Musallah Jathon Ki Akhri Jang, Waqai?
مسلح جتھوں کے خلاف " آخری جنگ " واقعی؟
دوتین دن قبل آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بنوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو آخری جنگ کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ "کسی کو ریاست کی رٹ چیلنج نہیں کرنے دیں گے"۔ وزیرستان اور ایس ایس جی ہیڈ کوارٹر کے دورہ کے موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ "بنوں آپریشن میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو کالعدم ٹی ٹی پی بھی اپنا نقصان سمجھ رہی ہے اور یہ امن دشمنوں کے لئے ہمارا عملی جواب بھی ہے"۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر میں آنے والی تیزی بالخصوص بنوں میں سی ٹی ڈی کے مرکز پر دہشت گردوں کے قبضے اور اسلام آباد میں ایک خودکش حملہ آور کا خودکو ساتھی خاتون سمیت اڑالینا ہر شہری کے لئے باعث تشویش واقعات ہیں۔
اگرچہ بنوں میں ایک کامیاب آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیا گیا اور اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں نے جوانمردی کے ساتھ شہریوں کو بڑے نقصان سے بچالیا مگر اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کو کچلنے کے لئے افواج، قانون نافذ کرنے والے محکموں، سیاسی و حکومتی قیادت اور عوام کو متحد ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی۔
کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے ہم خیال مسلح جتھے کیا چاہتے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ افغان حکومت نہ صرف پڑوسی ملکوں میں انسانیت دشمن کارروائیوں میں مصروف دہشت گردوں کی سرپرستی و معاونت کررہی ہے بلکہ اس کے بعض رہنما دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا یہ کہہ کر دفاع کرتے دیکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح ہم نے 20سال امریکہ کے خلاف جہاد کیا اس کی اتحادی تنظیمیں بھی ویسا ہی جہاد کررہی ہیں۔
یہ سوچ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ افغان حکومت کو نہ تو دوحا معاہدہ کی شرائط کی پاسداری سے کوئی دلچسپی ہے نہ ہی علاقائی امن سے۔ اسی طرح پاکستانی حکومت اور عوام پر بھی یہ واضح ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی جتھے کیا چاہتے ہیں۔
کابل مذاکرات میں ٹی ٹی پی کی جانب سے پیش کئے جانے والے 6مطالبات اس کے عزائم کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پاک افغان سرحدوں سے فوج کو ہٹانے، آزادانہ آمدورفت اور سابق قبائلی علاقوں کی فاٹا ریگولیشن جیسے سیاہ قانون کے تحت بحالی کے ساتھ اہم ترین مطالبہ ان علاقوں میں ٹی ٹی پی کی عملداری کو قبول کرنے کا ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ریاست اپنی جغرافیائی حدود میں ایک مادرپدر آزاد ریاست کو تسلیم کرلے اور یہ کہ ایک کروڑ کے قریب شہریوں کو درندوں کے غول کے سامنے پھینک دے۔
ظاہر ہے کہ ریاستی قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے نہ ہی جدید دنیا میں ایسی کوئی مثال موجود ہے کہ ایک ریاست کی حدود میں منہ زور ذیلی ریاست کا وجود تسلیم کرلیا جائے۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر کے آغاز پر کالعدم ٹی ٹی پی نے کسی مبینہ معاہدے کے تحت واپسی کا دعویٰ کیا تھا۔ عسکری حکام اور وفاقی حکومت دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے کسی معاہدہ کی تردید کریں یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی جس مبینہ معاہدہ کا ذکر کرتی رہی ہے اس کے حوالے سے اس نے تین شخصیات کے نام بھی لئے افسوس کہ ان تین شخصیات نے ابھی تک چپ سادھ رکھی ہے حالانکہ ان کا فرض تھا وہ کسی تاخیر کے بغیر اس معاہدہ کی تردید کرتے۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ فی الوقت دو امور انجام دینے کی اہمیت مسلمہ ہے اولاً دہشت گردی کے خلاف آخری جنگ کے لئے مثالی اتحاد کا قیام اور ثانیاً افغان انقلاب ثور کے وقت سے پسندوناپسند پر استوار ہوئی افغان پالیسی پر نظرثانی۔
