Islamia University Bahawalpur Ka Jinsi Scandal
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا جنسی سکینڈل
برادرم محترم عبداللہ خان بلوچ سمیت بہت سارے عزیزوں دوستوں اور قارئین نے دبے دبے لفظوں میں شکوہ کیا کہ "اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حالیہ سکینڈل پر کیوں نہیں لکھا" عبداللہ خان بلوچ نے استفادے کے لئے اس سکینڈل کے حوالے سے کچھ تحریریں اور دیگر معلومات بھی بھجوائیں۔ میرا دل چاہا کہ ان دوستوں، عزیزوں سے عرض کروں کہ ابھی دو اڑھائی ماہ قبل ملتان یونیورسٹی کے اسی طرح کے معاملات پر کسی کا نام لئے بغیر چند سطریں لکھی تھیں تب محافظانِ سرائیکی وسیب و ملتان یونیورسٹی نہ صرف جان کو آگئے بلکہ اکثر نے ایک صاحب کے لئے "ہفت مدحت " بھی شروع کردیا تھا۔
حالانکہ چند سطری تحریر میں صرف یہ عرض کیا تھا کہ اس طرح کی شکایات پر مٹی ڈالنے کی بجائے آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ الزامات درست ہیں تو متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ نادرست ہیں تو الزام لگانے والوں کے خلاف کارروائی ہو۔
"ہفتہ مدحت" منانے والوں میں چند محبوب دوست بھی شامل تھے۔ انہی دنوں برادر عزیز انجینئر شاہ نواز خان مشوری نے ٹیلیفون پر رابطہ کیا تب میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ "میں نے کسی بھی صاحب کا نام نہیں لکھا بلکہ الفاظ کے چنائو میں بھی احتیاط کی تھی لیکن "ہفتہ مدحت" منانے والے باضابطہ طور پر ایک صاحب کے حق میں مہم چلارہے ہیں یہ مہم کچھ اور ہی سمجھاتی ہے"۔
شاہ نواز مشوری کا کہنا تھا آپ باردیگر اس سارے معاملے کو دیکھ لیجئے۔ عرض کیا میری بات سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ جن صاحب کے حق میں"ہفتہ مدحت" جاری ہے خود ان کے خلاف دی گئی درخواستوں کی نقول میرے پاس ہیں پھر بھی چند سطری تحریر میں نام لکھنے سے اجتناب کا مقصد آزادانہ تحقیقات کے حق میں بات کرنا تھا۔
یہ تمہیدی سطور لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ہفتہ مدحت کی طرح کی ایک مہم کچھ لوگ اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر (یہ سطور لکھتے وقت علم میں آیا کہ انہیں منصب سے ہٹادیا گیا ہے) اور چند دوسرے لوگوں کے حق میں چلارہے ہیں۔ سرائیکی وسیب کے متعدد معروف صحافی اسلامیہ یونیورسٹی کے حالیہ سکینڈل کے حوالے سے بہت تفصیل کے ساتھ لکھ چکے فقط حالیہ سکینڈل کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ کچھ نے ماضی کے چند سنگین واقعات جن میں بہاولنگر کیمپس سمیت "کچھ اور" بھی شامل ہے پر ایک بار پھر لکھتے ہوئے یاد دلایا کہ یہ برائی تازہ نہیں بلکہ پرانی ہے اب تو یہ سرطان کی صورت اختیار کرچکی۔
اسلامیہ یونیورسٹی کے چند سابق ملازمین کی دو تین ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جس میں وہ بتارہے ہیں کہ نہ صرف موجودہ وی سی (وائس چانسلر) بلکہ ان سے قبل کے ذمہ داران بھی اس صورتحال سے واقف تھے۔
