Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Habs Hai Aur Balaa Ka Habs

Habs Hai Aur Balaa Ka Habs

حبس ہے اور بلا کا حبس

بند گلی میں کھڑی ریاست کے ذمہ داران (اگر ہیں تو) کو احساس ہی نہیں کہ حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ 16دسمبر 1971ء سے قبل کی تاریخ زیربحث نہ بھی لائیں تو بھی بعد کی نصف صدی میں جتنے تجربے سرکاری "آستانوں " پر ہوئے وہ لوگوں کے گلے پڑگئے۔ تین تجربے تو بہت ہی خطرناک ثابت ہوئے۔ فرقہ پرست تنظیموں کو گود لینے، ایم کیو ایم بنوانے اور ٹی ٹی پی والا۔ کسی دن حساب کر کے دیکھئے ان تین تجربوں کی وجہ سے کتنے ہزار مردوزن اور بچے کھیت ہوئے۔

ہمارے یہاں طالبانائزیشن کی بھینٹ چڑھے 70ہزار سے زائد لوگ سبھی کویاد ہیں اٹھتے بیٹھتے ان کا ذکر بھی ہوتا ہے، ہونا بھی چاہیے یہ ہمارے ہی بھائی بیٹے بیٹیاں بھانجے بھتیجے تھے لیکن وہ جو کراچی میں مارے گئے یا فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھے انہوں نے بھی ماوں کی کوکھوں سے ہی جنم لیا تھا کھیتوں یا خودرو جھاڑیوں میں نہیں اُگ آئے تھے۔ کراچی میں نسل پرستی کی آگ نے کتنے دامن جلائے۔ گھر راکھ کئے زندوں کو قبرستان پہنچایا۔ فرقہ پرستی کا جن فروری 1984ء میں بوتل سے کس نے نکالا۔ پالاپوسااور لوگوں پر "چھوڑ"دیا۔ ایک لشکر نے جنرل ضیاء الحق کے وزیر شمالی علاقہ جات قاسم شاہ کی قیادت میں گلگت بلتستان پر چڑھائی کی تھی اس میں افغان جہاد کے تربیت یافتہ مقامی اور غیرمقامی "مجاہدینٔ" شامل تھے۔ یہ 1987ء کے وہ بدنصیب دن تھے جب ریاست خود پارٹی بن گئی۔

تاریخ سیاسیات اور صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے جب بھی ملکی تاریخ کے اوراق الٹتا ہوں خوف آتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیروں کا رقص شروع ہوجاتا ہے۔ کیسے بدقسمت لوگ ہیں ہم کہ کسی نے بھی اس وقت یہ نہیں سوچا کہ امریکہ اور سی آئی اے کی مالی مدد سے (یہ صرف 48لاکھ ڈالر کی تھی) جن 15ہزار مجاہدین جہاد افغانستان کو ہم اپنے قبائلی علاقوں میں بسانے جارہے ہیں یہ کسی بھی اخلاقی اور سماجی ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں صرف بندوق چلانا جانتے ہیں۔ تب ہم ایسے چند ہی لوگوں نے سوال اٹھایا تھا کہ ان غیرملکیوں کو قبائلی علاقوں میں کیوں بسایا جارہا ہے؟ افغان جہاد ختم ہوا اب انہیں ان کے ممالک واپس بھجوائیں۔

رواں صدی کی پہلی دہائی میں لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ "ہم شہری" میں اعدادوشمار کے ساتھ اس موضوع پر ایک تحریر لکھی۔ اس تحریر کی اشاعت کے بعد ایک کام تو یہ ہوا کہ استاد محترم جناب حمید اختر (ْمرحوم) نے لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں لکھے گئے اپنے کالم کی دوقسطوں میں یہ تحریر من و عن شائع کی اور کچھ سوالات اٹھائے۔ انہوں نے لکھا صاحب تحریر (حیدر جاوید سید) میرے شاگرد اور معروف صحافی ہیں انہوں نے اپنی تحریر میں جو تفصیلات لکھیں اور اعدادوشمار دیئے کوئی ان کی تردید لکھنا چاہے میرا کالم حاضر ہے۔ کوئی جواب نہیں آیا۔ آتا کیسے تلخ حقیقت یہی تھی، مندرجہ بالا مثال خود ستائی کے لئے نہیں لکھی یہ ہماری تاریخ ہے اس ملک کی تاریخ جس کے مالک بنے طبقے کو چوہتر سال بعد بھی "عقل" نہیں آئی۔

یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے انتہا پسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھانے کے بعد ایک مرحلہ پر نیشنل ایکشن پلان تو بنالیا لیکن کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ وہ انتہا پسند بنانے اور پروان چڑھانے والوں سے سوال کرتا کہ آپ یہ سب کیوں کرتے رہے اور کررہے ہیں؟

