Naqabil e Bardasht Mehangai
ناقابل برداشت مہنگائی
مہنگائی کی موجودہ شرح رواں برس کی نہیں بلکہ پچھلی نصف صدی کی بلند ترین سطح پر ہے۔ عام آدمی کے لئے زندگی بسر کرنا ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل ہورہا ہے یہ بھی بدقسمتی ہی ہے کہ زرعی معیشت والے ملک میں اس وقت تیس فیصد آباد ایک وقت کھانا کھاتی ہے۔
یہ تیس فیصد والی بات ہوائی بالکل نہیں ہمارے جاننے والوں میں بھی چند خاندان صبح کا ناشتہ رات کے بچے ہوئے روٹی کے ٹکرے چائے میں بھگو کر کرتے ہیں یہ باسی روٹی ظاہر ہے فقط ایک وقت کھانا بنا سکنے والوں کے دسترخوان پر نہیں بچ پاتی۔
معاف کیجے گا میں اس سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
ستم یہ ہے کہ اس صورتحال کا حکومت وقت (وفاقی و صوبائی حکومتوں) کو احساس ہے نا ہی سیاسی جماعتوں اور سماج سدھاروں کو، لے دے کر حکومتی سبسڈی پر چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز سفید پوش اور محنت کش طبقات کے لئے ایک سہارا تھے جن پر سبسڈی کی وجہ سے روزمرہ ضرورت کی اشیاء بازار سے کم نرخوں پر مل جاتی تھیں۔
لیکن پچھلے ایک سال کے دوران یوٹیلٹی سٹورز کے ذمہ داران پر بھی حکومتی سبسڈی کے باوجود اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بازار کی سطح پر لانے کا بھوت سوار ہے اس طور کم نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کا یہ دروازہ بھی تقریباً بند ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر سے رواں ماہ دسمبر تک کے درمیانی 14مہینوں میں یوٹیلٹی سٹورز پر کم و بیش 9بار قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ گزشتہ روز کے نوٹیفکیشن کے مطابق برانڈڈ گھی کی قیمت میں 79روپے اور دیسی گھی کی فی کلو قیمت میں 220روپے اضافہ کیا گیا۔ جن دیگر اشیاء کے نرخ بڑھائے گئے ان میں دودھ، ٹماٹر کیچپ، ملک کریم، بچوں کا خشک دودھ، نوڈلز، نمک، سیب اور منگو کے جام، مختلف بسکٹ، مصالحہ جات اور صابن وغیرہ شامل ہیں۔
نئی قیمتوں کا اطلاق 10دسمبر سے کیا گیا۔ ابھی چند دن قبل وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک وفاقی وزیر خرم دستگیر نے مختلف فورمز پر اظہار خیال کرتے ہوئے ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح کی مہنگائی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ یہ عندیہ بھی دیا کہ حکومت قیمتوں کو اعتدال پر لانے کے لئے کوشاں ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے تو اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ مہنگائی پر قابو نہ پاسکنے کی وجہ سے پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں بالخصوص (ن) لیگ کو شہری حلقوں میں سخت سوالات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشکل وقت گزرگیا اب حکومت لوگوں کو ریلیف دینے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے گی۔
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن ازخود قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکتی اس طور یہ سوال نامناسب نہیں کہ کیا یہ وہی ریلیف ہے جو شہریوں کو قیمتوں میں اضافے کی صورت میں دیا گیا؟ ویسے اس طرح کے دوچار ریلیف اور مل جائیں تو عوام کے سترہ اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
ادھر گزشتہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی مجموعی شرح 30.66 فیصد رہی۔ اداریہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے کے دوران 24 اشیاء کی قیمتیں بڑھیں۔ ہفتہ وار رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ دال مسور، مرغی، کوکنگ آئل اور گھی کے نرخوں میں کمی ہوئی جبکہ مارکیٹ کے نرخ اس دعوے کے برعکس ہیں جبکہ پچھلے ہفتے کے دوران دودھ، چاول، دہی، آٹا، پیاز، چینی اور فارمی انڈوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ برائلر مرغی اورفارمی انڈوں کی قیمت میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے۔
