Fatwa Ilzaam Aur Gali
فتویٰ، الزام اور گالی
یادوں کی دستک جاری ہے، 63برس پورے ہونے میں لگ بھگ 55دن باقی ہیں ان گزرے ماہ و سال کا حساب سامنے ہے۔ کتاب دل کے ورق ورق پر سارا حساب لکھا ہے۔ خسارہ، نفع، خرچ کیا سب، زندگی یہی ہے۔کافی دیر سے کاغذ قلم تھامے لکھنے کو سوچ رہا ہوں۔ چند موضوعات سامنے دھرے ہیں پتہ نہیں جی آمادہ کیوں نہیں۔ شاید روزانہ تحریر نویسی کی وجہ سے اکتاہٹ ہونے لگی ہے۔ وہی باتیں، وہی سرکار، ویسی ہی اپوزیشن، وہی عمومی حالات جو اب تک کےسفر حیات میں دیکھے بھگتے۔
اکثر چار اور سے ایک آواز کانوں میں پڑتی ہے، "اس ملک کا کچھ نہیں ہونے والا، ایسے ہی حالات رہیں گے، ہم ہیں ہی اسی قابل"۔ ایک دن ایسی آواز کی طرف پلٹ کر دیکھا اچھے خاصے مہذب آدمی تھے، تیوریاں چڑھاتے ہوئے کوسے چلے جارہے تھے کلام کا انت ان الفاظ پر ہوا "ہم خدا اور رسولؐ سے دور ہوچکے، اب سزا بھگت رہے ہیں "۔ عرض کیا بندہ پرور ایک محلہ میں 4سے 6مساجد ہیں، مدارس کی بہاریں ہیں، مذہبی تنظیمیں، آئے دن قوت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ محرم، صفر اور عید میلادالنبیؐ کے تین ماہ کے علاوہ بھی سارا سال مختلف قسم کے مٓذہبی اجتماع منعقد ہوتے رہتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پانچ وقت گونجتی اذانیں، میلاد و مجالس اور دیگر مذہبی اجتماعات بھی 365دنوں میں جاری رہتے ہوں پھر کیسی دوری خدا اور رسولؐ معظم سے؟ مان لیجئے کہ مسئلہ خدا اور رسولؐ سے دوری کا نہیں بلکہ نیت کا ہے۔ نیت سے کیا مراد وہ بولے؟ عرض کیا عبادت تجارت بن جائے تو یہی ہوتا ہے۔ عبادت تجارت نہیں ہوتی بلکہ یہ تو تخلیق کا شکر ہے۔ انہوں نے مجھے ایسے دیکھا جیسے کسی پاگل کے ہتھے چڑھ گئے ہوں۔
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ آج کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے۔ مجھے سبطِ آقائے صادق محمد مصطفی کریمؐ امام حسینؑ کا کربلا میں دیا گیا ایک خطبہ یاد آرہا ہے، آپؑ فرماتے ہیں "دین کچھ لوگوں کے لئے لذت دہن ہے، خوب لذت اٹھاتے ہیں جب دین دعوت دیتا ہے کہ آواز حق بلند کرو تو یہ لوگ نظر نہیں آتے"۔ اب اس ارشاد پر غور کیجئے۔ پھر چار اور نگاہ دوڑاکر دیکھئے بالائی سطور میں جو عرض کیا آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔
فقیر راحموں نے ایک دن کہا تھا یار شاہ جی، اب چار اور کے لوگوں کو کون سمجھائے کہ آنکھوں میں خواب کاشت کرنے کی بجائے تعبیروں کے لئے جدوجہد ضروری ہے۔ بات تو درست ہے اور یہ بھی درست کہ اس ملک میں جتنی بار بھی شخصی آمریت کے خلاف پرعزم جدوجہد ہوئی اس کی منزل پر زمین زادوں کے خواب بکھر گئے۔ فقیر راحموں نے کاندھا ہلاتے ہوئے کہا، شاہ پورا سچ لکھو۔ خواب بکھرے نہیں بلکہ چوری ہوئے۔ جی ہاں چوری ہوتے ہیں خواب۔
آپ پچھلے چوہتر برسوں کی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے، ایسا نہیں لگتا کہ ہم کسی مفتوحہ ملک کے باشندے ہیں۔ آقائوں کی جب جو مرضی ہوتی ہے ویسا کھیل شروع کروادیتے ہیں۔بالادست طبقات ادھر بھی ہوتے ہیں اُدھر بھی۔ ہر حال میں خوش رہتے ہیں۔ اور نہیں تو پچھلے چالیس بیالیس سال کو ہی دیکھ لیجئے۔ ایک دن جو لوگ ایک حکومت میں ہوتے ہیں اگلے دن وہی پچھلی حکومت کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ اچھا ویسے "ہم" اسی طرح کی تاریخ کے وارث ہیں۔ کسی دن موقع ملے تو مسلم تاریخ کے اوراق الٹ لیجئے بہت دلچسپ کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔
