Khanpur Aur Doston Ki Yaaden
خانپور اور دوستوں کی یادیں
ہم پانچ دوست تھے لالہ عمر علی خان بلوچ مرحوم، ریاض احمد خان کورائی مرحوم، لالہ ظفر اقبال جتوئی، عبداللہ خان بلوچ اور یہ تحریر نویس۔ ان پانچ میں سے چار سمیت کچھ اور دوست 1970ء کی دہائی میں عمر علی خان بلوچ (ہم نے انہیں ہمیشہ بلوچ لالہ کہہ کر جھک کر آداب کیا) کی سربراہی میں بننے والی سرائیکی سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ابتدائی ارکان میں شامل تھے۔
ہمارے تین دوست نذیر لغاری، پروفیسر سجاد حیدر پرویز اور سعید خاور بھی ایس ایس ایف کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ خانپور میں ہمارے ایک اور دوست تھے میاں رشید احمد دین پوری مرحوم اللہ ان کی مغفرت فرمائے، انہیں اپنے خاندان کے چند متعصب عزیزوں کی کڑوی کسیلی باتیں ہمارے عقیدے اور دوستی کی وجہ سے سننا پڑتی تھیں میاں رشید احمد دین پوری باکمال اور ثابت قدم دوست تھے۔
رازی چوک پر ان کا ٹی سٹال ہمارے قیام خانپور کے دنوں میں دوستوں سے ملاقاتوں کا مرکز رہتا تھا۔ اسی ٹی سٹال پر سرائیکی لوک دانش کے آفتاب میاں انیس احمد دین پوریؒ تشریف لے آتے پھر گھنٹوں مجلس جمی رہتی۔ دنیا جہان کے موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا۔ کچھ پر مکالمہ اٹھایا جاتا۔ میاں انس احمد دین پوری بھی دنیاسرائے سے رخصت ہوچکے۔ میاں انیس احمد دین پوری مرحوم ہی ہمیں ہمیشہ قبلہ مولانا سراج احمد دین پوری رح کا پیغام دیتے کہ "بخاری کوں آکھائے ملے بغیر نہ ونجے"۔
قاضی واحد بخش اور سید کوثر علی شاہ سے برسہا برس ہوگئے ملاقات نہیں ہوپائی۔ خانپور کے تین خاندانوں سے تعلق خاطر کو ساڑھے چار دہائیوں سے کچھ اوپر کا عرصہ ہوگیا۔ مرحوم بزرگوار مرید حسین خان راز جتوئی، مرحوم حاجی رحم علی کورائی، سردار منظور خان کورائی مرحوم ان تینوں بزرگوں کی تیسری نسل سے محبت بھرا تعلق اب بھی قائم ہے۔
مرحوم ریاض احمد خان کورائی حاجی رحم علی خان کورائی مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ غضب کے دوست نواز اور وسیع دستر خوان کے میزبان۔
آصف خان بلوچ سردار منظور خان کورائی بلوچ مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ دو تین دن قبل انہوں نے شکوہ کیا کہ "ادا بخاری یہ کیسے ہوا کہ آپ خانپور آئے اور ہم سے ملے بغیر چلے گئے؟" ان کا شکوہ سو فیصد درست ہے ہم بھی اپنی اس کوتاہی پر شرمندہ ہیں بس وقت کی کمی اور اگلے پڑائو تک جانے کی جلدی اس غفلت اور عدم حاضری کی وجہ بنی۔
رحیم یارخان ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں منعقدہ "ذکر شہیدؑ کربلا کانفرنس" میں شرکت کے بعد خانپور کے لئے روانگی اس عجلت میں ہوئی کہ سیدی حکیم خلیق الرحمن، ضیاء اللہ باجوہ اور ڈاکٹر احمد سے بھی نہ مل پایا۔ خانپور میں ہمارے دوست عبداللہ خان بلوچ اپنی قیام گاہ پر ظہرانے کے لوازمات سمیت نہ صرف مسافروں کے منتظر تھے بلکہ وقفے وقفے سے فون کرکے یہ بھی دریافت کررہے تھے کہ قافلہ کہاں پہنچا؟
