Ehle Danish O Siasat Ki Zimmedari
اہلِ دانش و سیاست اور مذہب کی ذمہ داری
تحمل بردباری اور شائستہ کلامی سے محروم مروجہ سیاست سے پیدا ہوئی تقسیم کسی سے مخفی نہیں۔ اس صورتحال کی ذمہ داری سیاستدان ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ سب نے حصہ بقدرے جثہ ڈالنے میں تکلف سے کام نہیں لیا۔ سیاسی عمل سے وضعداری ختم ہونے کے مختلف اسباب ہیں ایک سبب بہرطور یہ ہے کہ ماضی میں طاقتور حلقوں نے ایسے میڈیا سیل بنوائے جو سیاستدانوں کی کردار کشی میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔
بعض سرگرم سیاسی رہنمائوں کو بھی اپنی زبان پر قابو نہیں جو ان کے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے معاشرتی اور سیاسی نتائج کیا ہوں گے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی سیاست کا خمیر اسی سے گندھا ہواہے عمران خان کی سیاست کے 2011ء میں ہوئے نشاط ثانیہ کے بعد سیاست میں اوئے توئے گالم گلوچ کو رواج ہوا اور یہ کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر موجود ہمدرد مخالفین اور خصوصاً خواتین بارے جو زبان استعمال کرتے ہیں اس طرح کی زبان ماضی میں استعمال نہیں ہوئی۔
اس رائے میں وزن ضرور ہے لیکن اسے سوفیصد درست قرار دے کر ملبہ تحریک انصاف پر ڈال دینا درست نہیں ہوگا۔ سیاستدانوں کی ایک دوسرے پر فقرے چُست کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے البتہ دشنام طرازی و کردار کشی کو منظم انداز میں رواج 1988ء کے عام انتخابات کے عرصہ میں ملا۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں قائم ہونے والے اسلامی جمہوری اتحاد کے میڈیا سیل نے پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کیلئے محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ محترمہ بیگم نصرت بھٹو کے خلاف طوفان بدتمیزی کو سیاسی پروپیگنڈے کے طور پر آگے بڑھایا اس کے نتیجہ میں ایک دہائی سے کچھ اوپر کے عرصہ میں سیاسی بدامنی اور گلی کوچوں میں عدم برداشت کے ایسے ایسے مظاہرے دیکھنے میں آئے جو ہماری سیاسی تاریخ کا شرمناک حصہ ہیں۔
حالیہ عرصہ میں سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے ہمدردوں اور مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کے درمیان جاری دشنام طرازی کے مقابلہ پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کی گوشمالی کی بجائے ان کا حوصلہ بڑھاتے دیکھائی دیتے ہیں۔
سیاسی مخالفین کے لئے سوقیانہ جملہ بازی میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کبھی بھی پیچھے نہیں رہے۔ 1988ء کی اسمبلی میں محترمہ بینظیر بھٹو کے لئے غیراخلاقی جملے بازی سے ہی انہوں نے نوازشریف کی قربت حاصل کی تھی۔ اپنی ذومعنی گفتگو کے سبب ہی آج وہ ہمارے میڈیا کی ڈارلنگ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر دشنام طرازی اور کردار کشی کے پروپیگنڈے کی میڈیا کے بڑے حصے نے حوصلہ شکنی کی ہوتی تو یہ رویہ پروان نہ چڑھ پاتا۔
کمرشل ازم اور ریٹنگ میں سبقت لے جانے کے چکروں میں میڈیا نے سماجی اخلاقیات اور اقدار کے قتل عام میں اپناحصہ ڈالا نتیجہ 22کروڑ شہری بھگت رہے ہیں۔ ہماری دانست میں ملک کی سیاسی جماعتوں، سیاسی عمل میں شریک مذہبی جماعتوں کے ساتھ میڈیا کو ازسر اس امر پر غور کرناہوگا کہ زبان درازی کی حوصلہ افزائی سے ملک، سماج اور اقدار کی کوئی خدمت ہوئی یا بگاڑ کے بڑھنے سے عدم برداشت کا دوردورہ ہوا؟
کچھ اسی طرح کا معاملہ جھوٹے الزامات کا ہے۔ ثبوت کے بغیر ایسے الزامات عائد کرنا جس سے دوسرے شخص کی جان اور مال کے لئے خطرات پیدا ہوں ہمارے ہاں اب مقبول چلن بن چکا۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اہل دانش نے سیاسی و سماجی اخلاقیات کا جنازہ اٹھتے دیکھ کر بھی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتی حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اہل دانش مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی و سماجی اخلاقیات کی تباہی کا باعث بننے والے رویوں کی مذمت کرتے۔
بعض اہل دانش کی اس معاملے میں رائے یہ ہے کہ جس طرح شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف فکری شعور کا مظاہرہ کرنے والی بعض شخصیات ماضی میں د ہشت گردی کا رزق بن گئیں اسی طرح سماجی و سیاسی اخلاقیات کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرنے والوں کو مختلف الخیال سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ہمدردوں کی دشنام طرازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بسا اوقات سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ہمدردان سوشل میڈیا پر ان کے اہل خانہ کے لئے زہریلے جملے اچھالتے ہیں۔
خواتین صحافیوں کو تحریک انصاف کے حامیوں کے جس ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اس کے پیش نظر خامشی لازم ہے۔ اس سوچ کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہمارے چار اور جو ہورہا ہے اسے ہونے دیا جائے۔
بنیادی سوال بہرطور یہی ہے کہ سیاسی و سماجی اخلاقیات کے حوالے سے زوال پذیر ملک میں ان خرابیوں کے خلاف آواز بالکل نہیں اٹھانی چاہیے یا پھر ہر صاحب فہم کو اپنے حصہ کی آواز بلند کرنی چاہئے؟
یہ امر دو چند ہے کہ گو معاملات خاصے بگڑچکے ہیں اس کے باوجود اصلاح احوال کے لئے آواز بلند کرنی چاہیے۔ ملک کی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو مل بیٹھ کر زوال پٓذیر سیاسی و سماجی اخلاقیات کے ذمہ داروں کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرنا ہوگی بلکہ میثاق جمہوریت کے طرز پر "میثاق اخلاقیات" پر متفق ہونا ہوگا۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذمہ داران کو پہلے آپ پہلے آپ کے جھنجٹ میں پڑنے کی بجائے رہنمائی کا حقیقی حق ادا کرنا چاہیے۔ یہ تجویز بھی قابل عمل ہے کہ سیاسی و سماجی اخلاقیات کو بطور مضمون تعلیمی نصاب میں شامل کیاجائے تاکہ نئی نسل کی درست طریقہ سے تربیت کی جاسکے۔ اسی طرح سیاسی و مذہبی جماعتیں داخلی احتساب کو بہرصورت یقینی بنائیں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، میڈیا مینجمنٹ کی بجائے اعلیٰ صحافتی اقدار کی پاسداری کو ترجیح دے اور ریٹنگ کے حصول کے لئے بگاڑ میں حصہ نہ ڈالے۔ اس ملک کے ہر خاص و عام کو یہ بات بطور خاص سمجھنا ہوگی کہ تحمل و تدبر کے مظاہرے اور سیاسی و سماجی اخلاقیات کی پاسداری کے بغیر مذہب، جمہوری معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا۔
فی الوقت دو اہم مسئلے ہیں اولاً سیاسی و سماجی اخلاقیات کے منافی زبان دانی کی سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی اور ثانیاً سیاسی مخالفین پر بنا ثبوت کے الزام تراشی کی مذمت۔ اسی طرح مذہبی حلقوں کو تکفیر اور فتویٰ بازی کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔
یہ امر مسلمہ ہے کہ موجودہ بگاڑ کی ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے رہنے سے کوئی بھی اپنے حصے کی بوئی بربادیوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتیں حکومت اور عوام سبھی کامل اتفاق رائے سے منفی رویوں، دشنام طرازی اور کردار کشی کرنے والوں کا محاسبہ کریں اس ضمن میں اگر خوداحتسابی کے عمل کو فروغ دیا جائے تو مثبت نتائج کم سے کم وقت میں حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتیں ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں گی۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی ازبس ضروری ہے کہ جھوٹے الزامات، دشنام طرازی اور کردار کشی کو مروجہ سیاست کی اٹھان سمجھنے والے غلطی پر ہیں۔
تلوار کے گھائو بھر جاتے ہیں مگر زبان کے لگائے گھائو نہیں بھرتے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ انسانی تاریخ کے سب سے اعلیٰ و ارفع دین اور اخلاقی و سماجی روایات کی وراثت کے دعویداروں کی زبانوں سے ہر وقت "پھول جھڑتے" ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف انتہائی تکلیف دہ ہے بلکہ اس امر کی متقاضی بھی کہ ہر شخص اپنی اپنی بساط کے مطابق اصلاح احوال کے عمل میں حصہ ڈالے تاکہ حقیقی معنوں میں سیاسی و سماجی اخلاقیات پر عمل سے ایک مثالی معاشرہ اور نظام تشکیل دیا جاسکے۔