تمہید طویل ہوگئی، عرض یہ کرنا تھا کہ نفرت پر ہوئے بٹواروں والی زمینوں میں گلاب کاشت نہیں ہوتے بالکل ایسے جیسے ہتھیلی پر سرسوں نہیں اُگائی جاسکتی۔ آپ بٹوارے کی حد بندی (سرحد) پر کھڑے ہوکر دونوں طرف دھیان سے دیکھئے۔ ہر طرف نفرت کاشت ہوئی اور اسی کی فصلیں اٹھائی جارہی ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہہ لیجئے جس طرح شائننگ انڈیا صرف بھارت کے الیکٹرانک میڈیا پر ہے اسی طرح ذمہ دار ریاست بھی صرف ہمارے حکمرانوں کے بیانات میں ہے۔ بیانات کی دنیا سے باہر نکل کر وہ ذمہ دار ریاست تلاش کیجئے۔ مل جائے تو تحریر نویس کو آگاہ کیجئے گا۔

ریاست بند گلی میں کھڑی ہے اور بائیس کروڑ لوگوں کا دم گھٹنے لگا ہے۔ پچھلی نصف صدی (سقوط مشرقی پاکستان کے بعد کی) سے یہاں جو ہورہا ہے اس پر غور کیجئے۔ فائدہ کس کا ہوا اورنقصان کس کا۔ گھر اجڑے، پیارے مرے، کاروبار برباد ہوئے، نفرتوں کا کاروبار خوب پھلا پھولا۔ مزید پھلے پھولے گا اس کی وجہ سیدھی اور صاف ہے۔ عالمی اور علاقائی طور پر تنہائی مسلط ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اس وقت روئے زمین پر ہمارا کوئی دوست نہیں۔ اس سے آگے کا سچ یہ ہے کہ ہم بھی کسی کے یہاں تک کے خود اپنے ہی دوست نہیں ہیں۔

کسی کو بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن حقیقت یہی ہے کہ بند گلی میں پھنسائی گئی ریاست دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اچھا یہ سب تین برسوں میں کیسے ہوگیا؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ایسا ہی ہونا تھا اور یہ اس دن ہی ہماری قسمت میں لکھا گیا تھا جب سی پیک منصوبے کی سالانہ آمدنی کی ملکیت پر جھگڑا شروع ہوا تھا۔

مزید وضاحت کے ساتھ عرض کردوں امریکیوں نے ہمیں جولائی 2017ء میں افغانستان کے حوالے سے اپنے مستقبل کے پروگرام کے حوالے سے "اشارے" دینا شروع کردیئے تھے۔ ان "اشاروں " نے ہمارے مستقبل کے حوالے س سوالات اٹھادیئے۔ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھا جاتا لیکن نہیں رکھا گیا۔ جولائی 2017ء سے یہ تحریر لکھے جانے کے درمیانی عرصہ میں جو کچھ ہوا ذرا اس پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔

اس عرصہ میں مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کی بجائے شدت پسندی کی نئی فصل بوئی گئی اس سرزمین کے کھیت پتہ نہیں کیوں محبتوں کی بجائے نفرتوں کی فصل کے لئے زرخیز ہوگئے ہیں ورنہ انڈس ویلی کی اپنی تاریخ تو صلح کُل اور انسانی دوستی کی روایات سے عبارت ہے۔

فقیر راحموں کہتے ہیں کہ "صلح کل اور انسان دوستی کو نفرت پر ہوا بٹوارہ کھاگیا۔ اب یہاں کے کھیت نفرت کی بوائی اور پیداوار کے لئے زرخیز ہیں "، آپ اپنے چار اور نگاہ دوڑاکر دیکھ لیجئے، ہر نئے دن نئی فصل نفرت کاشت ہوئی۔ تہذیبی ارتقا کی ضرورت ہی کسی نے محسوس نہیں کی۔ مسلم قومیت کی شناخت کے سیراب کے پیچھے دوڑانے والوں نے ہمارا جو حشر کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

ستم یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت اس بگاڑ کے ذمہ داروں اور نفرت کا دھندہ کرنے والوں کی محبت کی اسیر ہے۔ تحریر یہاں تک پہنچی تھی کہ سیالکوٹ کے سانحہ کی خبر ہوئی۔

جان کی امان رہے تو عرض کروں وہ دن تیزی سے بڑھتے چلے آتے کیا آگئے ہیں جب ہجوم کہیں بھی عدالت لگاکر سزائے موت سنانے کے لئے آزاد ہے اور اس جرم کے حق میں تاویلات گھڑنے والے بھی آزاد ہیں۔

سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے سری لنکن منیجر پر الزام لگایا کہ اس نے فیکٹری کی مشین پر لگا ہوا ایک سٹکر اتار کر پھینک دیا اس سٹکر پر "مقدس الفاظ" چھپے ہوئے تھے۔ عربی میں کیا لکھا تھا سری لنکن منیجر کو کیا معلوم، دوسری بات یہ ہے کہ کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر فیصلہ صادر کرنے والے ہجوم کو اُکسایا کس نے؟

اس سانحہ کو ابتدائی سطور سے ملاکر پڑھ لیجئے، معروضات کا مقصد آپ جان لیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بند گلی میں پھنسی ریاست کے 22کروڑ لوگ اس بند گلی سے کیسے نکل پائیں گے۔

حرف آخر یہ ہے کہ رعایا کو اسی لئے عوام نہیں بننے دیا جاتا کیونکہ عوام اپنے ذہن سے سوچتے اور اپنی زبان سے بولتے ہیں۔ رعایا تو ہانکے پر چلتی اور اُگلے ہوئے لفظ چپا کر بولتی ہے۔

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad