Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Khan Sahab, Yaad To Kijye Un Baton Ko

Khan Sahab, Yaad To Kijye Un Baton Ko

خان صاحب! یاد تو کیجئے ان باتوں کو

مخدوم آف ملتان شاہ محمود قریشی کہتے ہیں، "بلاول بھٹو بے اختیار ہیں وزیراعظم قومی اسمبلی میں واپس آنے کی دعوت دیں۔ ہم قومی اسمبلی میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں"۔ خان صاحب اس معاملے میں کچھ اور کہہ رہے ہیں اور مسلسل کہہ رہے ہیں۔ خان صاحب "بادشاہ" آدمی ہیں کچھ بھی کہتے رہتے ہیں۔ پہلے کہا کرتے تھے میری حکومت گرانے کی سازش امریکہ نے کی، جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ والے دن سے اسے سازش کا مرکزی کردار قرار دے رہے ہیں۔

بروز منگل ارشاد فرمایا "میرے خلاف سازش پاکستان سے ہوئی۔ سرحد پر باڑ اکھاڑی جارہی تھی یہ اور آئی ایس آئی پولیٹیکل انجینئرنگ میں لگے ہوئے تھے"۔

حضور، آپ وزیراعظم تھے سرحد پر باڑ اکھاڑنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے لیکن کیسے دیتے۔ پہلے یہ تو وضاحت کردیجئے کہ باڑ اکھاڑنے والوں سے کابل مذاکرات کا ڈول کس نے ڈالا تھا؟ جنرل (ر) فیض حمید نے کابل مذاکرات کا سلسلہ آپ کے کہنے پر شروع کیا تھا یا باجوہ کے؟

اب آسان ہے یہ کہہ دینا کہ سارے کام اور مملکتی امور باجوہ سرانجام دیتا تھا پھر آپ کیا کرتے تھے۔ ہیلی کاپٹر پر جھوٹے لینے، توشہ خانہ میں تحائف کی نمائش دیکھنے اور تحفے پسند کرنے کے علاوہ مخالفین کو الٹے سیدھے ناموں سے بلانے اور دھواں دھار بیان دینے کے سوا۔

ایسا بھی نہیں ہے، باڑ اکھاڑے جانے پر براہ راست کارروائی نہ کئے جانے کے حوالے سے آپ بھی اتنے ہی جرم وار ہیں جتنے بارڈر مینجمنٹ والے۔ مگر اصل سوال وہی ہے آپ کیا کرتے رہے۔ مقبوضہ کشمیر سے کابل مذاکرات تک کے معاملوں پر زبان بندی کیوں رکھی۔

بولنا چاہیے تھا یا آپ کو وزیراعظم اس لئے لگایا گیا تھا کہ اندرون و بیرون ملک جلسوں اور تقریبات میں یہ کہتے پھریں، اوئے شاہد خاقان عباسی تجھے تو میں جیل میں ڈال دوں گا، نوازشریف تیرے سیل سے اے سی نکال لوں گا، زرداری تو تو میری بندوق کی نشست پر ہے، سن فضلو تم اسلام کے نام پر دھبہ ہو۔ یہ کہتے رہنے کے سوا اور کیا کیا۔

ہاں وہ کابل کے ہوٹل میں آپ کے پیارے کی چائے کے کپ والی تصویر کتنی بھاری پڑی اس ملک کو۔ کسی دن یہ حساب تو کیجئے۔ چلیں کچھ یاد کیجئے کابل مذاکرات کے لئے افغان حکومت سے ابتدائی رابطہ کس نے کیا تھا۔ تین نہیں بندہ پرور چار آدمی تھے رابطہ کرنے والے۔ جنرل (ر) فیض حمید، وفاقی وزیر مراد سعید، وزیر مملکت علی محمد خان اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان ابتدائی رابطے کے بعد کابل میں پہلی ملاقات والے دو افراد کے نام آپ قوم کو بتادیجئے۔