تاریخ آپ کو بتائے گی لوگ کیسے شب بھر میں وفاداریاں تبدیل کرلیا کرتے تھے۔ یہ پڑھ چکیں گے تو آپ کو اپنے عہد کے لوگوں پر ترس آئے گا۔ شکر ہے وفاداریاں بدلتے ہیں گردنیں نہیں مارتے۔ ویسے گردنیں مارنے کا کام اب کسی اور نے سنبھال لیا ہے۔ خیر چھوڑیں کافی سنجیدہ اور بوجھل باتیں ہوگئیں۔ ایک لطیفہ سن لیجئے، دو دن اُدھر تحریر نویس کو ایک ای میل موصول ہوئی کوئی محمود اکبر صاحب ہیں۔ بہت غصہ میں تھے، اول اول تو انہوں نے لکھا "تم جیسے لوگ اس ملک پر بوجھ ہیں، یہ اچھا ملک نہیں تو چلے جائو ایران، پھر کفر کا فتویٰ اچھالااور رگیدنے لگے۔ آخر میں بولے تمہیں پپلزپارٹی باقاعدہ تنخواہ دیتی ہے اسی لئے ہر وقت فوج اور حکومت کے خلاف لکھتے رہتے ہو اس کے فوراً بعد ایک لمبی زقند بھری اور ارشاد کیا، تم جیسوں کو بھارت اور اسرائیل پالتے ہی اس لئے ہیں کہ نئی نسل کے اذہان میں کیڑے ڈالتے رہو۔
آخر میں دوچار بازاری جملے اچھالے"، محمود اکبر صاحب کی ای میل کا حساب کرنے بیٹھا تو وہ کچھ یوں تھا، ایک ہی وقت میں بھارت اور اسرائیل کا ایجنٹ ہوں، پیپلزپارٹی تنخواہ دیتی، کافر اور مشرک بھی ہوں۔ کیا بات ہے۔ چلیں بات یہاں سے شروع کرتے ہیں ہمارے بڑے بزرگ لگ بھگ ساڑھے آٹھ سو سال قبل عراق سے سمرقند بخارا گئے وہاں حالات موافق نہ تھے قافلہ پھر چلااور وادی سندھ میں اترا۔ کچھ عرصہ سکھر کے قریب قیام کیا اور پھر اوچ شریف میں آن بسے یہیں سے ان کی اولاد ہند و سندھ میں پھیلی۔
اب بزرگ جہاں سے ہجرت کرکے آئے تھے وہاں یقیناً زندگی کے دروازے ان پر تنگ تھے ورنہ شوق سے تو کوئی بھی ہجرت نہیں کرتا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ہم نسل در نسل اس سرزمین سے محبت کرتے آرہے ہیں جس نے ہمارے بزرگوں کو پناہ دی۔ اچھا فوج سے نہیں طالع آزما جرنیل شاہی سے اختلاف ہے۔ ہم ہمیشہ سے جمہوریت کے حامی رہے اور ہیں۔ اپنے شعور سے اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ہمارے ہاں دستیاب جمہوریت عوامی جمہوریت نہیں اشرافیہ کی طبقاتی جمہوریت ہے۔
اسی طرح یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہی کہ اشرافیہ کی طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے عوامی جمہوریت کے لئے راستہ نکل سکتا ہے۔ شخصی حکمرانی سے جب بھی نجات ملتی ہے طبقاتی جمہوریت جکڑ لیتی ہے۔ بھارت اور اسرائیل پالتے ہیں، کتنا دیتے ہیں حق خدمت؟ محمود اکبر صاحب نے ہمیں تو کبھی فراہم نہیں کیا خود کھاگئے اور الزام ہم پر۔
یہاں سے نکل کر ایران کیوں جائیں وہاں کون سا ہمارا چاچا ماما بستا ہے۔ ادھر ہی رہیں گے خوب لڑیں گے جب تک دم ہے خواب دیکھیں گے تعبیروں کے لئے اپنے حصہ کی جدوجہد بھی کریں گے۔ رہا پیپلزپارٹی سے تنخواہ لینا یا پیپلزپارٹی کا تنخواہ دینا، یقین کیجئے میں کافی دیر تک ہنستا رہا۔ گھر والوں نے اس دوران دو تین بار لائبریری کا دروازہ کھول کے دیکھا کہ کہیں پاگل تو نہیں ہوگئے۔سچ یہ ہے کہ فی الوقت پیپلزپارٹی کا متبادل کوئی نہیں۔ دستیاب جماعتوں میں ہمیں قدرے بہتر لگتی ہے۔ آپ کو نہیں لگتی تو یہ آپ کا حق ہے۔
یہ پیپلزپارٹی والے کسی کو کیا تنخواہ دیں گے جن کی سندھ حکومت سالانہ اربوں روپے کے اشتہارات دینے کے باوجود پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اتنی بات کے لئے لابنگ نہیں کرپائی کہ بھائی لوگو! کم از کم پورا نہیں تو آدھا سچ ہی بول لیا کرو۔
خیر کالم کے دامن میں زیادہ گنجائش نہیں اگر محمود اکبر کے پاس پی پی پی سے ہمارے لین دین کا کوئی ثبوت ہو تو ہمیں بھی بھجوادیں نہ صرف شکر گزار ہوں گے بلکہ اگر کسی طرح وصولی ممکن ہوئی تو 20فیصد ان کا حصہ پکا۔ آخری بات یہی ہے کہ ہمارے یہاں الزام اور فتویٰ کھٹ سے اچھالے جاتے ہیں۔ کیا کریں ہماری، (ہم سے مراد مسلم تاریخ ہے)، ساری تاریخ ہی ایسے قصوں، کہانیوں اور فتوئوں سے بھری پڑی ہے۔