اس پالیسی نے پاکستان کو بے پناہ معاشی نقصان پہنچانے کے ساتھ اس ملک کے تقریباً اسی ہزار افراد کو موت کا رزق بنایا۔ دو اڑھائی برس قبل اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چالیس سالہ افغان پالیسی کے نقصانات کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر نظرثانی کا عندیہ دیا تھا۔
افسوس کہ یہ عندیہ صرف زبانی کلامی ہی رہا عملی طورپر اس ضمن میں رتی برابر کام بھی نہیں ہوا۔ جنرل باجوہ طاقتور آرمی چیف رہے حکومتوں کی تشکیل اور الیکشن مینجمنٹ کے لئے انہوں نے جن مہارتوں کا استعمال بے دریغ کیا کاش ایسی مہارتوں کا مظاہرہ وہ دہشت گردی کے خاتمے اور افغان پالیسی پر نظرثانی کے اپنے اعلان پر عمل کے حوالے سے بھی کرتے۔
بہرطور وقت اب بھی ہاتھ سے نکل نہیں گیا۔ موجودہ آرمی چیف بنوں آپریشن کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آخری جنگ کا آغاز قرار دے رہے ہیں تو ہم ان کی خدمت میں یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں سمجھتے کہ آخری جنگ تبھی جیتی جاسکتی ہے جب پالیسیاں دو رخی نہ ہوں۔ وفاقی حکومت کسی تاخیر کے بغیر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ساتھ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرے اور افغان پالیسی پر کھلی بحث کی جائے۔ پارلیمنٹ نئی افغان پالیسی وضع کرے اور یہی حتمی ہو۔
تاکہ دہشت گرد تنظیموں کے لئے سہولت کاری کرنے والے افراد، تنظیموں اور اداروں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کو یقینی بنایا جاسکے۔ پاکستان کسی مخصوص طبقہ کی جاگیر نہیں کہ وہ بندوق کی طاقت سے اپنے فہم کو اسلام کے نام پر مسلط کرنے کی زورآوری کرتا پھرے۔
بائیس کروڑ انسانوں کے اس ملک کا اپنا دستور اور نظام ہے۔ اس دستور اور نظام سے انحراف کرنے یا ان سے ٹکرانے والوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔
یہاں ہم اس امر کی تحقیقات کا بھی مطالبہ ضروری خیال کرتے ہیں ماضی اور اب جن لوگوں نے دہشت گردوں کے لئے سہولت کاری کی ان کے خلاف ملکی قانون کے تحت کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔
ثانیاً یہ کہ کابل مذاکرات کے 6مطالبات میں مختلف ریاستی آپریشنوں کے دوران مارے گئے دہشت گردوں کا معاوضہ طلب کیا گیا تھا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ معاوضہ کی رقم ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سنگین مقدمات میں سزا یافتہ دہشت گردوں کی رہائی کے عمل کے ساتھ کوئی رقم تو دہشت گرد تنظیم کو نہیں دی گئی؟ یہ عرض کرنا بھی ازبس ضروری ہے کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے کسی رعایت، ہمدردی اور رحم کے حقدار ہرگز نہیں اس لئے کالعدم ٹی ٹی پی کے لئے کسی بھی طرح کا میدان کھلا نہ چھوڑا جائے۔
دہشت گردی کے ناسور کو پھیلنے سے روکنے کے لئے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ خیبر پختونخوا میں بھتہ مافیا سرگرم ہے اسے کچلنے کے لئے بھی پوری طاقت استعمال کی جائے۔ یہ بھی پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ کو مزید بہتر بنایا جائے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سرگرم عمل دہشت گردوں کو کچلنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں رہنا چاہیے کہ ایک جمہوری ریاست میں نظام حکومت کے حوالے سے فیصلہ کن حیثیت رائے دہندگان کو حاصل ہے۔
کسی مسلح جتھے کے خودساختہ اسلامی نظام کے فہم پر کمزوری دیکھانے کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرے فرقوں کو من مانی کرنے کا راستہ دیکھایا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف آخری جنگ لڑنے کے لئے مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے محکمے، عوام، سیاسی قیادت اور حکومت تمام متحد ہوکر دستور، ریاست اور جمہوریت کا دفاع کریں گے۔
پاکستان کی سالمیت امور ملکت دستور و جمہوریت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا۔ اسی طرح کالعدم ٹی ٹی پی کی پشت بانی میں مصروف افغان حکومت پر بھی دو ٹوک انداز میں واضح کرناہوگا کہ وہ آگ سے کھیلنے سے گریز کرے اور اپنی سرزمین کو دراندازی کے لئے استعمال نہ ہونے دے اور یہ کہ کراچی سمیت بعض شہروں میں افغان طالبان کے لئے جاری چندہ مہم کو بھی کسی تاخیر کے بغیر بند کروایا جائے۔