بہرطور حالیہ سکینڈل اس وقت سامنے آیا جب یونیورسٹی (اسلامیہ یونیورسٹی) کے سکیورٹی انچارج اعجاز شاہ جوکہ ریٹائر میجر ہیں ایک پولیس ناکہ پر گرفتار ہوئے۔ وجہ گرفتاری ان کا "ٹن" ہونا تھا۔
گرفتاری عین ممکن ہے نہ ہوتی لیکن ریٹائر میجر ہوا کے دوش پر سوار تھے اول فول کے ساتھ دھمکیاں دیتے رہے اس کے بعد جو ہوا وہ تفصیل کے ساتھ رپورٹ ہوچکا۔
بتایا جارہا ہے کہ ان کے موبائل میں 5500 فحش ویڈیوز موجود تھیں۔ درجنوں چیٹ پروگرام جن سے جنسی سکینڈلز کی تصدیق ہوتی ہے۔ موصوف کی گاڑی سے "آئسٔ" (یہ ایک قیمتی نشہ ہے) کے ساتھ کچھ اور بھی ملا۔ ایک رائے یہ ہے کہ برآمد ہوئے سامان میں سے کچھ کم ظاہر کیا گیا چونکہ اس بارے ٹھوس معلومات دستیاب نہیں ہوپائیں اس لئے محض میسجز میں ملنے والے ایک میسج کی بنیاد پر غائب کردہ اشیاء بارے عرض کرنے سے قاصر ہوں۔
پچھلے دو تین دن سے کچھ دوست سوشل میڈیا پر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جنسی سکینڈل چولستان میں زرعی فارمنگ کے لئے فوج کو دی جانے والی لاکھوں ایکڑ اراضی سے توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔ ان کی بات میں وزن ہوتا اگر پہلے دی گئی لاکھوں ایکڑ اراضی کے خلاف مقامی لوگوں نے کوئی تحریک چلائی ہوتی۔
مقبوضہ علاقوں کے وسائل کی بندربانٹ صرف قومی مزاحمت سے روکی جاسکتی ہے۔ گزشتہ 73 برسوں سے عموماً اور 55 برسوں سے خصوصاً سرائیکی وسیب کے وسائل کی لوٹ مار کا جو پروگرام جاری ہے اور جس طرح مقامی آبادی کو ریڈ انڈین بنادینے کے پروگرام کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے اس پر اگر قومی مزاحمت کے 10فیصد کے برابر بھی احتجاج نہیں ہوا تو مالکان کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ لوٹ مار کے کسی پروگرام سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے کسی سکینڈل کے پیچھے چھپانے کی کوشش کریں۔
اسی دوران سرائیکی قوم پرست رہنما راشد عزیز بھٹہ اور چند دیگر احباب اس سکینڈل کا ایک اور پہلو سامنے لائے ان کا موقف ہے کہ معروف آبادکار رہنما طارق بشیر چیمہ کے صاحبزادے بھی اس جنسی سکینڈل کا کردار ہیں۔
راشد بھٹہ اور دیگر احباب کے الزام اور دعوے کو یکسر رد کرنا غلط ہوگا البتہ انہیں اپنے موقف کے حق میں ٹھوس ثبوت عوام اور تحقیقات کرنے والوں کے سامنے رکھنا ہوں گے۔
بعض نہیں بلکہ سینکڑوں چسکے باز سوشل میڈیا پر یہ ثابت کرنے میں بھی مصروف ہیں کہ اس جنسی بے راہ روی میں خود طالبات ملوث ہیں۔ یہ رائے رکھنے والے بھی دلائل کے کھڈے کھود کر جگالی میں مصروف ہیں۔
کچھ دوستوں کی رائے میں سرائیکی وسیب و صوبہ پنجاب بلکہ ملک بھر کی جامعات میں جنسی استحصال عام سی بات ہے۔ ان کے خیال میں اس کاروبار کو سمسٹر سسٹم نے رواج دیا۔
چند ایک بوڑھاپے کے عشقوں، ٹھرک پن اور دوسری باتیں بھی کررہے ہیں۔
