Khalid Balti Ka Anjam
خالد بلتی کا انجام
سوموار کوافغان صوبہ ننگر ہار سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کا ایک اہم رہنماخالد بلتی عرف محمد خراسانی مارا گیا۔ خالد بلتی المعروف محمد خراسانی کالعدم ٹی ٹی پی کا ترجمان رہا ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور سمیت درجنوں سانحات کی ذمہ داری قبول کرنے والے اس دہشت گرد کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔ جامعہ بنوریہ کراچی کا یہ سابق طالب علم، زمانہ طالب علمی میں ایک انتہا پسند مذہبی جماعت میں سرگرم ہوا بعدازاں 2005ء میں وہ لشکر جھنگوی کا حصہ بن گیا۔
2008ء میں خالد بلتی کا نام اس وقت پہلی بار سامنے آیا جب حیدر آباد سندھ میں ایک آپریشن کے دوران وہ فرار ہونے میں تو کامیاب ہوگیا مگر اس کے سابقہ ادارے (مدرسے) کا شناختی کارڈ موقع سے ملا۔ حیدر آباد میں ہی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے لشکر جھنگوی کے ماسٹر اعجاز کے بعد عام تاثر یہ تھا کہ خالد بلتی کو اس کا جانشین بنایا گیا ہے مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر ماسٹر اعجاز کی جانشینی شکیل چھوٹو کے حصے میں آئی۔
جس کے بعد اس نے سوات کے صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی میں شمولیت اختیار کرلی۔ سوات میں فوجی آپریشن سے قبل کے دو افسوسناک واقعات کے حوالے سے خالد بلتی المعروف ابو جنادہ (یہ اس کی پہلی عرفیت تھی) کا نام سامنے آیا، ان میں سے ایک واقعہ پولیس اہلکار کوبجلی کے کھمبے سے باندھ کر قتل کرنے کا ہے اور دوسرا ایک بیوہ ٹیچر اور اس کی نرس بیٹی کے قتل کا، ان ماں بیٹیوں کا جرم یہ تھا کہ دونوں نے سواتی طالبان کہلانے والے مجاہد کمانڈر کے حکم پر شادی سے انکار کردیا تھا۔ قتل سے قبل ان ماں بیٹیوں پر وحشیانہ مظالم ڈھائے گئے۔
سوات میں فوجی آپریشن کی کامیابی کے مرحلہ میں یہ ملا فضل اللہ دوسرے دہشت گردوں کے ہمراہ بھاگ کر افغانستان چلا گیا۔ افغانستان میں اپنے قیام کے عرصہ میں ہی اس نے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی۔ ابتدائی طور پر اسے کالعدم ٹی ٹی پی کے شیخ الحدیث کہلانے والے خالد حقانی کا معاون مقرر کیاگیا۔ حقانی کے معاون کے طور پر اس نے ٹی ٹی پی کو گلگت بلتستان میں منظم کرنے کا کام کیا، اس کے منظم کئے گئے ایک گروپ نے چینی سیاحوں کو قتل کرنے کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کی بعض وارداتیں بھی کیں (یاد رہے گلگتی طالبان کے اسی گروپ پر داسو ڈیم سانحہ میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے)۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مرنے کے بعد، جب صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ کو ٹی ٹی پی کا امیر منتخب کیا گیا، تو خالد بلتی کو پروپیگنڈہ کا انچارج بنادیا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اسے ٹی ٹی پی کے ایک تربیتی کیمپ کا انچارج بنادیا گیا۔ اپنے ساتھیوں میں اکھڑ اور سفاک شخص کے طور پر مشہور خالد بلتی کے بعض معاملات سے ٹی ٹی پی کے بہت سارے کمانڈر نالاں بھی رہے، لیکن چونکہ اسے ملا فضل اللہ کا اعتماد حاصل تھا اس لئے وہ ٹی ٹی پی سے الگ ہوکر داعش میں جانے والے کمانڈروں کے سربراہ سعید خان کے عتاب سے محفوظ رہا۔
یہ کہنا کہ وہ ایک ان پڑھ شخص تھا جو بیروزگاری اور خاندانی مسائل کی وجہ سے حالات کا باغی بنا اور پھر کالعدم ٹی ٹی پی تک پہنچا درست بات نہیں۔ وہ کراچی کے ایک معروف دینی مدرسہ کا باقاعدہ طور پر فارغ التحصیل طالب علم تھا یہی قابلیت اسے خالد حقانی کا معاون مقرر کئے جانے کی وجہ بنی تھی۔ اپنے مخصوص فہم کے اسلامی عقائد کے علاوہ دیگر مسلمانوں کو قابل گردن زدنی سمجھنے والے خالد بلتی کو ٹی ٹی پی کی تقسیم (تب ٹی ٹی پی سے جماعت الاحرار تحریک طالبان کے نام سے ایک گروپ الگ ہوا تھا) کے بعد شاہداللہ شاہد کی جگہ ترجمان مقرر کیا گیا۔
اب خالد بلتی المعروف ابو جنادہ نے اپنی عرفیت محمد خراسانی رکھ لی (اس عرفیت کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ اسلام نے قیامت کی آمد سے قبل خراسان کے علاقے سے دنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے)۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ خالد بلتی عرف محمد خراسانی کو جولائی 2019ء میں افغانستان میں گرفتار کرلیا تھا۔ اس کی گرفتاری کابل کے قریب ایک دیہاتی مسجد سے اس وقت عمل میں لائی گئی جب وہ دہشت گردوں کے ایک اجلاس میں شرکت کے لئے وہاں پہنچا تھا۔ اشرف غنی کے دور میں گرفتار ہونے والے خالد بلتی عرف محمد خراسانی کی جگہ کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے نئے ترجمان کو بھی محمد خراسانی کی عرفیت دی۔