بڑے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں آٹا آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔ آٹے کے 10کلو 15اور 20کلو والے تھیلے اصل نرخ سے 80روپے زائد پر مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چکی کے آٹے کی قیمت 5روپے کلو تک بڑھادی گئی۔
کڑواسچ یہ ہے کہ مہنگائی کے ستائے خون کے آنسو روتے شہریوں کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں داد رسی ہونی بھی نہیں چاہئے کیونکہ اگر پیٹ بھر گیا تو مستیاں کرنے لگیں گے۔
9ماہ قبل جو سیاسی قائدین مہنگائی کو پی ٹی آئی کی ناتجربہ کار ٹیم کی بدولت پیدا ہوئے عذاب کہا کرتے تھے وہ تجربہ کار قائدین اولاً تو اب دستیاب نہیں بالفرض کوئی مل بھی جائے تو وہی مروجہ سیاست کا روایتی موقف "ہمیں تو تباہ شدہ معیشت اور بدحالی ورثے میں ملی ہے"۔
سوال یہ ہے کہ تباہ شدہ معیشت اور بدحالی کا ورثہ قبول کرنے کے لئے کسی نے منت کی تھی؟ ماضی میں تو یہ حضرات کہا کرتے تھے حکومت ملتے یہ سب سے پہلا کام مہنگائی میں کمی لانے کا کریں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی حکومت کے 9ماہ میں شہریوں کو بدترین مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ روپے کی قدر روزانہ کی بنیاد پر کم اور ڈالر کی بڑھ رہی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں 9ماہ کے دوران تقریباً ڈیڑھ دوسو ارب روپے ڈوب چکے۔
یہ امر بجا طور پر درست ہے کہ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن کا مسئلہ ہمیشہ رہا لیکن یہ بھی تلخ ترین حقیقت ہے کہ اس دور میں یہ مسئلہ ایک عذاب کی صورت لئے ہوئے ہے۔ دیہاڑی دار محنت کش کو 5کے مقابلہ میں اب ہفتہ میں 3دن مزدوری مشکل سے ملتی ہے۔
ہماری رائے میں وفاقی حکومت کو چاہیے کہ چاروں صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر مہنگائی میں کمی لانے کے لئے حکمت عملی وضع کرے۔ یہاں اس امر کی جانب توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ بلوچستان اور سندھ کےسیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 80 فیصد کے قریب علاقوں میں اب بھی سیلابی پانی کھڑا ہے۔ متاثرین سیلاب دہائیاں دے رہے ہیں۔
موسم کی سختی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ ان متاثرہ علاقوں میں روزمرہ ضرورت کی اشیاء معمول کے نرخوں سے سوفیصد زائد نرخوں پر دستیاب ہیں۔ اکثریت کو ابھی تک خیمے اور دوسرا ضروری سامان نہیں مل پایا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ حکومتی درسگاہوں میں طلباء و طالبات شاکی ہیں۔ مختلف محکموں کے ریٹائر بزرگ مردوزن دو دو تین تین ماہ پنشن نہ ملنے کی شکایت کررہے ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس لے دے کر ایک ہی جواب ہے ہمیں عوام کی حالت زار کا احساس ہے۔ پچھلی حکومت کی پالیسیوں سے ہوئی تباہی نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔
عین ممکن ہے یہ موقف درست ہو مگر عوام کو تو بتایا جائے کہ وہ کیا کریں کس کے دروازے پر فریاد کریں خصوصاً اس طور جب پیاز 220روپے کلو، آلو 140، ہری مرچ 4سو روپے کلو دستیاب ہو۔ مکرر اس صورتحال کی جانب متوجہ کرتے ہوئے بصد احترام یہی درخواست کریں گے کہ عوام کو اس اذٓیت ناک صورتحال سے نجات دلانے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں اور کچھ نہیں تو وفاقی حکومت روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی افغانستان سمگلنگ پر ہی قابو پالے شاید اس سے پانچ سات فیصد قیمتیں کم ہوسکیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ اگر حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کیلئے سنجیدگی اختیار نہ کی تو حالات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں یہ سمجھنا مسلہ فیثا غورث ہر گز نہیں۔