یہ تو تلخ حقیت ہے کہ ہماری جامعات (یونیورسٹیوں) میں سب اچھا نہیں ہے پچھلے چند برسوں کے دوران مختلف جامعات کے اس طرح کے سکینڈل سامنے آئے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حالیہ سکینڈل کے حوالے سے ایک تصحیح تو یہ کرلیجئے کہ یہ 5500 طالبات کی ویڈیوز نہیں بلکہ 5500 ویڈیوز ہیں۔ رضامندی، نیم رضامندی، جبر، ضرورت، ترغیب، مجبوری یہ وہ الفاظ ہیں جو اس موضوع پر پچھلے چند دنوں سے لکھنے والوں کی مختصر یا طویل تحریروں کا سرنامہ ہیں۔
ہماری دانست میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے قدامت پسند ماحول میں اولاً تو بچیوں کو تعلیم دلانا ہی جوئے شیر لانے سے کم معاملہ نہیں گزشتہ اور حالیہ سکینڈلز کی وجہ سے ان لوگوں کو پھر زبان مل رہی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ "بچی لکھ پڑھ لے گی تو عشقیہ خطوط لکھے گی"۔
یا یہ کہ بچیاں گھر سے باہر کسی مقصد کے لئے بھی جائیں بے راہ روی کا شکار ہوتی ہیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو والدین اپنی بچیوں کو نور علم سے منور کرنے کے لئے ہر آواز اور مخالفت کو نظرانداز کرتے ہیں اسلامیہ یونیورسٹی کے حالیہ جنسی سکینڈل نے انہیں کمزور کیا ہے۔ مقابلتاً چسکے بازوں اور بچیوں کی تعلیم کے دشمنوں کو زبان درازی کا موقع مل گیا ہے۔
اصولی طور پر تو جو شواہد ابتدائی تفتیش میں سامنے آئے تھے ان کی روشنی میں وائس چانسلر کو فوری طور پر گرفتار کیا جانا چاہیے تھا۔
ثانیاً اسی یونیورسٹی کے ہی بعض ذمہ داران کے خلاف ماضی میں جن الزامات پر تحقیقات ہوئیں ان تحقیقات کی رپورٹس دبانے اور مجرموں کو تحفظ دینے کے ذمہ داران بھی کسی تاخیر کے بغیر گرفتار ہونے چاہئیں تھے۔
ثالثاً یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں اس طرح کے شرمناک واقعات کے سامنے آنے پر بڑے بڑے شرفا بدکرداروں کی شرافت و پارسائی کے محافظ بن کر دندناتے پھرے۔ کبھی طالبہ رسوا ہوگی، کبھی استاد کی عزت خاک میں مل جائے گی اور کبھی درسگاہ بدنام ہوگی کے بھاشن دیئے گئے۔
مٹی پائو اور "ہفتہ مدحت" کے پروگراموں کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے سکیورٹی چیف کے موبائل میں 5500 فحش ویڈیوز اور سینکڑوں چیٹ پروگرام کے کردار زندہ و موجود ہیں۔ آزادانہ تحقیقات سے ہی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاکر جامعہ کو گندگی سے صاف کیا جاسکتا ہے۔
جو لوگ اس معاملے کو طالبات کی مرضی سے جوڑ کر پیش کررہے ہیں انہیں بھی مرضی کے ثبوت بلاتاخیر سامنے لانے چاہئیں۔
اس ضمن میں ایک تجویز یہ ہے کہ جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم بننی چاہیے۔ معاملہ صرف مقامی پولیس پر نہ چھوڑا جائے۔ وائس چانسلر کے علاوہ ڈاکٹر ابوبکر اور دوسرے کرداروں کو فوری طور پر گرفتار کیا جانا ازبس ضروری ہے۔
گو اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے وزیراعلیٰ نے بھی کمیٹی بنادی ہے لیکن باردیگر عرض ہے کہ تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کا قیام بہت ضروری ہے تاکہ سیاہ کار اپنے انجام کو پہنچ سکیں۔