Hain Talkh Bohat Banda e Pakistan Ke Halaat
ہیں تلخ بہت بندہء پاکستان کے حالات
اب حالت یہ ہے کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو ہی نہیں رہیں بلکہ پہلے آسمان سے آگے کی طرف محوے پرواز ہیں یہ پرواز رُکتی دیکھائی نہیں دے رہی کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کے اہل اقتدار بیانات وعدوں اور الزامات کی دنیا سے باہر نکلنے کو تیار نہیں اور دوسری یہ کہ آئی ایم ایف سے 13 ماہ میں کئے دو وعدوں کا ڈھول بجانا ہے،فقیر راحموں تو "گھابرنے " لگے ہیں پرسوں دکاندار سے ڈن ہل کی نقد قیمت میں اضافے پر اُلجھ رہے تھے بڑی مشکل سے دلاسے دیکر انہیں دکان سے باہر نکالا ورنہ وہ بضد تھے دکاندار منافع کم کرے ڈالر 178 کا ہے ایک پیکٹ پر سیدھا 100 روپے منافع ظلم ہے۔
خیر چھوڑیں یہ فقیر راحموں کے چونچلے اور رولے ہیں، ادھر ہمارے محبوب وزیراعظم عمران خان نے اپنی جماعت کی کور کمیٹی کے ارکان اور وفاقی وزراء و مشیروں کے اجلاس میں ایک بار پھر تسلی دی ہے کہ مشکل وقت ہے گھبرائیں نہیں اور عوام کو بھی " گھابرنے نہ دیں بلکہ انہیں بتائیں کے مہنگائی پر جلد قابو پالیا جائے گا اور عوام جلد اچھی خبریں سنیں گے۔ اچھی خبریں اور عوام " مر نا جاتے گر اعتبار ہوتا "۔
اس اہم اجلاس کےبعد دی گئی بریفنگ میں وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اجلاس کے شرکاء کو "اعتماد میں لیا ہے"۔ فواد چودھری کے مطابق وزیراعظم کو سب سے زیادہ مہنگائی کی "فکر" ہے۔ گزشتہ شام ہی وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کی صورتحال پر اپنی ہفتہ وار رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ کے مطابق ٹماٹر، خوردنی تیل، گھی، آٹا اور مختلف سبزیوں سمیت 30اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ گو رپورٹ میں چینی کی قیمت میں کمی کا دعویٰ کیا گیا ہے، مگر اس کے برعکس چینی مختلف شہروں میں 110سے 140روپے تک فروخت ہونے کی اطلاعات ہیں۔
گزشتہ ہفتے اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کی مجموعی شرح (ادارہ شماریات کے مطابق) 17.37 فیصد ہوگئی ہے جبکہ ڈالر 178روپے کی قیمت کو چھونے لگا ہے اور ٹماٹر 200 روپے کلو ہیں۔ سبزی والے مہنگائی کی وجہ سے اب کلو کا نہیں ایک پاو کا نرخ بتاتے ہیں جیسے کل شام ہمیں بتایا ٹماٹر پچاس روپے اور بھنڈی 45 روپے پاو ہے، اتنی تو انسانیت سبزی فروشوں میں ابھی باقی ہے وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں کلو کا ریٹ سن کر گاہک کو دل کا دورہ ہی نا پڑجائے اس لئے پاو کی قیمت بتاو۔
اچھا ویسے اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیراعظم نے کور کمیٹی کے وزراء اور مشیروں کے اجلاس میں شکوہ کیا کہ "انہوں نے حکومت کے فلاحی کاموں سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں "۔ فلاحی کاموں کی تفصیل بھی مل جاتی گر تو ثواب ہوتا، حکمران اتحاد کے برسراقتدار آنے سے اب تک ملک میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے یقیناً اس میں مہنگائی کی عالمی لہر کا بھی تعلق ہے لیکن صرف یہی ایک وجہ ہرگز نہیں، روپے کی قدر میں کمی، پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ مہنگائی بڑھنے کی اہم ترین وجہ ہے۔
وزیراعظم اور ان کے رفقا تواتر کے ساتھ پچھلے تین برسوں سے عوام کو یہ بتارہے تھے کہ معیشت بہتر ہورہی ہے، مزید بہتر ہوتی اگر حکومت کو گزشتہ حکومتوں کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے نہ لینا پڑتے۔ اس موقف کو تقاریر اور عمومی گفتگووں کا حصہ بناتے ہوئے جس بات کو نظرانداز کردیا گیا وہ یہ ہے کہ قرضے ہر حکومت لیتی ہے اور وہ پچھلی حکومتوں کے دور میں لئے جانے والے قرضوں اور سود کی بھی باقاعدگی سے ادائیگی کرتی ہے۔
