Hazaron Khwahishen Magar?
ہزاروں خواہشیں مگر؟
لیجئے سال 2021ء بھی اختتام پذیر ہوا۔ آج رواں سال کا آخری دن ہے۔ یکم جنوری 2021 کو جوکچھ جیسا تھا، 31دسمبر کو ویسا ہی ہے۔ صرف مہنگائی بڑھی۔ حکومت اور اپوزیشن میں کچھ کچھ تلخی بھی۔ اس سال کے دوران کچھ دوست بچھڑ گئے۔ سال کے ابتدائی سوا تین ماہ، والدہ (امڑی) کے شہر میں بیتائے تھے، پھر لاہور واپسی ہوگئی۔ کتابیں اور اخبارات پڑھتے، قلم مزدوری کرتے، یہ سال بھی گزرگیا۔ کئی سال ایسے ہی گزرے، لیکن یہ سال ہمارے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔
بیماریء دل تو لگ بھگ ڈیڑھ عشرے سے "مچل مچل" کے ساتھ تھی ہی، اب ایک نئی تکلیف نے آن لیا۔ اس کے باعث گھر تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ دوستوں کی مہربانی ہے، آجاتے ہیں تو رونق لگ جاتی ہے۔ کچھ گپ شپ، تبادلہ خیال، تھوڑا سا جی بہل جاتا ہے۔ مہنگائی نے دوسرے شہریوں کی طرح ہمیں بھی متاثر کیا، اپنے فقیر راحموں کے سگریٹ مزید مہنگے ہوگئے۔ اس پر یہی عرض کیا جاسکتا ہے "تیرا غم میرا غم میرا غم تیرا غم"۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ سال کے آغاز پر جو کام سوچے تھے وہ ہو نہیں پائے۔ کچھ حالات کا دخل تھا، تھوڑے سے مسائل تھے اور روایتی سُستی۔
ہمارے دوست استاد مشتاق احمد، حسب معمول سول سپر میسی کا جھنڈا بُلند کئے ہوئے ہیں۔ آج کل وہ کہہ رہے ہیں کہ "قائد انقلاب میاں نوازشریف کی منتیں ترلے ہورہے ہیں کہ آپ آئیں اور ملک کو سنبھالیں "۔ استاد جی اچھے آدمی ہیں، بھلے مانس بھی۔ ملتانی منڈلی والوں کا وہی حال چال ہے جو سال کے آغاز پر تھا، اور ملتانی سنگت والوں کا بھی۔ اشیائے خورونوش مہنگی ہورہی ہیں مسلسل، اور وزیراعظم پھر بھی یہی کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ ترین کو آپ، جہانگیر ترین نہ سمجھ لیجیۓگا۔ جہانگیر ترین بڑے صنعت کار ہیں، یہ "سستا ترین" کیا ہے؟ اللہ ہی جانے۔
سوشل میڈیا پر خوب رونقیں ہیں۔ جیالے اور متوالے ایک دوسرے کو ڈیل کرلینے کے طعنے دے رہے ہیں۔ سیاست اِسی کو کہتے ہیں۔ ہمزاد فقیر راحموں کے بقول، اسٹیبلشمنٹ مزید طاقتور ہوئی ہے اور اس سے زیادہ ہوگی۔ مستقبل میں ملک کا اہم ترین "مقدس ادارہ" قومی سلامتی کمیٹی ہوگا۔ کم از کم مجھے ان کی بات سے اتفاق ہے۔ بس آپ دیکھتے جائیں ہوتا کیا ہے۔ چلیں چھوڑیں یہ ہم بھی کیا باتیں لے بیٹھے، یہ تو ہر روز کی کتھا ہے، شب و روز ایسے ہی گزر رہے ہیں۔ اس سے اچھے گزریں گے بھی کیسے، ہم کون سا سونے کا چمچ منہ میں لے کر دنیا میں وارد ہوئے تھے، ایک عام سے سفید پوش گھرانے میں پیدا ہوئے۔
زندگی کے اب تک کے سفر میں روزی روٹی ہی مسئلہ رہی۔ جبرواستحصال بُھگتے بُھگتے یہاں تک آن پہنچے ہیں، اور کتنا جی لیں گے؟ ہمارے حصے میں بھی ہم جیسوں کی طرح صبروشُکر ہی آئے، اس سے زیادہ کیا ہوتا۔ سرائیکی صوبہ اس سال بھی نہیں بن سکا، کیوں نہیں بنا؟ اس کی ڈھیر ساری وجوہات ہیں۔ فوری اہم وجہ یہ ہے کہ، جنہوں نے 2018ء کے انتخابات میں صوبے کے نام پر ووٹ لیا تھا، وہ دھوکہ کرگئے۔ اس قصے کو بھی الگ اُٹھارکھیئے۔ حکومت اور اپوزیشن والے ایک دوسرے پر برس رہے ہیں۔ دونوں طرف سے ویسی ہی باتیں ہیں، جیسی پچھلے ساڑھے تین سالوں سے سنتے آرہے ہیں۔
وزیراعظم نے سال ختم ہونے سے دو دن قبل، ایک بار پھر یہ سمجھانے کی کوشش کی، کہ سابق حکمرانوں نے عالمی اداروں سے قرضے لے کر قوم کو غلام بنادیا۔ اچھا ویسے یہ آدھی بات ہے، پوری بات پھر کسی کالم میں کرلیں گے۔ ساڑھے تین برسوں کے دوران 15ارب ڈالر کے لگ بھگ قرضے لینے والے، جب پچھلے حکمرانوں کو کوستے ہیں تو پتہ نہیں ہنسی کیوں آجاتی ہے۔ یہ سال اچھا نہیں گزرا بس گزر گیا، اب سوچ یہی رہے ہیں کہ کل سے شروع ہونے والے سال کے حوالے سے کچھ منصوبہ بندی کرلی جائے۔ تین کام تو لازمی کرنے ہیں، کچھ کتابوں کے نئے ایڈیشنوں کی طباعت کروانی ہے اور سوانح عمری مکمل کرنی ہے۔ صحت کے مسائل جس طرح بڑھ رہے ہیں، ان کے سنگین ہونے سے قبل یہ ادھورے کام کر ہی لئے جائیں تو اچھا ہے۔