عبداللہ خان بلوچ کی اقامت گاہ پر لالہ ظفر اقبال جتوئی بھی موجود تھے۔ سفر اور دنیاوی حال احوال کے ساتھ گزری دہائیوں کی یادیں خوب تازہ کیں۔ سفر حیات میں بچھڑ جانے والے دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے بچ رہنے و الے دوستوں کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
بچھڑنے والے دوستوں کی یادوں نے دستک دی تو بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے۔ لالہ عمر علی خان بلوچ نے سرائیکی سٹوڈنٹس فیڈریشن سے سرائیکی ادبی تحریک اور پاکستان یوتھ لیگ سمیت جب جب جس ادبی سماجی نیم سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی اس میں ان کے سفر حیات کے ابتدائی دوست ان کے مارشل لائی حکم سے شامل سمجھے گئے۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کے جلالی حکم کی تعمیل سے انکار کرتا۔
وہ تھے ہی ایسے اپنے دوستوں کے لئے وہ ایک ہی وقت میں دوست بڑے بھائی اور والدین کا کردار سنبھال لیتے۔
ہم میں سے اکثر دوستوں کے والدین کو ہم سے کوئی شکوہ شکایت ہوتی یا کوئی نادر شاہی حکم دینا ہوتا تو وہ بھی عمرعلی خان بلوچ سے رابطہ کرتے۔ خود ہمارے والد بزرگوار مرحوم نے درجنوں بار ان سے ہماری شکایت کی۔ کبھی یہ بھی کہا کہ "ذرا اپنے لاڈلے سے کہیں ہاتھ ہلکا رکھا کرے"۔
عبداللہ خان بلوچ کی اقامت گاہ پر یادوں کی پوٹلیاں کھلیں تو بیتے ماہ و سال کی یادیں اور باتیں ایک ایک کرکے دستک دینے لگیں۔ ظفر اقبال جتوئی اور عبداللہ خان بلوچ سرائیکی وسیب اور بالخصوص ضلع رحیم یارخان کی زندہ سیاسی و سماجی تاریخ ہیں۔ دونوں دوست اب سیاست صرف گفتگو کی حد تک کرتے ہیں البتہ سماجی بہبود کے شعبے میں جواں عزمی کے ساتھ سرگرم عمل رہتے ہیں۔
ظفر اقبال جتوئی نے جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اسی دور میں ایک بار وہ صرف اس لئے دھر لئے گئے کہ ہمارے مستقل میزبانوں میں شامل تھے۔ ان کے والد بزرگوار مرید حسین خان راز جتوئی سرائیکی قومی تحریک کے عاشق صادق تھے اپنی پوری زندگی انہوں نے سرائیکی قومی شعور کو اجاگر کرنے میں صرف کردی۔
یہ سطور لکھتے ہوئے ہمیں خانپور کے ابتدائی دوستوں میں شامل مرحوم منیر احمد دھریجہ یاد آئے انہوں نے اپنے بھائی (کزن) ظہور احمد دھریجہ کے ساتھ مل کر خانپور سے پہلے سرائیکی روزنامہ "جھوک" کی اشاعت کا آغاز کیا تھا ان کا جھوک پریس وسیب بھر سے خانپور آنے والے دوستوں کی بیٹھک کا کام دیتا۔ مرحوم جانباز جتوئی، قیس فریدی اور دیگر بزرگ سرائیکی ادیبوں، شاعروں اور اہل دانش کی دھریجہ پریس پر ہی ہم نے زیارت و قدم بوسی کی سعادت حاصل کی۔
