Maryam Ki Bareeat Aur Imran Ki Mazrat
مریم کی بریت اور عمران کی معذرت
لیجئے مریم نوازشریف ایون فیلڈ ریفرنس سے بری ہوگئیں، نااہلی بھی تمام ہوئی۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ "مریم نواز پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں اس لئے اثاثوں کا کیس نہیں بنتا۔ یہ بھی کہا گیا کہ کیس شاید ٹھیک ہو مگر نیب ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کسی کی سنی سنائی بات پر فیصلہ نہیں کرسکتے"۔
مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر اعوان بھی اس ریفرنس سے بری کردیئے گئے۔ سوشل میڈیا پر ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور ان کے شوہر محمد صفدر اعوان کی بریت کے فیصلے کو لے کر گھمسان کا "رن" پڑا ہوا ہے۔ (ن) لیگ اسے انصاف کی فتح اور تحریک انصاف جمعرات 29ستمبر کے دن کو تاریخ کا ایک تاریک دن قرار دے رہی ہے۔
چند دن قبل جب اسی اسلام آباد ہائیکورٹ کے فل بنچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت والے مقدمے میں سے دہشت گردی کی دفعات ختم کی تھیں تو تحریک انصاف کے نزدیک انصاف کی فتح تھی۔ (ن) لیگ کے نزدیک لاڈلے کو بچانے کی کوشش اور طعنہ۔ احتساب عدالت کے فیصلے (ایون فیلڈ ریفرنس والے) میں قانون دانوں کے نزدیک سقم تھے۔ فیصلے کے وقت بھی ملک کے نامور قانون دانوں نے اس پر تحفظات ظاہر کئے تھے۔
سزا کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر تھی۔ گزشتہ روز اس کا فیصلہ آگیا۔ اس کیس میں نیب نے کتنی بار التوا لیا اور مریم نواز کے وکلاء نے کتنی بار۔ عدالت کے ریکارڈ سے حقیقت دریافت کی جاسکتی ہے۔ تحریر نویس کی معلومات کے مطابق نیب نے مریم نواز کے وکلاء کے مقابلہ میں 50فیصد زائد بار التوا لیا۔
اس ریفرنس میں 2018ء کے انتخابات سے قبل سزائیں سنائی گئی تھیں۔ تب عرض کیا تھا کہ "فیصلہ عین ممکن ہے دستیاب شواہد پر مبنی ہو لیکن فیصلہ سنانے کے لئے وقت کا انتخاب فیصلے کو ہمیشہ متنازعہ بنائے رکھے گا" کیونکہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ فیصلہ سنانے میں جلد بازی انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لئے ہے یا الیکشن مینجمنٹ سے توجہ ہٹانے کے لئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر جمعرات 29 ستمبر کا دن اس ملک کی تاریخ کا تاریک دن ہے تو تحریک انصاف نے اپنے پونے چار برسوں کے دور اقتدار میں ایک روشن دن قوم کو کیوں نہ دیکھایا؟
ایون فیلڈ ریفرنس کا حتمی فیصلہ یہی ہونا تھا۔ وجہ نیب کے کمزور شواہد، گواہ اور غیرضروری دستاویزات ہیں۔ نیب والے اگر عمران خان کے حکم پر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ کو عید کی رات کو ہسپتال سے جیل منتقل کرسکتے ہیں تو پونے چار برسوں میں اس ریفرنس کی حقیقی معنوں میں پیروی کیوں نہ کی؟ تاریخ کے تاریک دن والوں کو اصل میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔
ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم صرف اپنے اپنے پسندیدہ رہنما اور جماعت کو نیک و پارسا سمجھتے ہیں دوسروں کا ذکر کرتے ہوئے آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ جب یہ ریفرنس بنے تب لالہ باجوہ (ن) لیگ کا ہدف تھے اپیل کے فیصلے کے بعد انصافی انہیں آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ اپنے اپنے وقت اور ضرورت کے لئے دونوں نے جو گل افشانی کی وہ یہاں نقل کرنا مشکل ہے۔ حدِ ادب سے زیادہ صحافتی اخلاقیات اور پابندیوں یعنی حدود کا معاملہ ہے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس کا اصل رزق حدیبیہ ملز والا معاملہ تھا۔ اس کا ذکر کئے بغیر سرابوں کے پیچھے دوڑتے رہنے جیسا تھا۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہی بات درست ہے۔ حدیبیہ ملز والے معاملے میں نیب نے اپیل کے لئے مقررہ قانونی مدت ضائع کیوں کی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ نیب جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زائدالمیعاد اپیلوں کی سماعت کی نظیر کے ساتھ لے کر گئی تو معزز جج صاحب نے نیب کی فائل پٹختے ہوئے کیوں کہا کہ "آئندہ عدالت میں اس معاملے کا نام بھی لیا تو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا"۔
