اور ان میں سے مزید پہلے نمبر پر اہل پاکستان ہیں۔
اقوال گھڑنے اور پھر انہیں پسندیدہ بزرگ سے منسوب کرکے سوشل میڈیا کی زینت بنانے والوں میں پاکستانی بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ آپ کسی دوسرے مسلم عقیدے کا جتنا مذاق اڑائیں گے مخالف مسلک والے داد دیں گے جونہی ان داد گیروں کے عقیدے پر سوال اٹھائیں گے وہ آپ کی جان کو آجائیں گے۔
ویسے میں ذاتی طور پر اس رائے کا حامی ہوں کہ بات کرنے کا سلیقہ ہونا چاہیئے۔ یہ سلیقہ مجھے اور آپ کو دوسروں کی دل آزاری سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
تمہید قدرے طویل ہوگئی۔ وجہ یہ رہی (تمہید کی نہیں آج کالم کی) کہ ایک مہربان دوست نے اہل پاکستان کی سائنسی تحقیق کے زریں کارناموں سے عبارت چند سطور اپنی فیس بک وال پر نقل کیں تو میں کافی دیر تک ہنستا رہا۔ یہ تحقیق دو معاملوں میں تھی ایک تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوئے سستی روٹی پروگرام بارے دوسری پولیو کے قطروں کے حوالے سے۔
بھٹو دور میں سستی روٹی کے پلانٹ لگے اس کی وجہ سے بہت آسانیاں بھی پیدا ہوئیں، پھر ایکا ایکی یہ پروپیگنڈہ شروع ہوگیا کہ سستی روٹی والا آٹا ہمارے مردوں کو قوت مردانگی سے محروم کردے گا۔ بڑے بڑے جمعہ بازوں نے اس پر جمعے لگائے۔
پولیو کے قطروں کے حوالے سے آج بھی اس ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی کی یہی سوچ ہے کہ ان قطروں سے ہمارے بیٹوں کو "بنجر" بنانا مقصود ہے۔ چند برس قبل ایک معروف اداکار جو بڑے شہر کے پوش علاقے میں رہتے تھے پولیو ٹیم سے اس بات پر الجھ پڑے تھے کہ میں یہ غیراسلامی قطرے اپنے بچوں کو کیوں پلائوں۔ ٹی وی اور فلموں کے نوجوان اداکار فواد خان پولیو ٹیم صرف الجھے ہی نہیں بلکہ ان کے ملازمین نے مالک کے ساتھ مل کر پولیو ٹیم کی "گیدڑ کٹ" بھی لگائی۔
پولیو ٹیم کے ساتھ حفاظتی پولیس گارڈ کی تعیناتی کے باوجود درجنوں نہیں سینکڑوں منحوس واقعات رونما، درجنوں پولیس اہلکار اور درجنوں ہی پولیو ٹیم کے رضاکار پچھلے چند برسوں کے دوران شہید ہوچکے ہیں۔
ہم مزید بات کرتے ہیں پہلے آپ کو یہ بتادوں کہ اس فیس بک فرینڈ کی وال پر میں نے عرض کیا "پاکستانیوں کی یہ سائنسی تحقیق 1960ء کی دہائی میں پرائمری سکولوں میں تقسیم ہونے والے خشک دودھ کے پیکٹوں سے شروع ہوئی تھی تب مساجد میں جمعہ لگاکر بتایا گیا کہ یہود و ہنود ہمارے بچوں کو اس خشک دودھ میں ایسی دوائی ملاکر دے رہے ہیں جس سے بچے "کھسی" ہوجائیں گے۔ یہ اصل میں عالم اسلام کے خلاف سازش ہے تاکہ مسلمان اور اسلام دنیا پر غالب نہ آسکیں۔
یہ پروپیگنڈہ اتنا موثر ثابت ہوا کہ بعض شہروں میں اسلامی جماعتوں نے احتجاجی جلوس نکالے دین داروں کے وفد سکولوں کے سربراہوں سے ملے لگ بھگ ایک ماہ کے اندر ہی "کھسی" کردینے والے خشک دودھ کی سکولوں میں تقسیم روک دی گئی۔ مسلمان اور اسلام دونوں"کھسی" ہونے سے بچ گئے۔
تاریخ و سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کم از کم مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ دیگر مذہبی برادریوں نے بھی اپنے دور جہالت چلیں عدم آگاہی کہہ لیجئے، میں جدیدیت کی ڈٹ کر مخالفت کی لیکن اس معاملے میں مسلمانوں کااب تک مدمقابل کوئی نہیں۔
مسلمانوں اور خصوصاً برصغیر کے مسلمانوں کی تنگ نظری کو اگر بطور خاص سمجھنا ہو تو پڑوسی ملک بھارت کے ہندو انتہا پسندوں کے طور طریقوں اور جدیدیت کے خلاف رویوں کو ذہن میں لایئے۔ ہمارے پرکھوں اور بزرگوں بلکہ حاضر و موجود بزرگوں کی بڑی تعداد جدیدیت کی کھلی دشمن تھی ہے اور انشاء اللہ رہے گی، آپ کسی دن اکسفورڈ یونیورسٹی اور تاج محل بنائے جانے کا وقت کتابوں سے نکال کر دیکھ لیجئے گا۔