اس شہر سے ساڑھے چار دہائیوں سے اوپر پھیلے تعلق میں یہ پہلا موقع تھا کہ محض اڑھائی گھنٹے کے مختصر قیام کے بعد اگلی منزل کے لئے روانہ ہوگیا۔ ماضی میں تو جب بھی واپسی کی راہ لی کسی نہ کسی نے (ان میں بھائی بھانجے بھتیجے اور دوست سبھی شامل ہیں) دین پور چوک پر ہمارے بیگ پر قبضہ کرکے کہا "کوئی بات نہیں کل چلے جائیں آج جانا ضروری نہیں ہے"۔
ایک بار تو مسلسل چار دن دین پور چوک سے ہمارا سامان سفر واپس ریاض احمد خان کورائی مرحوم کے ڈیرے پر پہنچایا گیا۔ وقت گزر گیا اچھا گزرا وقت کے ساتھ مصروفیات اور ترجیحات دونوں تبدیل ہوتے ہیں۔ خانپور میں گزرے دنوں اور تعلق داروں کی باتیں اتنی زیادہ ہیں کہ لکھنے بیٹھوں تو ایک دفتر تو لکھا ہی جائے گا۔
یہ شہر ہی ایسا ہے۔ اسی شہر کے رازی چوک پر اُن دنوں قائم بلدیہ کی چونگی پر معروف شاعر حیدر قریشی فرائض انجام دیتے تھے۔ حیدر قریشی اپنی شاعری اور دوست نوازی میں جگ مشہور تھے چونگی کا دفتر بلدیہ کا دفتر کم اور حیدر قریشی کی بیٹھک کے طور پر زیادہ معروف تھا۔ جوان جذبوں کے اس شاعر نے ایک معاون رکھا ہوا تھا جو ان کی جگہ چنگی کی رسیدیں کاٹنے کا کام کرتا اور حیدر قریشی شاعری فرماتے ہیں۔ اس مرحومہ شاعرہ سے بھی یہیں ملاقات ہوئی تھی جو بعد میں ثمینہ راجہ کے نام سے معروف ہوئیں۔
حیدر قریشی کی اردو نثر بھی بہت اعلیٰ تھی جنرل ضیاء الحق کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کی وجہ سے حیدر قریشی اور ان جیسے بہت ساروں کو گھٹن محسوس ہوئی تو وہ ایک ایک کرکے ملک چھوڑ گئے۔ حیدر قریشی بھی اپنی "جماعت" کے انتظامات کے باعث جرمنی جابسے۔
یہ سطور لکھتے ہوئے ظفر اقبال جتوئی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں مقیم نذر خلیق نے حیدر قریشی کا مجموعہ کلام شائع کیا ہے۔
اسی شہر میں ہمارے ایک دوست نذر چغتائی ہوا کرتے تھے کچھ عرصہ انہوں نے مقامی صحافت میں ایک دو اخباروں کی نمائندگی کے ذریعہ قدم رنجہ فرمایا پھر لاہور منتقل ہوگئے۔ ایک آدھ بار لاہور میں ملے بھی لیکن یہ پچیس اٹھائیس سال پہلے کی بات ہے۔
خانپور میں میزبان کی اقامت گاہ پر یادوں کے دفتر کھلے تو کھلتے ہی چلے گئے۔ درمیان میں لذت دہن کے سامان سے شکم سیری کا سلسلہ بھی جاری رہا اور گاہے گاہے عصری سیاست کے کسی سوال پر بات بھی ہوئی۔
ہمارے لئے وسیب یاترا آسان و باسہولت بنانے والے دوست جناب عابد راو نہ صرف اچھے سامع ہیں بلکہ سیاسی موضوعات پر انہوں نے لقمے بھی خوب دیئے۔ مسافروں کا اگلا پڑائو لیاقت پور کے پاس ہمارے مشترکہ دوست اور معروف ترقی پسند سیاسی کارکن صہیب عالم کی قیام گاہ تھی لیکن اس سے قبل لالہ ظفر اقبال جتوئی کے ہوٹل "ضیافت" پر حاضری بھی دی۔