Jangjuon Ki Taraf Se Aam Karwaiyon Ka Elan
جنگجوؤں کی طرف سے عام کارروائیوں کا اعلان
پچھلے برس جب "افغان سٹوڈنٹ" کابل میں وارد ہوئے تب افغانستان کی بدلتی صورتحال پر لگ بھگ 20 اقساط لکھی تھیں۔ ان دنوں ان سطور میں عرض کیا تھا کہ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں یہ مہنگا پڑے گا۔ پھر یہ ہوا کہ ایک صاحب نے چائے کا کپ ہاتھوں میں لئے کابل کے ایک ہوٹل میں تصویر بنوائی اور یہاں پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے دو سرکاری محکموں نے اخبارات پر زور دیا کہ "یہ تصویر صفحہ اول پر شائع کی جائے"۔
تصویر صفحہ اول پر ہی شائع ہوئی۔ وہ تصویر جنرل فیض حمید کی تھی۔ موصوف ان دنوں آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ بزعم خود افغان امور کے ماہر کہلانے اور حمید گل ثانی بننے کے چکر میں انہوں نے عمران خان کی سرپرستی میں افغان پالیسی میں جو "کارنامے" سرانجام دیئے ان کے نتائج کا سامنا مملکت پاکستان سوا سال سے کر رہی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے کابل مذاکرات کا ڈول ڈالنے والے بھی یہی صاحب تھے۔ ہم ایسے قلم مزدور پچھلے چار عشروں کی افغان پالیسی اور دو عشروں سے ٹی ٹی پی پروری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہی ہے کہ لشکری سنڈیاں پالنے کا اس ملک کو کیا فائدہ ہوا؟
فقیر راحموں تو ویسے کہتا رہتا ہے کہ "کوئلوں کی دلالی میں ماسوائے منہ کالا ہونے کے اور کچھ نہیں ہوتا"۔
چند ماہ قبل خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی واپسی اور اس سے متعلقہ معاملات پر ان سطور میں معروضات کے ساتھ کچھ سوال پڑھنے والوں کے سامنے رکھے تھے تب وزارت دفاع کے ماتحت ایک محکمہ کے شعبہ اطلاعات کے مقامی دفاتر میں بیٹھے ایک آدھ "نابغے" نے بہت بھاں بھاں کی تھی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کر دوں کہ یہ ساری باتیں اس لئے یاد آئیں کہ گزشتہ شب ایک محب مکرم نے سوشل میڈیا پر چند برسوں سے وائرل ایک ویڈیو پر مینشن کیا۔ اس ویڈیو میں سابق قبائلی علاقے کا ایک طالب علم بتا رہا ہے کہ ہم تو ہر دو حالتوں میں مرتے ہیں دونوں طرح کے جنگجوؤں کے ہاتھوں بھی اور ڈرون اٹیک سے بھی۔ ہم سمیت بہت سارے قلم مزدور دوست طالبانائزیشن کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں غیر ریاستی جنگجوؤں کو عشروں تک ریاستی اثاثوں کا درجہ حاصل رہا اور ڈھکے چھپے انداز میں اب بھی ہے۔
2008ء میں ٹی ٹی پی پاکستان میں شامل گروپوں اور ان کی ترجیحات کے حوالے سے ہفت روزہ "ہم شہری" لاہور کے لئے چند رپورٹس لکھی تھیں انہی میں سے ایک رپورٹ ان جنگجوؤں کے بارے میں تھی جنہیں افغانستان میں سوویت امریکہ جنگ کے اختتام کے بعد ان کے ملکوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو ہماری ریاست نے امریکہ اور سی آئی اے کے ایما پر (یہ ایما سفارتی ہی نہیں تھا بلکہ ایک خطیر رقم بھی عنایت کی گئی تھی) ازبک، تاجک، مصری اور سعودی و دیگر مسلم ممالک کے جنگجوؤں کو پاکستانی قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی وزیرستان وغیرہ میں آباد کر دیا گیا تھا۔
اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد ہمارے ایک استاد گرامی جناب حمید اختر نے جو کہ ایک بڑے میڈیا ہاؤس کے لاہور سے شائع ہونے والے اخبار "ایکسپریس" میں کالم بھی لکھتے تھے اپنے کالم میں تین قسطوں میں وہ رپورٹ شائع کر دی۔
