Imran Khan Ki Saza Muattal Lekin Rehai?
عمران خان کی سزا معطل لیکن رہائی؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بنچ نے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں ماتحت عدالت کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ مختصر فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کہا سزا کن وجوہات پر معطل کی ہے اس کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں لکھ دی جائیں گی۔
سزا معطل کرنے والے 2 رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس عامر فاروق پر عمران خان تحریری طور پر 2 مختلف وقتوں میں عدم اعتماد کا اظہار کرچکے تھے۔ ان کی جماعت بھی سوشل میڈیا پر اس جج کے خلاف مہم میں مصروف تھی۔ گزشتہ سماعت پر عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ اور جج میں تلخی بھی ہوئی جس کے بعد کھوسہ عدالت کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے باہر نکلے اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "سوموار کو عمران خان کی رہائی کا حکم نہ آیا تو میں وکلاء کی ملک گیر تحریک چلائوں گا"۔
فیصلہ سنانے سے قبل عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ ریاست کو نوٹس دیئے اور سنے بغیر فیصلے کی طرف بڑھنا قانونی طور پر درست نہیں ہوگا۔
توشہ خانہ کیس میں ہوئی تین سال قیدوجرمانے کی سزا کی معطلی کے بعد کیا عمران خان 5سال کے لئے نااہل رہیں گے؟ ان کے حامی وکلاء کا موقف ہے کہ جب سزا ہی معطل ہوگئی تو نااہلی کیسی؟ بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ تین سال سزا اور جرمانہ الگ ہیں۔ الیکشن ایکٹ کے تحت سزا یافتہ شخص کی نااہلی یکسر الگ معاملہ ہے۔ عمران خان کے وکلاء کو الیکشن ایکٹ کے تحت ہوئی پانچ سالہ نااہلی الگ سے چیلنج کرنا ہوگی۔
میڈیا کے کیمروں کے سامنے جذباتی گفتگو اور حقائق میں فرق ہے۔
پی ڈی ایم و اتحادی رہنما بالخصوص سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے عمران خان کی سزا کی معطلی کے فیصلے پر کہا ہے کہ "چیف جسٹس آف پاکستان کا گڈ ٹو سی یو کا پیغام اسلام آباد ہائیکورٹ نہ صرف پہنچ گیا بلکہ تعمیل بھی ہوگئی"۔ اسی کیس کی ایک درخواست کی سپریم کورٹ میں پچھلی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے بعض ریمارکس پر پیدا ہوا سیاسی بھونچال ابھی تک برقرار ہے۔
چیف جسٹس اور بعض ججز کے ریمارکس پر کہا گیا کہ انہی عدالتوں نے سال ڈیڑھ ڈیڑھ سال عمران خان کے مخالفین کی ضمانتیں نہیں لی تھیں لیکن عمران خان کی رہائی کے لئے قانون کو روندا جارہا ہے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی نے تبصرے میں کہا تھا "سپریم کورٹ کو نوازشریف کو جیل بھیجنے کی جتنی جلدی تھی اس سے زیادہ جلدی عمران کی رہائی کے لئے ہے"۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف اپنے قائد کے حکم پر مہم چلانے والے سزا کی معطلی کے فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دے رہے ہیں جبکہ مخالفین فیصلے کو دبائو اور سپریم کورٹ کی خواہش کا نتیجہ۔
بظاہر اسلام آباد ہائیکورٹ سے سزا کی معطلی کے باوجود عمران خان کی رہائی ممکن نہیں اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ انہیں سائفر کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ دوسری یہ کہ توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد ان کی لگ بھگ 19 مقدمات میں ہوئی ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ ہوچکی ہیں۔
چند دن قبل جب 16 مقدمات میں ضمانتیں منسوخ ہوچکی تھیں تو ان سطور میں عرض کیا تھا کہ عمران خان کے وکلاء کو کسی تاخیر کے بغیر ضمانت بعداز گرفتاری کی درخواستیں دائر کرنا ہوں گی یہ بھی عرض کیا تھا کہ اب یہ پولیس پر منحصر ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں ان تمام مقدمات میں گرفتاری ڈالے جن میں ضمانتیں منسوخ ہوگئی ہیں یا ایک ایک دو دو کرکے مقدمات میں گرفتاری۔
بعض جذباتی وکلاء کا یہ بیان درست نہیں کہ کسی ایک مقدمہ میں گرفتار شخص کی دیگر مقدمات میں گرفتاری نہیں ڈالی جاسکتی یہ بیان خان صاحب کے حامیوں کو لبھانے اور سوشل میڈیا پر داد سمیٹنے کی حد تک تو بھلا ہے لیکن قانون اس دعوے سے مختلف ہے۔