یہ ریکارڈ کی بات ہے۔ قانون دان بہتر بتاسکتے ہیں لیکن مجھ طالب علم کی رائے میں نیب کو یہ ریمارکس تحریری طور پر مانگنے کے لئے درخواست کرنی چاہیے تھی اور پھر فل کورٹ اپیل کی درخواست بھی۔ پی ٹی آئی کے پونے چار برسوں میں دونوں کام نہیں ہوئے حالانکہ اس پر مسلسل مہربانیاں ہوتی رہیں۔ مثلاً "بنی گالہ والا گھر ریگولرائز کرانا اور صادق و امین قرار دینا"۔ دونوں معاملات پر اختلافی آراء موجود ہیں لیکن اس وقت جناب ثاقب نثار کا طوطی بولتا تھا۔
بہرحال سامنے کی بات یہ ہے کہ مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس سے بری ہوگئیں۔ خاک اڑائیں، روئیں، منہ بسوریں، تاریک ترین دن کہیں یا جو جی میں آئے کہیں، میں فقط یہی عرض کرسکتا ہوں پانامہ میں بلاکر اقامہ اور بیٹے سے نہ لی گئی تنخواہ میں سزائیں دلوائیں گے تو یہی ہوگا یعنی اسی طرح ہوگا۔
جمعرات کو مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس سے بری ہوئیں جمعہ کو ہی دفعہ 144کی خلاف ورزی والے مقدمہ میں ضمانت کروانے اسلام آباد کچہری گئے ہوئے عمران خان اپنے وکیل بابر اعوان کے کہنے پر خاتون ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت پہنچ گئے۔ عمران خان کو خاتون ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں لے جانے سے قبل ان کے وکیل بابر اعوان نے اپنے اسسٹنٹ کو متعلقہ عدالت بھجوایا۔
اسسٹنٹ نے واپسی پر بتایاکہ خاتون جج صاحبہ رخصت پر ہیں۔ اس جواب کے بعد بابر اعوان عمران خان کو خاتون جج کی عدالت میں کیوں لے گئے یہ وہی بتاسکتے ہیں۔ بہرحال خان صاحب اپنے وکلاء کے ہمراہ خاتون جج کی عدالت پہنچے انہوں نے وہاں ریڈر سے جو مکالمہ کیا وہ ویڈیو کی صورت وائرل ہوگیا۔ خان نے کہا "آپ جج صاحبہ کو بتایئے گا کہ عمران خان آیا تھا معذرت کے لئے۔ میری باتوں سے ان کی دل آزاری ہوئی میں معذرت چاہتا ہوں، ریڈر، آپ نے گواہی دینی ہے کہ میں عدالت میں معذرت کے لئے آیا تھا"۔
خان کی اس حاضری، معذرت اور ریڈر کو گواہی دینے کی یاددہانی پر واہ واہ کا شور ہے۔ اس شور میں وہ ویڈیو پیغام بھول بھال گیا جس میں عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ میں اپنے الفاظ پر معافی نہیں مانگوں گا کیونکہ میں جمہوریت کے لئے جدوجہد کررہا ہوں اور یہ مجھ پر دہشت گردی اور توہین عدالت کے مقدمات بنارہے ہیں۔
معافی مانگنے کی بجائے جیل جانا پسند کروں گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں داخل کرائے گئے ان کے بیان حلفی پر عدالت کا فرمان موجود ہے۔ اب انہوں نے معذرت کو جیل جانے پر ترجیح دی عقل مندی یہی ہے۔ البتہ ان کے وکلاء نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ عدالتی کارروائی میں زبانی معذرت نہیں ہوتی تحریری معافی ہوتی ہے۔ توہین عدالت کا مرتکب شخص غیرمشروط تحریری معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے یہی اصل طریقہ کار ہے۔
میں معذرت کرتاہوں اور میں معافی کا خواستگار ہوں کے الفاظ میں بہت فرق ہے۔ پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ فواد چودھری کے بھائی فیصل چودھری اور جناب بابر اعوان کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ ممکن ہے ہمیں غلط فہمی ہورہی ہو لیکن بابر اعوان کو اپنے معاون کے ذریعہ ایڈیشنل سیشن جج زیبا چودھری کی عدالت میں موجودگی کا پتہ کروانا اور یہ معلوم ہونے پر کہ خاتون جج رخصت پر ہیں عمران خان کو ان کی عدالت میں لے جانا کم از کم سمجھ میں نہ آنے والا معاملہ ہے۔
ریڈر سے خان کامکالمہ بنتا ہی نہیں تھا۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جب بابر اعوان کو معلوم تھا کہ خاتون جج عدالت میں نہیں آج رخصت پر ہیں تو انہوں نے خان کو متعلقہ عدالت لے جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
عمران خان نے ہر ہر بات پر یوٹرن لیا خیر ان کے خیال میں یوٹرن لیڈر ہی لیتا ہے۔ جیل جانے پر معافی کو ترجیح دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی انہوں نے معذرت کی تھی۔ عدالت کو معذرت نہیں تحریری معافی فراہم کی جاتی ہے۔
خیر انہیں اپنا بیان حلفی دوبارہ سے وہاں جمع کرواناہے۔ خاتون جج کی عدالت میں ریڈر سے مکالمہ کرتے ہوئے عدالتی ڈیکورم کے منافی الفاظ انہوں نے کہے۔
مثلاً انہیں خاتون جج کا نام نہیں لینا چاہیے تھا۔ یہ عدالت کے آداب کے خلاف ہے مگر ان کے قانونی مشیروں نے اس مرحلہ پر انہیں ٹوکا بھی نہیں یہ حیران کن ہے۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ خان صاحب اپنا انداز تکلم بدلیں یا پھر قانونی مشیر، آگے ان کی مرضی۔