NA 133, N League Ki Fatah
این اے 133، (ن) لیگ کی فتح
لاہور کے حلقہ این اے 133 کے ضمنی انتخابات میں (ن) لیگ کی امیدوار محترمہ شائستہ ملک 46811 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئیں۔ پیپلزپارٹی کے اسلم گل نے 32313 ووٹ لئے۔ (ن) لیگ کو پی ڈی ایم کی جماعتوں کے علاوہ سید ساجد نقوی کی شیعہ علما کونسل اور کالعدم انجمن سپاہ صحابہ کی حمایت بھی حاصل تھی جبکہ پیپلزپارٹی کو عوامی تحریک اور ایم ڈبلیو ایم کی۔
لندن میں مقیم محترمہ مریم نواز کی ایک "سہیلی" جو صحافی ہونے کی دعویدار ہیں، نے سوشل میڈیا پر ایک خوساختہ پوسٹر جاری کیا جس میں پی پی پی کے امیدوار کے ساتھ سعد رضوی اور عمران خان کی تصاویر بھی تھیں۔ الیکشن والے دن (ن) لیگ کے "بڑےخاندانوں " کے لائق فرزندان اس پوسٹر کو لئے دوڑتے بھاگتے رہے۔
5دسمبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 18.59 فیصد تھی۔ 2018ء کے دھاندلی زدہ الیکشن میں (ن) لیگ نے اس حلقہ سے 90ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے۔ تحریک انصاف نے 77ہزار سے زائد اور پیپلزپارٹی نے 55سو کے قریب۔
انتخابی مہم کے دوران پنجاب کا کمرشل لبرل ٹولہ اور پنجاب بیس میڈیا دونوں ایک ہی سانس میں دو باتیں کرتے رہے۔ ایک یہ کہ پیپلزپارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل ہے، دوسری یہ کہ مقابلہ ہی کوئی نہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری نے 95کروڑ خرچ کرکے دو دو ہزار روپے کے حساب سے ووٹ خریدے۔ پیپلزپارٹی کو عیسائیوں نے ووٹ دیئے۔
ٹی ایل پی، عوامی تحریک اور پی ٹی آئی نے پی پی پی کو ووٹ دیا حالانکہ ٹی ایل پی نے پیپلز پارٹی کی حمایت نہیں کی انتخابی مہم کے دوران دو باتیں تھیں اب چار پانچ بودی منطقیں ہیں، ان سطور میں قبل ازیں عرض کیا تھا کہ "این اے 133میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کے کوئی چانس نہیں البتہ اگر وہ 20ہزار یا اس سے کم زیادہ ووٹ لے گئی تو وسطی پنجاب کے سیاسی عمل میں اس کی واپسی ہوجائے گی" پپلزپارٹی کی واپسی ہوگئی اس کے باوجود کہ (ن) لیگ کے "دولہا بھائی" چیف الیکشن کمشنر کا ادارہ اور لاہور کی انتظامیہ نے کھل کر (ن) لیگ کا ساتھ دیا۔
پولنگ والے دن دونوں حریفوں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگائے۔ کارکنوں نے ایک دوسرے کے خوب لتے لئے۔ انتخابی نتیجہ آنے کے بعد ماہر امورِ تنظیم سازی دھمال چودھری نے "ماکھو پہلوان" کی دی ہوئی تربیت کے عین مطابق راوی کے پانی میں دھلی ہوئی زبان استعمال کی۔ اس ضمنی انتخابات کی مہم نے (ن) لیگ کو ایک بار پھر پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں میں لے جا کھڑا کیا تب (ن) لیگ کے مالکان ملازمین اور ہمدرد محترمہ بینظیر بھٹو کے لئے بدزبانی کیا کرتے تھے اب بلاول بھٹو نشانے پر تھے۔ اس سول سپرمیسی راگ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
تحریک انصاف کے امیدوار اور ان کی اہلیہ دونوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے تھے۔ تحریک انصاف نے اپنے ووٹروں سے مسلسل انتخابی عمل میں شریک نہ ہونے کی اپیل کی۔ انتخابات والے دن بھی بعض میڈیا ہائوسز نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے بیانات نشر کئے کہ ہماےر ووٹر گھروں سے نہ نکلیں۔ سعد رضوی کی جماعت نے کسی بھی سطح پر پیپلزپارٹی کی حمایت نہیں کی نہ وہ عملی طور پر انتخابی عمل میں شامل تھی۔ جے یو آئی کے لاہور میں موجود دینی مدارس کے طلبا اور ذمہ داران اپنے مکتب فکر کے ووٹروں کو (ن) لیگ کے لئے فعال کرنے کی مہم میں البتہ مصروف رہے۔
