Dukh Apne Apne
"ڈُکھ" اپنے اپنے
منی بجٹ ابھی پارلیمان میں پیش ہوا ہے۔ منظوری کے راستے میں کوئی پارلیمانی و غیرپارلیمانی رکاوٹ بظاہر کیا حقیقت میں بھی نہیں ہے۔ 170ارب روپے کے ٹیکس ہی نہیں ہیں فقط۔ دو تین دن قبل تفصیل کے ساتھ عرض کردیا تھا کہ حکومت کتنے ارب کھرب ہم اور آپ سے وصول کرے گی۔
شکوہ صرف یہ ہے کہ پی ڈی ایم اور اتحادیوں نے عوام کو نچوڑنے کا فیصلہ تو کرلیا لیکن عوام کے مال پر عیاشی کرنے اور مراعات سے گلچھڑے اڑانے والوں کو کچھ کہا نہ "انہیں" ٹیکس کے دائرے میں لاپائے جو اس جھنجال سے آزاد ہیں۔
معاف کیجئے گا میں اتنا بہادر آدمی نہیں ہوں کہ صاف صاف لکھ دوں کہ فلاں محکمے کا کاروبار ٹیکسوں سے آزاد ہے۔ کم از کم میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں 1970ء کی دہائی میں ہی یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ یہ ملک صرف دو طبقات کا ہے اولاً سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا اور ثانیاً اس کے ساجھے داروں کا۔ ساجھے داروں میں مختلف طبقات شامل ہیں۔ پیر، میر، سردار، چوہدری، مخدوم، خان، سرمایہ دار، مولوی وغیرہ وغیرہ۔
ان ساجھے داروں کو نوازنے کے موسم ہوتے ہیں۔ کس کا موسم کب ہوگا فیصلہ ہم اور آپ نہیں کرتے۔ جنہیں فیصلہ کرنے کے حق کو استعمال کرنے کی غلط فہمی تھی ان کی طبعیت بھی اب قدرے بہتر ہے۔
منی بجٹ کی تشریف آوری کے ساتھ مہنگائی کے سیلاب بلا کے طوفانی تھپیڑوں نے خاص و عام کو بدحال کردیا ہے۔ بساط مطابق ہر بندہ رورہا ہے۔ ہر شخص کے پاس مہنگائی اور مسائل کی کہانی ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہانی گھر گھر کی ایک ہی ہے بس بیان کرنے کے انداز مختلف ہیں۔
فقیر راحموں ڈن ہل کی قیمت راتوں رات 55روپے بڑھنے سے ناراض ہے۔ سگریٹوں کے پاکستان برانڈز استعمال کرنے والے بہت سارے دوست سراپا احتجاج ہیں۔ بجٹ ابھی منظور نہیں ہوا اور مقامی برانڈز کے سگریٹوں کی قیمت 100فیصد بڑھادی گئی۔
گزشتہ سپہر ایک عزیز کے میڈیکل سٹور پر بیٹھا تھا وہ کہنے لگے چچا ادویات کےفلاں سٹاکسٹ کے پاس لگ بھگ 5 سے 7 کروڑ روپے کی ادویات کا سٹاک ہوتا ہے حالیہ عرصہ میں ادویات کی قیمتیں بڑھنے سے اسے 20 سے 25کروڑ روپے گھر بیٹھے مل گئے۔ بڑے سٹاکسٹوں اور فیکٹری مالکان نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھولئے۔
تکلیف میں ایک عام شہری ہے۔ ادویات مہنگی ہونے سے 60فیصد سیل کم ہوگئی ہے۔ میں اپنے اس عزیز کے پاس اکثر جاتا ہوں۔ ہمیشہ 20سے 25منٹ ان کے سٹور پر رکتا ہوں۔ پہلے اس کےسیل مینوں کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی تھی لیکن گزشتہ روز نصف گھنٹے میں صرف سات صارف آئے۔ 6نے ادویات خریدیں اور ایک صارف کو کسی اور چیز کی ضرورت تھی۔
ہمارے چار اور یہی صورتحال ہے۔ قوت خرید نہ ہو تو صارف خریداری کیسے کرے۔ کھانے پینے کی اشیاء والی دکانوں پر رش معمول کے مطابق ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں کے پاس پیسہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی خریداری زندہ رہنے کی مجبوری ہے۔