انقلاب ابھی دور ہے، البتہ عاشقان ِانقلاب کا دعویٰ ہے کہ وہ آیا اور بس آیا۔ کیسے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ کھڑکے دھڑکے بھی حسب معمول ہیں۔ مسائل کا سورج حسبِ دستور سوا نیزے پر ہے۔ پتہ نہیں کیوں امید پرستی دم توڑتی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مالکان کی ضرورتوں نے 22کروڑ لوگوں کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے، اس بند گلی میں خود جینے کے ساتھ مالکان کو پالنا بھی لازم ہوا۔ عسکری دانش کے چند نگینے ٹی وی چینلوں پر بیٹھے، ہمیں اصلاحی اسباق رٹوارہے ہیں، ان سے بندہ پوچھے یار جو لوگ عام شہریوں کی کالونیوں میں رہنا اور قبرستانوں میں دفن ہونا پسند نہیں کرتے، وہ بولتے ہوئے سوچتے کیوں نہیں۔ خیر پوچھے کون؟ یہی تو مسئلہ ہے۔
رواں سال کے دوران کئی بار سوچا کہ، یہ قلم مزدوری چھوڑ کر کوئی اور کام کیا جائے، ہر بار ایک ہی سوال سامنے آن کھڑا ہوا، کیا کام کریں گے؟ کچھ اور تو سیکھا ہی نہیں۔ یہاں تک کہ مرحوم والدین سے تعویز وغیرہ لکھنا ہی نہیں سیکھ پائے ورنہ عمر کے اس حصہ میں یہی کام کرلیتے۔ اچھا جب کبھی اس طرح کی سوچوں نے دستک دی، فقیر راحموں نے خوب بھد اُڑائی ہماری۔ ہر بار ایک ہی بات کہی اُس نے، "یار شاہ جی تجھ سے یہ کام بھی نہیں ہونا تھا، تم تو صحافی ہوکر قلم مزدور بنے رہے، صحافت نہ سیکھ پائے پیر کیسے بنتے"؟
ویسے کہتا ٹھیک ہے ظالم۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ دیکھتے ہی دیکھتے "صحافی" اور "پیر" بن جانے والوں پر "رشک" آتا ہے۔ رشک ہی ہے، حسد بالکل نہیں۔ خیر کوئی بات نہیں ہم اسی میں خوش ہیں۔ زیادہ، بلکہ بہت زیادہ وقت تو گزرگیا، یوں کہہ لیجئے اصل وقت بیت گیا، اب تو بونس پر جی رہے ہیں۔ رواں سال کے اس آخری کالم میں بہت کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، پھر سوچا اس کافائدہ کیا ہوگا؟ اب لڑنے بِھڑنے کی عمر تھوڑا ہی ہے۔ صلح صفائی سے بونس والا عرصہ بیتالیناچاہیے۔
خطے اور خود ملکی سیاست کے اہم ترین واقعات پر کالم گھسیٹا جاسکتا تھا، مگر رہنے دیجئے کچھ کتابیں رکھی ہیں، آنے والے دنوں میں انہیں پڑھ لیں گے۔ کچھ ادھورے کام مکمل کرنے ہیں۔ ایک حسرت ہے اور ایک خواہش، حسرت یہ ہے کہ نجف اشرف کی زیارت ہوجائے۔ خواہش یہ ہے کہ اگر سفر حیات تمام ہو تو، اپنی والدہ مرحومہ کے قدموں میں تدفین ہوجائیں۔ زندگی کا یہ سال بھی دوسرے ماہ و سال کی طرح گزر ہی گیا، ارادے بنے ٹوٹے، خواہشیں مچلیں اور دم توڑ گئیں۔ سفر جاری ہے، 63 سنگِ میل عبور کر آئے ہیں، باقی کتنے ہیں یہ اللہ جانے۔
کل جو نیا سال شروع ہونا ہے، اس بارے ہمارے کچھ سادہ دوستوں کا خیال ہے، کہ یہ تبدیلی کا سال ہوگا۔ عین ممکن ہے ان دوستوں کی خواہش پوری ہوجائے، لیکن گزرے برسوں میں بوئے گئے کانٹے پلکوں سے چننا پڑیں گے۔ طبی ماہرین نے ایک بار پھر خطرے کا الارم کھڑکاتے ہوئے کہہ دیا ہے، کہ فروری 2022ء میں کورونا کی پانچویں لہر کے آنے کا خطرہ ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن مارچ میں تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ ہم دیکھ ہی تو سکتے ہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ برس جو بیت گیا سو بیت گیا، اللہ کرے اگلا برس زمین زادوں کے لئے بہاریں لے کر اُترے۔ محرومیاں کم ہوں۔ ہمارے بلوچ دوستوں کی سُنی جائے۔ اُٹھالئیے جانے والے بچے اپنے والدن کی آغوش میں واپس پہنچ جائیں۔ مگر اس کا کیا کریں کہ ہزاروں خواہشیں ہیں اور سماج کا دم نکلنے کو ہے۔