عرفیت کے اس معاملہ کی وجہ سے ہی گزشتہ روز اس کے مارے جانے کی خبر میں بتایا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کا ترجمان خالد بلتی عرف محمد خراسانی مارا گیا ہے۔ بعض ذرائع یہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں گرفتاری کے بعد جیل کے دنوں میں خالد بلتی کےداعش سے رابطے استوار ہوئے، یہی وجہ ہے کہ اگست میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد جب افغان جیلوں سے دوسرے قیدیوں کے ساتھ یہ بھی رہا ہوا تو کوشش کے باوجود ٹی ٹی پی کے نئے امیرنور ولی محسود نے اسے تنظیم میں قبول نہیں کیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کابل جیل سے رہائی کے بعد اس نے بھی کالعدم ٹی ٹی پی میں واپسی کی بجائے اپنا الگ گروپ بنانے اور داعش کے ساتھ مل کر اپنے گروپ کو گلگت بلتستان میں منظم کرنے کے ساتھ چینی مسلم اکثریت کے صوبے کے ان لڑاکوں کے ساتھ اشتراک عمل بنانے کی کوششیں کیں جو افغانستان میں مختلف الخیال گروپوں میں کام کررہے ہیں۔ خالد بلتی اور کالعدم ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر نور ولی محسود کے درمیان اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ خالد بلتی افغانستان میں اپنی گرفتاری کا ذمہ دار حماد اللہ اچکزئی کو قرار دیتا تھا۔
حماد اللہ نومبر 2020ء میں افغان سکیورٹی کی فورسز اور امریکی فوج کی مشترکہ کارروائیوں کے دوران پکتیا میں تین دوسرے دہشت گردوں کے ساتھ مارا گیا تھا، حماد اللہ نور ولی محسود کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا خالد بلتی اپنی گرفتاری کا ذمہ دار حماد اللہ کو کیوں قرار دیتا تھا، اس بارے میں طالبان کے ذرائع میں زیادہ معروف بات تو کوئی نہیں، البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ حماد نے میران شاہ کے م، ضافات میں قائم کالعدم ٹی ٹی پی کے اس کیمپ میں تربیت حاصل کی تھی، جس کا انچارج خالد بلتی العمروف ابو جنادہ عرف محمد خراسانی تھا، کیمپ میں ہی دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گزشتہ پیوستہ سال اگست میں کابل جیل سے رہائی کے بعد اس نے سابقہ ساتھیوں سے رابطہ کیا اور اپنی تنظیمی حیثیت بحال کرنے کی بات کی لیکن اسے مثبت جواب نہیں ملا کیونکہ نور ولی محسود اور اس کے ساتھیوں کو شک ہے کہ حماد اللہ گروپ کے ٹھکانے کی مخبری خالد بلتی کےساتھیوں نے کی تھی۔ خالد بلتی المعروف ابو جنادہ عرف محمد خراسانی کے مارے جانے کی خبر سوموار کو سامنے آئی خبر کے ساتھ ہی اس کی مارے جانے کی تصویربھی عالمی ذرائع ابلاغ تک پہنچائی گئی۔
اس کے مارے جانے کا دن واقعی سوموار ہے یا اتوار کی دوپہرے مارے گئے بلتی کے مرنے کی خبر تصدیق کے بعد سوموار کو جاری کی گئی؟ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد بلتی عرف محمد خراسانی اتوار کی دوپہر ننگر ہار میں مارا گیا یہاں وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موجودتھا، اسے مارنے کا آپریشن کس نے کیا، یہ ابھی تک معمہ ہے، کالعدم ٹی ٹی پی کے ذرائع اسے سرحد پار سے آنے والوں کی کارروائی قرار دے رہے ہیں، ننگر ہار کی انتظامیہ دو گروپوں کا جھگڑا تو بتاتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ابھی معلومات حاصل کی جارہی ہیں۔
البتہ یہ حقیقت ہے کہ دہشتگردی کی کارروائیوں اور زہریلے پروپیگنڈے حوالے سے بدنام زمانہ کردار خالد بلتی عرف محمد خراسانی مارا جاچکا ہے، اس کے مارے جانے سے امن و انسانیت کے دشمن دہشت گردوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، کراچی میں ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم سے شروع ہونے والا خالد بلتی کا سفر ننگر ہار میں تمام ہوا، اس کے مارے جانے کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں لیکن پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، کے بعض سانحات میں اپنے ملوث ہونے کے اعتراف اور دوسری امن دشمن اور پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ایک دہشت گرد حرفِ غلط کی طرح مٹ گیا۔