بات دور نکل جائے گی۔ ویسے یہ بھی بتادیجئے کہ بیرسٹر سیف کو خیبر پختونخوا حکومت کا ترجمان آپ نے اپنی خواہش پر بنوایا تھا۔ باجوہ کی فرمائش پر یا اس کے لئے "اُدھر" سے پیغام آیا تھا۔ سازشی بیانیے میں اب تک ہوئی تبدیلی پر آپ کے مداحین ہی واہ واہ اور دفاع کرسکتے ہیں۔

آج کل آپ کو تو قرآن کی آئتیں اور احادیث بہت یاد آرہی ہیں جو دوسروں کے عیبوں کی پردہ داری کے لئے ہیں۔ کیا یہ آیات و احادیث اس وقت بھی موجود نہ تھیں جب پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل سے خاتون صحافیوں کی کردار کشی ہورہی تھی۔ سیاسی مخالفین کے خلاف ویڈویز گھڑی جارہی تھیں، جعلی ویڈیوز پھیلائی جارہی تھیں۔ یہ ناسخ و منسوخ کا معاملہ نہیں۔

کیا آپ کے دور میں کابل مذاکرات اور کالعدم ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں ہر دو پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کے مطالبے نہیں ہوتے رہے؟ چلیں اتنا بتادیجئے کہ بطور وزیراعظم آپ نے صدر مملکت سے خیبر پختونخوا حکومت کی اس سمری کو منظور کرنے کی سفارش کی تھی جس میں مسلم خان اور محمود خان سمیت ایک سو سے زیادہ دہشت گردوں کی رہائی کو کابل مذاکرات آگے بڑھانے کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا؟

کیا یہ سچ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے کارکنوں (جو انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ہلاک ہوئے تھے) کا خون بہا مانگا تھا اور کل رقم میں سے دو اڑھائی ارب ادا بھی کئے گئے؟

معاف کیجئے گا چونکہ آپ کہتے تھے باجوہ سمیت فوج میری پالیسیوں کے پیچھے کھڑی ہے اس لئے ان سارے معاملات کے آپ ذمہ دار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے سرکاری و قومی موقف سے دستبرداری سے لے کر دہشت گردوں سے بھائی چارہ قائم کرنے تک کے سارے معاملات میں آپ کا حصہ رہااب کیسے مان لیا جائے کہ آپ تو "ننھے چوچے" تھے اور باجوہ "گھاک چتر"۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی لمبی سی گفتگو اور تقریر میں ہی آپ بھول جاتے ہیں کہ کچھ دیر قبل کیا کہا تھا۔ اس کی تازہ مثال آپ کا ایک ویڈیو خطاب ہے جس میں آپ نے پہلے کہا کہ میں تو چاہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہے، اسی میں اس کا وقار ہے۔ کچھ ہی دیر بعد کہا میں چاہتا ہوں آئی ایس آئی چونکہ منظم فورس و ایجنسی ہے وہ کرپشن وغیرہ ختم کرنے کے لئے ساتھ دے۔ کس کا آپ کا؟

ذرا کسی دن پچھلے چند برسوں کے بیانات تقاریر اور انٹرویو پڑھ سن لیجئے پتہ چل جائے گا کہ آپ کیا کہتے رہے اور کتنے یوٹرن لئے۔ خیر یوٹرن تو لیڈر لیتے ہیں تبھی وہ بڑے لیڈر بنتے ہیں۔

کیا اب یہ عرض کرنا ضروری نہیں کہ پچھلے دوتین ہفتوں میں ہوا کیا ہے۔ صدر مملکت نے اسٹیبلشمنٹ اور آپ کی ملاقاتوں کے لئے ترلے منتیں کیں تین بار "کورا" جواب ملا چوتھی بار صدر مملکت کی درخواست پر پی ٹی آئی کے ایک وفد سے ملاقات کے لئے رضامندی دی گئی۔ چار مردوں اور ایک خاتون پر مشتمل وفد نے ملاقات بھی کی۔

یہاں اگر ساعت بھر کے لئے رکیں تو میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ جنرل باجوہ سے آپ کی آخری ملاقات صدر مملکت عارف علوی کی کوششوں سے ایوان صدر میں ہوئی تھی۔ یہ وہی ملاقات ہے جس میں گلے شکوے ہوئے آپ نے اپنے بیانات اور الزامات کی وضاحت کی اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے۔

جواباً کہا گیا کہ الیکشن کے لئے حکومت سے رجوع کریں۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے جن چند سرکردہ افراد کے خلاف پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا غلیظ مہم چلارہا ہے وہ بند کرائیں۔ جنرل باجوہ نے یہ بھی پوچھا تھا "امریکی سازش میں کردار ادا کرنے والوں سے اب آپ کیا چاہتے ہیں"یاد کیجئے کہ پھر چراغوں میں روشنی ختم ہوگئی۔

اس کے بعد باجوہ سے ایک ملاقات، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، اسد عمر اور فواد چودھری نے بھی کی یہ ملاقات بھی ناکام رہی۔

اب آیئے تین کے بعد چوتھی عرضی بذریعہ صدر کی منظوری پر جس کے بعد تحریک انصاف کے پانچ رکنی وفد نے "بڑے گھر" میں ملاقات کی۔ کہا گیا ہمارے جنرل باجوہ وغیرہ سے اختلافات تھے انہوں نے حکومت گرانے میں کردار ادا کیا۔ نئی قیادت سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہم مل کر کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک آگے بڑھے، مسائل کم ہوں۔

جواباً دو باتیں کہی گئیں، پہلی یہ کہ "ہم ہر قیمت پر اپنے فرائض اور اپنے میدان پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں دونوں سرحدوں (بھارت اور افغانستان والی) پر بدلتے حالات متقاضی ہیں کہ مسلح افواج نہ صرف ہر وقت چوکنا رہے بلکہ دشمن اور در اندازوں کو منہ توڑ جواب دے۔ سیاسی امور کے حوالے سے آپ براہ راست حکومت سے بات کیجئے۔

دوسری بات یہ ہوئی کہ اس وفد کو ایک آڈیو کیسٹ سنوائی گئی جس میں امید امت مسلمہ اپنے مخصوص لہجے اور زبان میں جو ارشاد فرمارہے تھے اسے سن کر وفد کے چہرے بھی شرم سے "سرخ" ہوگئے۔

آڈیو ریکارڈنگ سنانے کے بعد وفد سے شائستہ انداز میں کہا گیا کہ پہلے ان کی اخلاقی تربیت کا انتظام کیجئے ایک اور جملہ بھی کہا گیا یقیناً اس سے وفد نے آپ (خان صاحب) کو آگاہ کردیا ہوگا۔ وفد کی واپسی کے اگلے دن آپ نے پنجاب کی سپیشل برانچ سے زمان پارک والے گھر کی "صفائی ستھرائی" کروائی کہ کہاں کہاں جاسوسی کے آلات لگے ہوئے ہیں۔ زیرو رپورٹ پر آپ نے حکم دیا آئندہ ملاقاتیوں کے کیمرے موبائل سب ملاقاتی کمرے کے باہر دھروالئے جائیں۔ ویڈیو فوٹیج اور تقاریر آپ کا عملہ صحافیوں کو فراہم کرے گا۔

قلم مزدور کو امید ہے کہ آپ کو یہ ساری باتیں معلوم ہی ہوں گی اور یاد بھی۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ شاہ محمود قریشی کا مشورہ ماننا ہے یا پھر "رولا پائو" پروگرام پر کاربند رہنا ہے۔

Check Also

Mard Ki Muhabbat, Shiddat Ki Inteha

By Amirjan Haqqani