ہم بڑے زعم سے یہ دعویٰ کرتے ہیں مغرب نے سائنسی علوم ہماری کتاب مقدس قرآن اور ہماری دوسری کتابوں سے لئے۔ ہم تو مغربی اخلاقیات اور انصاف و مساوات پر مبنی قانون کو بھی چوری شدہ قرار دیتے ہیں۔ اچھا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اس تحقیق سے ہم نے یعنی ہمارے بڑوں نے یا یوں کہہ لیجئے قدیم مسلم مملکتوں کے لوگوں نے خود استفادہ کیوں نہیں کیا؟
مسلم ممالک کا نصاب تعلیم کبھی یہ نہیں بتائے گا کہ ابن رشد سے یعقوب الکندی اور بو علی سینا تک نے جس تحقیق کو آگے بڑھایا وہ بھی ترجموں کے باعث اس وقت کی مسلم دنیا تک پہنچی تھی۔ اس کے باوجود ہم نے ان لائق احترام شخصیات کے ساتھ کیا سلوک کیا۔
میں نے احتیاطً تین نام لکھے ہیں ورنہ فہرست طویل ہے۔ مسلمانوں نے دیگر علوم و فہم کی کتابوں کے عربی میں تراجم کے لئے ابتدائی ادارے عباسیوں اور مصر کی فاسمی خلافت کے دور میں بنائے ترجموں اور تحقیق کا خاصا کام امویوں شام والے نہیں اندلس والے امویوں نے بھی کیا۔ بدقسمتی سے پھر کٹھ ملائیت غالب آتی چلی گئی۔
بابائے جراعی بو علی سینا برسوں مفرور کے طور پر زندگی بسر کرتے رہے۔ یعقوب الکندی سزاوار ٹھہرے۔ مسلم فلسفہ کے باوا آدم ابن رشد کو قرطبہ کی جامعہ مسجد کے باہر درخت سے باندھ دیا گیا تھا پھر جو ہوا تاریخ میں درج ہے۔
معاف کیجئے گا بات بہت دور نکل گئی ہم پاکستانیوں کی سائنسی تحقیقات پر بات کررہے تھے۔ آجکل اگر آپ کا سوشل میڈیا کی کسی سائٹ پر اکائونٹ ہے تو آپ جانتے ہی ہوں گے ہر طرف محقق، علامے، مفتی، ماہر قانون، سماج سدھار اور سائنسدان دندناتے پھر رہے ہیں۔ آپ بات کرکے دیکھئے۔ کھٹ سے مشورہ اور پٹ سے فتویٰ آیا ای والی بات ہوگی۔
مجھے کبھی کبھی برصغر کی اجتماعی دانش کے اس انجام پر جو ہمارے سامنے ہے رونا آتا ہے۔ امن و علم دوستی میں اپنی بے مثال تاریخ رکھنے والے برصغیر (پاک و ہند) یا ہند و سندھ، میں علم امن دوستی اور تحقیق جن حالات سے دوچار رہے ہیں اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔
ہمیں اس لئے بھی فکر کرنا چاہیے کہ فیصلہ کرسکیں کہ آئندہ نسلوں کو ورثے میں کیا دینا ہے۔ میں جب برصغیر کی اجتماعی دانش کی بات کرتا لکھتا ہوں تو اس کا مطلب انسانی سماج ہے جسے مذاہب و عقائد کا تعصب چاٹ گیا ہے۔ پتہ نہیں ہم کب سمجھ پائیں گے کہ یہودوہنود کے پاس اس قدر فالتو وقت نہیں کہ وہ ہمارے خلاف سازشوں کی فصلیں بوتے رہیں اور ایسی ایسی ایجادات کرتے رہیں جن کا مقصد یہاں کے مسلمانوں کو ذہنی بانجھ اور طبی طور پر "کھسی" بنانا مقصود ہو۔
آخر وہ اس طرح کی سازشیں اور ایجادات سعودی عرب، ایران، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی وغیرہ کے خلاف کیوں نہیں کرتے۔ ہم پست فکروں میں کون سا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں؟
مکالمے کو توہین سمجھتے ہیں جنت کے حصول کی خواہش میں دنیا کو جہنم بنانے میں ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ہماری اپنی کوئی تاریخ ہے نہ شناخت، دونوں مانگے تانگے کی ہیں پھر دنیا کو ہم سے کس چیز کا خوف ہے۔
کیا "پدی اور کیا پدی کا شوربہ"۔ یارو بس کرو اپنی حالت پر نہیں تو اگلی نسلوں کے مستقبل پر رحم کرو حقیقت پسندی اختیار کرو تم ایسے طرم خان اور ناگزیر ہونہ کوئی پسندیدہ مخلوق
آدمی ہو انسان بننے کی کوشش کرو۔
حرف آخر یہ ہے کہ آدمی سے انسان بننے کے شعوری سفر سے جب تک بھاگتے رہیں گے اسی طرح کے حالات اور وہموں کا شکار رہیں گے۔ کچھ پڑھنے سمجھنے کی کوشش کیجئے حُبِ جنت میں دنیا کو جہنم بنانے میں حصہ ڈالنا بند کردیجئے۔
یہی ہماری آئندہ نسلوں کے حق میں بہتر ہوگا ورنہ وہ بھی ہماری طرح لکیر کے فقیر اور کودن ہی ہوں گے۔