9/11 کے بعد پاکستان قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے منظم ہونے اور اپنے اپنے دائرہ اثر میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا لینے کے ساتھ نجی جیلوں کے قیام اور پھر ان جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کے برسوں میں تواتر کے ساتھ عرض کرتا رہا کہ جب تک جنگجوؤں کے حوالے سے دوغلی پالیسی اور افغان پالیسی پر نظرثانی نہیں کی جائے گی معاملات سدھرنے کے نہیں۔
ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری افغان پالیسی روز اول سے مملکت پاکستان کے باشندوں کے مفادات کو سامنے رکھ کر وضع نہیں کی گئی یہی وجہ ہے کہ افغان پالیسی سے فائدہ چند صد افراد اور نصف درجن کے قریب ان مذہبی جماعتوں کو ہوا جنہوں نے جہادی کاروبار میں ہاتھ رنگے۔ اس کی بدولت ملکی معیشت کو پچھلے 40 برسوں میں کم و بیش چار ساڑھے سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
یقیناً یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ افغان پالیسی کے 4 ادوار میں (پہلا دور افغان انقلاب ثور سے شروع ہوا، اسی میں جہاد کا زمانہ شامل ہے۔ دوسرا دور جنیوا معاہدے خانہ جنگی اور طالبان کے ظہور کا ہے۔ تیسرا دور 9/11 کے بعد سے گزشتہ برس افغانستان سے امریکی انخلاء تک اور چوتھا دور اس کے بعد سے تاحال ہے) ایک لمحہ کے لئے بھی کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ اس کا حاصل وصول کیا ہے؟
وصول یا وصولی اور اس پالیسی کی چھتر چھایہ میں دھندے کرنے والوں کی دنیاوی ترقی ہمارے پیش نظر تو ہے مگر ان سطور میں دھندے بازوں کے کرتوت اور منافعوں بارے عرض کرنے میں ایک سے زائد وجوہات مانع ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد طالبان کی دھوم دھڑکے سے واپسی پر جب ہمارے یہاں شادیانے بجائے جا رہے تھے تو وہاں افغانستان کی جیلوں میں کرزئی اور غنی کے دور سے جیلوں میں پڑے کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگوں کو اہتمام کے ساتھ رہا کیا جا رہا تھا۔
کالعدم ٹی ٹی پی سے ہمارے ریاستی مذاکرات درحقیقت افغان طالبان کی فرمائش پر شروع ہوئے ان مذاکرات کے لئے ابتدائی آمادگی بھی جنرل فیض حمید نے دی۔ تب عمران خان وزیراعظم تھے پوری تحریک انصاف جنگجوؤں کو مین سٹریم میں لانے کا چورن بیچ رہی تھی۔ ہم نے ان سطور میں عرض کیا تھا کہ ٹی ٹی پی مذاکرات کے لالی پاپ سے صرف منظم ہونے کے لئے وقت حاصل کرنا چاہتی ہے بعد کے ایام نے ثابت کیا کہ اس نے نہ صرف وقت حاصل کیا بلکہ سنگین مقدمات میں گرفتار اور سزا یافتہ افراد جن میں محمود خان اور مسلم خان وغیرہ بھی شامل ہیں کو رہا کروا لیا۔
سزا یافتگان کی رہائی صدارتی فرمان پر ہوئی اس کے لئے درخواست خیبر پختونخوا حکومت نے کی تھی، ستم یہ ہوا کہ اپریل میں وفاقی حکومت تبدیل ہونے کے بعد ایوان صدر اور خیبر پختونخوا حکومت نے نئی وفاقی حکومت کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ بدقسمتی سے فیض حمید اس سارے معاملے میبں اہم کردار تھے۔
