Koi Sunta Hi Nahi Yahan
کوئی سنتا ہی نہیں یہاں
اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 179تک پہنچ گئی ہے۔ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ "پیپلزپارٹی کی حکومت روزانہ 5ارب روپے قرضے لے رہی تھی، (ن) لیگ روزانہ 8ارب اور اب تحریک انصاف کی حکومت روزانہ 17ارب روپے قرضہ لے رہی ہے"۔ تبدیلی کے متوالے کہتے ہیں یہ سب گزشتہ حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ فرخ حبیب اطلاعات کے وزیر مملکت ہیں وہ کل بتارہے تھے ستر سال میں بہت گند ڈالا گیا۔
چند ماہ قبل نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کہہ رہے تھے پہلے 30سال اقتدار میں رہنے والوں کی کرپشن کا حساب کرلیں پھر تین سال سے اقتدار میں آئے ہوئے لوگوں سے متعلق شکایات کو دیکھ لیں گے۔ مندرجہ بالا باتوں اور ارشادات پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ ان سطور میں ہمیشہ عرض کیا کرپشن ہوئی یہ یقیناً ایک مسئلہ ہے لیکن واحد مسئلہ ہے نہ نمبرون۔ کرپشن ہوئی پورا سچ ہے۔ صرف سیاستدانوں نے کی یہ سفید جھوٹ ہے۔
مثلاً آپ گزشتہ روز بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے سے متعلق برطانوی ہائیکورٹ کا فیصلہ دیکھ لیجئے، دس سال کے لئے ان کے ویزوں کو یہ کہہ کر منسوخ کردیا گیا ہے کہ یہ کرپشن زدہ ہیں۔ چلیں ان "چٹے" کاپھڑوں کو کیا کہ ملک ریاض کتنے نیک کام کرتاہے، مستحق صحافیوں کو پلاٹ اور گھر دیتا ہے۔ کچھ نے نقدی بھی لی۔ بیشتر "بڑے بڑے" طرم خان اس کے ملازم ہیں۔ بحریہ دسترخوان بہت وسیع ہے۔ خیرات بھی کرتا رہتا ہے، دو عالی شان مساجد بھی بنوائی ہیں۔
ایک وقت تھا انہوں نے روزنامہ "جناح" کے نام سے اخبار نکالا تھا۔ بحریہ ٹائون میں پلاٹوں کی خریدوفروخت اور فائلوں کی فروخت دونوں مواقع پر 2ہزار روپے روزنامہ "جناح" کی سالانہ خریداری کیلئے ہرخریدار پیشگی ادا کرتا تھا۔ اربوں روپے صرف اس مد میں کمائے قبلہ نے سالانہ چندہ اگر ایک لاکھ افراد سے وصول کیا تو مشکل سے 5یا 7ہزار لوگوں کو اخبار ملا۔ عملی زندگی کے آغاز پر وہ معلم (استاد، سکول ٹیچر) تھے پھر انہوں نے "تعلیم بالغاں " کا پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام میں بڑوں بڑوں نے داخلے لئے یہاں تک کہ ایم ایم اے بنوانے والے میجر جنرل (ر) احتشام ضمیر بھی بحریہ ٹائون کے شعبہ "تعلیم بالغاں " میں بھرتی ہوئے۔
پچھلی دہائی میں شور مچا تھا لاہور والا زرداری ہائوس ملک ریاض نے تحفہ میں دیا ہے۔ آصف علی زرداری کی ہمشیرہ نے کہا ایک ایک پائی کی ادائیگی کی ہے رسیدیں موجود ہیں جس میں ہمت ہو عدالت میں بلائے ہمیں۔ ٹی وی چینلوں کے ٹکروں اور اخباری سرخیوں کے ساتھ سوشل میڈیا سے دانش کا رزق پانے والے اب بھی بضد ہیں لاہور کا زرداری ہائوس تحفہ ہے۔ خیر ہوگا ہمیں کیا۔
معاف کیجئے گا بات ڈالر کی قیمت سے شروع ہوئی تھی بحریہ ٹائون جاپہنچی۔ ملک ریاض جیسے مخیر پاکستانی کے بارے میں کفر کے گڑھ برطانیہ سے آیا فیصلہ عالم اسلام کی سب سے بڑی ہائوسنگ سوسائٹی کے خلاف سازش ہے۔ ان کم بختوں کو اور کوئی کام ہی نہیں بس سازشیں کرتے رہتے ہیں عالم اسلام کے خلاف، خیر چھوڑیں کچھ باتیں اس نسلہ ٹاور کے حوالے سے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد کے حکم پر گرایا جارہا ہے۔ نسلہ ٹاور والی زمین 1954ء میں ایک ہائوسنگ سوسائٹی نے فروخت کی یہ سرکاری شعبہ میں قائم ہائوسنگ سوسائٹی تھی۔ کے ڈی اے کے تحت قائم ہوئی۔ خریدار نے پلاٹ سے ملحقہ 160 گز کے پلاٹ کو بھی خرید لیا۔