ایک سٹور کے مالک دوست بتارہے تھے سیل تقریباً گزشتہ مہینوں جتنی ہے اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے البتہ طلب میں کمی ہوئی ہے۔ مثلاً اگر پہلے ہر ماہ مختلف اقسام کی دالیں 10من فروخت ہوتی تھیں تو اب ان کی فروخت 4سے 5من پر آگئی ہیں۔ قیمتیں بڑھ جانے سے سیل بظاہر وہی ہے مگر طلب میں تو کمی ہوئی۔
کچھ دیر قبل ہمارے دوست رائو عابد ہمراہ تھے۔ مہنگائی کا ذکر بھی ہوا اور خوب ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آج روایتی انداز میں ہنڈا سیوک کی بجائے سوزوکی مہران پر تھے۔ کہنے لگے اس ساری صورتحال میں مڈل کلاس دم توڑ گئی۔ عرض کیا میں تو ایک طویل عرصہ سے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں معروف معنوں میں جسے مڈل کلاس سمجھا جاتا ہے وہ اصل میں لوئر مڈل کلاس ہے۔
مہنگائی نے اس لوئر مڈل کلاس کی درگت بنادی ہے۔ وہ مڈل کلاس والے بھی رو رہے ہیں۔ صبح سید زوہیب حسن بخاری کی قیام گاہ پر رانا شرافت علی ناصر نے جنوری 2023ء کے ایک ماہ میں ملک میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ تفصیل حیران کن تھی ایک کروڑ اور زائد قیمت کی 400گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ لوئر مڈل کلاس کا بھرم رکھنے والی چھوٹی گاڑیاں اس کا چوتھائی بھی نہیں تھیں۔
ایک طرح سے اصل مڈل کلاس اور بالائی طبقات کا بھرم قائم ہے اور "شوشا" بھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے چند برس قبل باتوں باتوں میں میں نے اپنی بیٹی فاطمہ حیدر کو بتایا کہ کسی زمانے میں ملتان سے لاہور کا کرایہ 5روپے ہوتا تھا۔ اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ بولی، باباجانی پانچ روپے کی تو چاکلیٹ نہیں ملتی۔ اسی ملتان کا لاہور سے اب کم از کم کرایہ 1800روپے ہے۔
روپے کی قدر میں کمی کا حساب ہمیں کوئی حساب دان (اسحق ڈار نہیں) ہی سمجھاسکتا ہے۔ آبادی کا دبائو مہنگائی کی ایک وجہ ہوسکتا ہے۔ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ایک اور شونق ہے۔ میں آبادی کے بے ہنگم پھیلائو کو بڑی وجہ سمجھتا ہوں۔
ایک آدمی کے وسائل پر چار آدمی پلیں گے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ منی بجٹ کی منظوری سے قبل چیزوں کی قیمتیں بڑھاکر اربوں روپے جیب میں ڈال لینے والے سرمایہ داروں، بڑے اور چھوٹے سٹاکسٹوں سے کوئی پوچھ پائے گا۔
ابھی تو ایف بی آر نے ٹیکسوں کے نفاذ کا نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں کیا پھر مختلف چیزیں بنانے والی کمپنیوں نے کیسے قیمتوں میں اضافے کا نیا نرخ نامہ جاری کردیا؟ سچی بات یہ ہے کہ کبھی کسی سے کوئی جواب طلبی نہیں ہوئی نہ ہوگی۔ "کمائی کے حمام میں سب ایک جیسے ہیں"۔
170ارب روپے کے ٹیکس بتانے والوں نے بھی تو رواں مالی سال کے باقی ماندہ عرصہ میں ساڑھے چار سو ارب روپے وصول کرنے ہیں۔ یعنی دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا والا معاملہ ہے باقی کی ساڑھے تین سو ارب کی رقم رواں برس دسمبر تک وصول کرنی ہے۔
اگلے بجٹ میں مزید بوجھ پڑے گا۔ کھال ہماری آپ کی اترے گی۔ مفت خوروں کے پھر مزے ہی رہیں گے۔ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ ڈیفنس بجٹ میں کمی کیوں نہیں کی گئی۔ ڈیفنس پنشن کو سول بجٹ سے واپس ڈیفنس بجٹ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا۔
کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ فوجی فائونڈیشن کے ادارے کتنا سالانہ ٹیکس دیتے ہیں۔ ڈی ایچ اے نامی کالونیوں سے سالانہ کتنا ٹیکس وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملتا ہے؟ ہم نہیں پوچھ سکتے، کیوں؟
ہم اور آپ دونوں یہ حقیقت بخوبی جانتے ہیں بدقسمتی کہہ لیجئے مہنگائی مزید بڑھے گی۔ وفاقی وزیر خزانہ ان دنوں صبروشکر کے کلمات والی پوسٹیں اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر عوام کے استفادے کے لئے لگارہے ہیں۔
فقیر راحموں کہتا ہے یہ صبروشکر کے کلمات ڈار صاحب کو تیس سال پہلے اپنے لئے یاد کیوں نہ آئے؟ اب اسے کون سمجھائے کہ یہ مقدس کلمات ہیں ہی مفلوک الحال طبقات کے لئے۔
چلیں چھوڑیں بہت سنجیدہ باتیں ہوگئیں۔ ان کافائدہ بھی کوئی نہیں۔ "ڈکھ" اپنے اپنے ہیں۔ فقیر راحموں کہتا ہے پیپلزپارٹی کے دور میں ڈن ہل کا پیکٹ 80روپے کا تھا (ن) لیگ کے دور میں 140 روپے، آخری دنوں میں 160روپے کا۔ تبدیلی سرکار میں اس کی قیمت 400تک گئی پھر واپس 350روپے پر آئی۔ گزشتہ شام 450 روپے تھی۔ ڈیڑھ ماہ کے دوران 70روپے قیمت بڑھی ہے۔
ڈن ہل اور کتابوں کی قیمت بڑھنے سے فقیر راحموں بہت پریشان ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ نام نہاد سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ہماری نسل نے اپنے بچپن میں سوا روپے اور ایک روپے بارہ آنے کا چھوٹا گوشت خریدا کھایا۔ آج کل یہ گھر کے قریب کی مارکیٹ میں 19سو روپے کلو ہے جبکہ بڑا گوشت 9سو روپے کلو۔
عمران خان کے دور میں مہنگائی کا 20 سالہ ریکارڈ ٹوٹا تھا تجربہ کاروں کے دور میں نصف صدی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ ہمارے انصافی دوست عمران خان کے دور میں کہا کرتے تھے "کوئی پروا نہیں پٹرول 500 روپے لٹر ہوجائے خان بس چوروں کو نہ چھوڑے۔ آجکل فقیر راحموں اپنے انصافی دوستوں کو تنگ کرنے کے لئے کہتا ہے پٹرول چاہے ایک ہزار روپے لٹر ہوجائے بس خان کو نہیں چھوڑنا"۔
اس کے انصافی دوست چیں بچیں ہوتے ہیں۔ یار دلپشوری کیجے ناراضگی کیوں۔
یقین کریں ڈن ہل کی قیمت بڑھنے سے دل سے آہ بھی نکلی اور صدائے احتجاج بھی بلند کی لیکن کیا کیجئے کچھ نہیں کرسکتے ماسوائے رونے دھونے کڑھنے کے۔
مکرر عرض ہے وفاقی حکومت نے مفت خوروں پر کتنے ٹیکس لگائے۔ نہیں لگائے تو کیوں نہیں۔ آئی ایم ایف نے دیگر شرائط کے ساتھ دفاعی بجٹ کم کرنے کو بھی کہا تھا اس سے صرف نظر کی وجہ؟
فقیر راحموں جو وجہ بتاتا ہے وہ یہاں نہیں لکھی جاسکتی۔ لکھ بھی دیں تو جو حالات ہیں ان میں نجم سیٹھی کی طرح پوسٹ ڈیلیٹ نہ کرنی پڑجائے۔
حرف آخر یہ ہے کہ تحریک انصاف نے جیل بھرو تحریک کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے۔ 22فروری کو لاہور میں 23کو پشاور، 24 کو راولپنڈی، 25کو ملتان، اور 26کو گوجرانوالہ میں گرفتاریاں پیش کی جائیں گی۔
ہمارے مخدوم ملتانی پیر شاہ محمود قریشی آف دولت گیٹ ملتان 25فروری کو ملتان میں گرفتاری پیش کریں گے۔ 22 فروری سے یکم مارچ تک روزانہ 200 افراد گرفتاریاں پیش کیا کریں گے۔ عمران خان کب اور کہاں گرفتاری دیں گے یہ شیڈول میں نہیں لکھا باقی کی کہانی ہماری طرح آپ بھی جانتے ہیں۔