پچھلے ایک سال کے دوران مذاکرات اور کاروائیاں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ دو بار کالعدم ٹی ٹی پی نے مذاکرات سے یہ کہہ کر راہ فرار اختیار کی کہ پاکستان مذاکرات میں غیر سنجیدہ ہے۔ پھر جون میں جنگ بندی کے خاتمہ کا اعلان کیا۔ چند دن قبل ایک بار پھر جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ٹی ٹی پی نے عام کاروائیوں کا اعلان کر دیا۔ جون کا اعلان کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے 6 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے حوالے سے پیشرفت نہ ہونے پر کیا حالیہ اعلان حقیقت میں تو سابقہ اعلان کی تجدید ہے مگر تجدید کا وقت بہت اہم ہے۔ خصوصاً اس لئے کہ پچھلے سال مذاکرات کا ڈول ڈالنے والے فیض حمید نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔
جولائی سے اکتوبر کے درمیانی مہینوں میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی سوات و ملحقہ علاقوں میں نموداری بھتوں کے لئے جاری پرچیوں، سرکاری اہلکاروں کے اغوا اور سوات کی سیاست کے بعض اہم کرداروں کی ٹارگٹ کلنگ اور اسی دوران ٹی ٹی پی کے ایک نمائندے کا میڈیا سے رابطہ کر کے یہ کہنا کہ ہم معاہدہ کے تحت واپس آئے ہیں اس معاہدے کے حوالے سے اس نے دو افراد کے نام لئے ایک فیض حمید کا دوسرا بیرسٹر سیف کا۔
یہ دوسرے صاحب آجکل خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان ہیں۔
بیرسٹر سیف کابل مذاکرات کا حصہ رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں کہا گیا کہ بیرسٹر سیف ذاتی حیثیت میں کابل مذاکرات میں شریک ہوئے۔ ذاتی حیثیت؟ حیران کن بات ہے ماسوائے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے اور کچھ نہیں۔ بہر طور اب جبکہ ٹی ٹی پی نے باقاعدہ عام کاروائیوں کا اعلان کر دیا ہے اور اسی عرصہ میں عسکری قیادت (بری فوج کی) بھی تبدیل ہوگئی ہے۔ حکومت اور عسکری قیادت جو بھی حکمت عملی بناتے ہیں اسے دیکھنا ہوگا۔
دوسری طرف اپنے اعلان کے بعد ٹی ٹی پی نے کاروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اے این پی خیبر پختونخوا کے رہنما سردار حسین بابک کو ٹی ٹی پی کی جانب سے دی گئی دھمکی بھی پیش نظر رکھنا ہوگی اور یہ معاملہ بھی کہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سے بھتہ خوری کی اطلاعات مسلسل موصول ہو رہی ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو بھتہ دینے والوں میں خود خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کا خاندان اور بعض وزراء بھی شامل ہیں۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ کابل مذاکرات کے عرصہ میں دو بار پاکستان سے ایک خاص فہم اور مسلک کے مولانا صاحبان کو جہاز میں بھر کر کابل لے جایا گیا۔ ان دنوں یہ بتایا گیا کہ جن مولانا صاحبان کو کابل لے جایا گیا وہ مسلکی طور پر ٹی ٹی پی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ سو اب ہمیں کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ کیا اثر اندازی والی بات محض ہوائی تھی یا "کچھ اثر ہوا بھی؟"
کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی رہائی تو حقیقت ہے کیا مارے گئے جنگجوؤں کے تاوان میں مانگی گئی رقم بھی کلی یا اس کا کچھ حصہ دیا گیا؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معاملات ایسے ہرگز نہیں جیسے بتائے جا رہے ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی ترجیحات مختلف ہیں انہیں چونکہ اس معاملے میں کمرشل ازم نہیں دِکھ رہا ہے اس لئے وہ دوسری خبروں کے تعاقب میں ہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے عام کارروائیوں کے آغاز کے بعد حکومت کہاں کھڑی ہے اور کیا فیصلہ ہوا؟