توشہ خانہ کیس بھی اگر ان کے وکلاء نے سنجیدگی سے لڑا ہوتا اور خان صاحب 35 حاضریوں سے غیرحاضر نہ رہتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا مگر بدقسمتی سے ان کے وکلاء میں بعض اپنے خلاف سائبر کرائم کی کارروائی کروابیٹھے ان پر الزام ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنانے والے ایڈیشنل سیشن جج کا جعلی سوشل میڈیا اکائونٹ بناکر اس پر بعض ایسی پوسٹیں کیں جنہیں عدالت میں وہ جج کے خلاف استعمال کرسکیں لیکن یہ چالاکی الٹا انکے گلے پڑگئی۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ عمران خان سائفر والے مقدمے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار ہیں انہیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے 30 اگست یعنی آج بدھ کو شخصی طور پر طلب کررکھا ہے۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق اگلے ایک دو روز میں 9 مئی کے واقعہ پر لاہور میں درج مرکزی مقدمہ میں بھی ان کی گرفتاری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
خان صاحب خود اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب "کوئی" مخالف کو درست یا غلط رگڑا لگانے پر تل جاتا ہے تو کیسے کیسے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔
بطور وزیراعظم پونے چار برسوں کے دوران وہ خود بھی ایسے ہتھکنڈوں کے ایک پرجوش کردار رہے ہیں۔ تب ان پر الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ رات بارہ بجے جیل حکام اور نیب والوں کو فون کرکے دریافت کیا کرتے تھے کہ فلاں ملزم اس وقت کس حالت میں ہے اور اسے کیا سہولت میسر ہے؟
ہوسکتا ہے مخالفین کے یہ الزام درست نہ ہوں مگر اپنے سیاسی مخالفین جنہیں بقول ان کے ایجنسیوں نے انہیں بتایا کہ وہ کرپٹ چور اور ملک دشمن ہیں کے بارے میں جو وہ کہتے رہے وہ ساری باتیں ریکارڈ پر ہیں۔ اسی طرح مخالفین کے لئے جیل سہولتوں پر ان کا سخت گیر موقف بھی۔
لیکن اپنی قید کے ان دنوں میں جیل میں سہولتوں کے لئے انہوں نے کم از کم چار درخواستیں دائر کروائیں تین ان کے وکلاء نے دائر کیں اور ایک ان کی اہلیہ محترمہ نے جس پر سپریم کورٹ نے انہیں جیل میں دی گئی سہولتوں کی تفصیل طلب کی۔
گزشتہ سے پیوستہ روز اٹارنی جنرل نے جیل میں انہیں دی گئی سہولتوں کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی ہے۔ حسن اتفاق سے یہ سہولتیں ان کے مخالفین کو حاصل سہولتوں سے زیادہ ہیں۔
سابق وزیراعظم کے خلاف ویسے تو 180 سے زائد مقدمات ہیں لیکن ان میں سنجیدہ نوعیت کے 6 مقدمات ہیں۔ ان 6 میں سے بھی 3 مقدمات خاصے اہم بلکہ سنگین ہیں۔ اولاً سائفر کیس، ثانیاً عبدالقادر ٹرسٹ اور ثالثاً 9 مئی کی ناکام بغاوت جس کی وہ کبھی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور کبھی اسے ایجنسیوں کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔
ان تین مقدمات سے اہم اور سنگین مقدمہ ثابت ہوگا اگر ان کے دور کے وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو دی گئی ٹیلیفونک ہدایات کہ آئی ایم ایف کو خط لکھیں اس حکومت (پی ڈی ایم والی) سے معاہدہ نہ کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق اس معاملے کے حوالے سے جو سمری تیار کی گئی اس میں شوکت ترین، محسن لغاری اور تیمور جھگڑا کے ساتھ عمران خان بھی ایک کردار کے طور پر شامل ہیں ان پر دو الزام ہیں ایک یہ کہ شوکت ترین نے ان کی ہدایت پر دو صوبائی وزراء سے بات کی ثانیاً یہ کہ عمران خان نے اپنے بیان اور ویڈیو تقریر میں براہ راست آئی ایم ایف سے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت سے کوئی معاہدہ نہ کیا جائے کیونکہ ہم اقتدار میں آکر اس معاہدے کو قبول نہیں کریں گے۔
ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کررہے ہیں کہ اسی سمری میں ان (عمران خان) کی جانب سے آئی ایم ایف سے اپنے ہی معاہدے کی خلاف ورزی کو ملک کے خلاف سازش کے طور پر لیتے ہوئے بعض نکات اٹھائے گئے ہیں۔
پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت کے دوران یہ مقدمہ اس لئے درج نہ ہوسکا کہ خود پی ڈی ایم کی جماعتیں اور بعض اتحادی اس پر متفق نہیں تھے۔ اب بظاہر ایسے کسی اتفاق رائے کی ضرورت نہیں۔
ہماری دانست میں اس پھواڑے میں نہ ہی پڑا جائے تو یہ بہتر ہوگا۔