دنیا میں پھیلی کورونا وبا کی وجہ سے پچھلے برس متعدد عالمی و علاقائی مالیاتی اداروں نے ترقی پذیر ممالک کے قرضوں اور سود کی ادائیگی کو ری شیڈول کیا اس طور پاکستان کو کم از کم پانچ ارب ڈالر کے قرضوں اور سود کی ادائیگی میں مزید مہلت مل گئی۔ یہ نہیں بتاتی حکومت ہمیں اور آپ کو۔
پچھلی حکومتوں پر قرضوں کا بوجھ لادنے کی بات تکرار کے ساتھ اس طرح کی گئی جیسے یہ کوئی سنگین جرم ہو لیکن یہ بتانے سے گریز کیا گیا کہ ان قرضوں میں سے کتنا حصہ سود اور قرض کی اقساط ادا کرنے پر صرف ہوا اور کتنا غیرترقیاتی مدوں پر۔ بیرونی قرضوں کو بوجھ قرار دے کر سابقہ حکومتوں کو مجرم کے طور پر قوم کے سامنے پیش کرنے والی حکومت کے اپنے تین سال میں 14ہزار 906ارب روپے قرضہ لیا گیا جبکہ قبل ازیں اکہتر برسوں کا مجموعی قرضہ 25ہزار ارب روپے ہے۔
ماضی میں حاصل کئے جانے والے قرضوں کا تقریباً 60فیصد قرضہ تین سالوں میں لیا گیا اسی دوران 7ہزار460 ارب روپے اقساط اور سود کی ادائیگی کی مد میں ادا کئے گئے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سپورٹ پروگرام کے حصول کے لئے پچھلے برس ایک معاہدہ کیا اس معاہدے کے حوالے سے موجودہ مشیر خزانہ قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ اس کی "شرائط نامناسب تھیں "۔ گزشتہ ماہ انہوں نے خود آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران جو شرائط تسلیم کیں ان پر عمل کے باوجود معاہدہ ابھی نہیں ہوپایا لیکن ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوگیا۔
حکومت اور خصوصاً وزیراعظم یقیناً مہنگائی کاخاتمہ کرنا یا اس میں کمی لانا "چاہتے ہوں گے"۔ غور طلب امر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کے ضمن میں اٹھائے جانے والے اقدامات سے پیدا ہوا مہنگائی کا سونامی قابو میں کیسے آئے گا؟ کیا حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پچھلے ایک ماہ کے دوران بجلی اور پٹرولیم کے بڑھائے ہوئے نرخوں میں 50فیصد کمی کرسکے؟ ادھر تو اب پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں ردوبدل کے نام ایک فریب اور ہوگیا وفاق کی کمائی بڑھ گئی صوبوں کو چونا لگ گیا کیا حکومت اس کی وضاحت کریگی؟
بظاہر یہ ممکن نہیں۔ اب یہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ چین سے ایک فیصد شرح سود پر 12ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کے لئے بات چیت جاری ہے یقیناً یہ قرضہ اگر مل جاتا ہے تو یہ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے سالانہ شرح سود سے کہیں کم ہوگا۔ مگر جس بات کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف نے برسراقتدار آنے سے قبل وعدہ کیا تھا کہ قرضوں پر خودانحصاری کو ترجیح دی جائے گی اس کی حکومت زراعت کے شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کرکے متبادل ذرائع آمدنی کا ذریعہ بنائے گی، لیکن پچھلے تین برسوں میں کھادوں، ادویات و سپرے اور بیجوں کی قیمت میں ہونے والے اضافے سے تو نہیں لگتا کہ اس شعبہ پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کی گئی ہو۔
محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ زرعی اجناس کی قیمتیں بہتر ہیں کیونکہ فی ایکڑ کاشت کے اخراجات میں اضافے کو نظرانداز کیا گیا۔ مہنگائی میں کمی اور دوسرے مسائل کو حل کرنے کےلئے وزیراعظم کے وعدے اپنی جگہ لیکن مہنگائی اور مسائل کے بوجھ تلے سسکتے شہریوں کی حالت بہت خراب ہے۔ لوگوں کی قوت خرید دم توڑتی جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محض وعدوں کی بجائے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 22 کروڑ آبادی میں سے 14 کروڑ لوگ دیہی علاقوں میں بستے ہیں اور 80 فیصد دیہی علاقوں میں ہسپتال ڈسپنریاں نہیں ہیں تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے، کیا دیہی علاقوں میں انسان نہیں بستے انہیں غربت اور محرومیوں سے کون نجات دلوائے گا؟