ڈپٹی کمشنر کراچی نے الاٹ منٹ کا مرحلہ 1955ء میں مکمل کیا۔ پچپن سے ساٹھ برسوں کے دوران یہ پلاٹ 10جگہ فروخت ہوا کینیڈا میں مقیم پاکستانی شہری یونس میمن اس پلاٹ کا 11واں خریدار ہے۔ نسلہ ٹاور بنانے کامنصوبہ اسی کا تھا۔ بین الاقوامی معیار کے فلیٹ بناکر اس نے فروخت کئے۔ پلاٹ کی خریداری سے عمارت کی تعمیر کے آغاز و تکمیل تک کے سارے قانونی تقاضے پورے کئے۔ اب یہ بلڈنگ گرائی جارہی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ 160گز کے ملحقہ پلاٹ کی الاٹ منٹ کا ڈپٹی کمشنر کو اختیار نہیں تھا۔ قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے۔
یہاں ایک دلچسپ بات جان لیجئے نسلہ ٹاور کے خلاف جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان عدالت گئے تھے۔ جمعہ کے روز جماعت اسلامی کراچی کے امیر دو تین درجن صالحین کے ہمراہ نسلہ ٹاور کے مکینوں اور بلڈرز کے احتجاج میں شریک ہوئے۔ حافظ نعیم الرحمن اس سے پہلے (جمعہ کو ہی) سپریم کورٹ بھی گئے۔ انہیں کہا گیا کہ وہ عدالت سے چلے جائیں ورنہ توہین عدالت کا نوٹس دے دیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عدالت ہے سیاست کی جگہ نہیں۔
اسلام آباد کا گرینڈ حیات ہوٹل ٹاور سی ڈی اے کے قوانین کو روند کر بنا تھا اس کا معاملہ سپریم کورٹ نے طے کروایا تب ثاقب نثار چیف جسٹس تھے۔ ابھی تک حیات ٹاور کے مالکان نے جرمانہ کی ایک پائی بھی ادا نہیں کی۔ وزیراعظم عمران خان کی بنی گالہ والی قیام گاہ بھی غیرقانونی طور پر تعمیر ہوئی تھی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسے ریگولرائز کرانے کا موقع دیا۔
لاریب نسلہ ٹاور گرانے ک فیصلہ سپریم کورٹ کا ہے۔ حیات ہوٹل ٹاور اور عمران کے گھر کو قانونی بنوانے کے فیصلے بھی سپریم کورٹ کے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا احترام ہے اسی احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ جناب اعجازالحسن کو نسلہ ٹاور والے بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا کیونکہ عزت مآب جج صاحب اس بنچ میں شامل تھے جس نے گرینڈ حیات ہوٹل ٹاور کو قوانین سے تجاوز پر جرمانہ کیا اور مالکان کو درمیانی راستہ دیا کہ وہ جرمانہ ادا کریں۔
مناسب ہوتا اگر نسلہ ٹاور کی اراضی کے ایک حصے 160گز کے پلاٹ کی الاٹ منٹ میں کہیں قواعد نظرانداز ہوئے تھے تو مالک سے کہا جاتا وہ حیات ٹاورز کےمالکان کی طرح کوتاہی کا جرمانہ بھرے (حالانکہ یہ تو 11واں مالک ہے) وہ لوگ جنہوں نے زندگی بھر کی جمع پونجیوں سے نسلہ ٹاور میں فلیٹس خریدے تھے پل بھرم میں آسمان سے زمین پر آرہے۔
کیا نسلہ ٹاور کی تعمیر کے لئے این او سی دینے والے محکموں اور افسران کے خلاف کارروائی ہوئی؟ 160گز رقبہ کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق پیسے لئے جاسکتے تھے اگر یہ غیرقانونی طور پر لیا گیا یا اس میں اختیارات سے تجاوزہوا تھا۔
عرض یہ کرنا ہے کہ درمیانی راستہ سب کے لئے ہونا چاہیے۔ کیا کراچی میں بحریہ ٹائون میں غیرقانونی طور پر شامل کی گئی اراضی پر تعمیر عمارتیں گرانے کا حکم دیا گیا تھا جناب ثاقب نثار کی طرف سے؟ جی نہیں معاملے طے ہوا تھا اس ضمن میں برطانیہ سے آنے والی رقم عدالت کو ملی بھی۔ کیا جن کی اراضی پر بحریہ ٹائون نے قبضہ کیا تھا انہیں کوئی رقم ملی؟ جی نہیں وہ اب بھی دردر دھکے کھاتے پھررہے ہیں۔
مکرر عرض ہے نسلہ ٹاور کے معاملے کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر دیکھا جانا چاہیے تھا۔ دستیاب معلومات کی روشنی میں اس ضمن میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے البتہ اس حوالے سے جاری بحثوں میں کچھ سوالات ایسے ہیں جن پر عدالت کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
حرف آخر یہ ہے کہ جناب ثاقب نثار اور مریم نواز والی آڈیوز پر ابھی تماشا لگا ہوا ہے۔ مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر تو کہتے ہیں کہ مستقبل میں ویڈیوز کے ٹوٹے نہیں سینما سکوپ فلمیں ریلیز ہوں گی اور ان فلموں کی کھڑکی توڑ نمائش "سب کچھ بدل" دے گی۔