انتخابی سیاست کی الزام تراشیوں اور بدزبانیوں (بدزبانی یکطرفہ تھی اس میں شریف یونیورسٹی کے طلبا و طالبات نے بھرپور حصہ لیا) کا وقت ختم ہوا۔ پیپلزپارٹی کو اپنے دو اتحادیوں عوامی تحریک اور ایم ڈبلیو ایم کے ووٹ ملے۔ حلقہ میں عوامی تحریک کے مقابلہ میں ایم ڈبلیو ایم نے زیادہ فعال کردار ادا کیا۔ علامہ ساجد نقوی کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑی رہی کیونکہ انہوں نے (ن) لیگ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ پیپلزپارٹی نے انتخابی مہم بھرپور انداز میں چلائی اس کے کارکن اور وسطی پنجاب کی سطح کی قیادت کے علاوہ دوسرے صوبوں اور خصوصاً سندھ کے رہنما بھی انتخابی مہم میں شریک ہوئے۔
یہ کہنا کہ زرداری نے 95کروڑ روپے سے ووٹ خریدے ایسا ہے تو زرداری کو چاہیے تھا کہ 50کروڑ اور لگاکر سیٹ ہی جیت لیتا۔ انتخابی سیاست میں الزامات لگتے ہیں، دونوں طرف سے لگے ووٹوں کی خریداری کی ویڈیوز کو (ن) لیگ نے جعلی قرار دیا۔ میڈیا ہائوسز نے (ن) لیگ کے موقف کو "درست" کے طور پر پیش کیا۔ ٹی وی چینل اور یو ٹیوبرز روز اول سے پیپلزپارٹی کا ذکر حقارت کے ساتھ کرتے دیکھائی دیئے۔ اس انتخابی عمل (ضمنی انتخاب) نے ایک بات باردیگر طے کردی کہ (ن) لیگ کے گھر اور کارکنوں کے دلوں میں اپنی حریف پیپلزپارٹی کے لئے نفرت ہی نفرت ہے۔
تاریخی اور اصولی طور پر یہ درست بھی ہے کیونکہ (ن) لیگ کی بنیاد بھٹوز سے نفرت پر رکھی گئی تھی جن ماہ و سال میں پنجاب میں بھٹو اور اینٹی بھٹو سیاست ہوتی تھی انہی میں (ن) لیگ کی تخلیق ہوئی اور آج بھی وہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے "اصل" پر کھڑی ہے۔ پی پی پی نے اس انتخابی مہم میں این اے 133 کی ان آبادیوں میں توجہ مرکوز کی جو متوسط اور نچلے طبقے کی آبادیاں ہیں ان آبادیوں میں وہ بھی شامل ہیں جن کے لئے (ن) لیگ کے تین "خاندانی" رہنمائوں خواجہ سعد رفیق، احمد پرویز ملک اور عطاء اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ عیسائیوں کے ووٹ خریدے گئے۔
این اے 133 کے ضمنی الیکشن کے دوران اور انتخابی نتائج کے بعد کی الزام تراشی کو الگ اٹھارکھئے یہ حقیقت ہے کہ پی پی پی نے اتحادیوں کے تعاون سے اچھی واپسی کی۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اب پیپلزپارٹی کو مستقبل میں کسی ایسے سیاسی اتحاد میں شمولیت جس میں (ن) لیگ موجود ہو کے وقت اپنے کارکنوں کی مزاحمت کا سامناکرنا پڑے گا۔ پچھلے عام انتخابات میں اس حلقہ میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 51.89 فیصد تھی۔ 5دسمبر کو 18.59 ووٹ ڈالے گئے۔ (ن) لیگ کو اصولی طور پر اس کم شرح پولنگ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے غور کرنا چاہیے کہ اس کے حامی رائے دہندگان گھروں سے کیوں نہیں نکلے؟
یا پھر وہ بھی یہ بات مان لے کہ اس حلقہ میں رائے دہندگان کی بڑی تعداد اس سے ناراض تھی۔ ناراضگی کی بہت ساری وجوہات ہیں ان میں سے اہم وجہ متوسط اور نچلے طبقوں کی آبادیوں کے مکینوں کا شکوہ کہ اپنے دور اقتدار میں (ن) لیگ نے ان کے علاقوں کو نظرانداز کیا۔ جہاں تک آصف زرداری کے 95کروڑ میں خریدے گئے ووٹوں کا تعلق ہے تو یہ ایسا ہی الزام ہے جیسے پی پی پی کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ (ن) لیگ نے اس انتخابی مہم میں 3ارب روپے پھونکے۔ میاں نوازشریف کا ووٹ بینک ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اسی طرح یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ پی پی پی نے انتخابی عمل کو یکطرفہ نہیں بننے دیا۔
اس کے کارکنوں نے حلقہ میں خوب رونق لگائی۔ پیپلزپارٹی کو 9جماعتی پی ڈی ایم کے ساتھ پنجاب میں میڈیا، مجاہدین سول سپرمیسی، یوٹیوبرز، دولہا بھائی (چیف الیکشن کمشنر) اور لاہور کی انتظامیہ کا سامنا تھا۔ ایک بات کی داد دینی چاہیے پیپلزپارٹی کو کہ اس نے انتخابی مہم کے دوران (ن) لیگ کے "خاندانی رہنمائوں " اور سلجھے ہوئے کارکنوں جیسی زبان دانی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
حرف آخر یہ ہے کہ ماکھو پہلوان مرحوم کے شہزادے طلال چودھری نے انتخابی نتیجہ آنے کے بعد جو خطاب کیاوہ (ن) لیگ کا اصل چہرہ، زبان اور "معراج" ہے۔