Cypher Drame Ki Nayi Qist
سائفر ڈرامے کی نئی قسط
سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں دیئے گئے دفعہ 164/161 کے بیان میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نے عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے کے لئے سائفر کو بیرونی سازش کا رنگ دیا۔ قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت بھرا بیانیہ بنایا۔ سابق وزیراعظم نے مجھ سے سائفر 9مارچ کولیا اور پھر کہا کہ گم ہوگیا ہے۔ اعظم خان کے اعترافی بیان میں اور بھی بہت کچھ ہے۔
البتہ عمران خان نے گزشتہ روز ہی صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا "اعظم خان ایک ایماندار آدمی ہے میں جب تک خود اس کے منہ سے نہ سن لوں کسی بیان پر یقین نہیں کروں گا"۔
سائفر ڈرامہ کے وقت ان کالموں میں عرض کرچکا کہ عمران خان سائفر کی آڑ میں مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ آئینی طریقہ سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کی بجائے بیرونی سازش کا ڈھونگ رچاکر اپنے حامیوں میں زہر بھر رہے ہیں۔ بہرطور فی الوقت یہی عرض کرسکتا ہوں کہ سائفر فراڈ ڈرامے کے باوجود اعظم خان سے 164/161 کا بیان دلوانے والے اس سے کچھ "حاصل" کرلیں گے مگر حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا۔
اس ضمن میں تین باتیں اہم ہیں سائفر کے حوالے سے آڈیو لیک میں موجود گفتگو اس فراڈ کو سمجھنے میں بہت زیادہ مدد فراہم کرتی ہے۔ آزادانہ تحقیقات عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چودھری اور بابر اعوان کے گلے پڑسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو روز قبل لاہور ہائیکورٹ نے سائفر تحقیقات پر جو حکم امتناعی واپس لیاہے یہ حکم امتناعی سائفر فراڈ کے منصوبہ ساز عمران خان کی درخواست پر جاری کیا گیا تھا۔
اعظم خان کئی دنوں سے لاپتہ تھے ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر تھانہ کوہسار اسلام آباد میں درج تھی جو گزشتہ روز ان کے منظرعام پر آنے کے بعد خارج کردی گئی۔
اعظم خان کے 164/161 کے بیان کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ حدیبیہ پیپر کیس میں اسحق ڈار کے 164والے بیان پر سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ کے احکامات ریکارڈ پر ہیں۔ اسحق ڈار والے بیان حلفی پر جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق بیان چونکہ ملزم پارٹی کی غیرموجودگی میں لیا گیا جرح کا حق نہیں ملا اس لئے اس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
اعظم خان والے بیان حلفی کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ گو بعض قانون دان یہ کہہ رہے ہیں کہ 164/161 کے بیان کی قانونی اہمیت ہے لیکن یہی قانون دان اسحق ڈار کے بیان حلفی پر خاموش تھے یا ان کی رائے قاضی فائز عیسیٰ جیسی رہی۔ اسلام آباد پولیس عدالت میں اعظم خان کی گمشدگی کا اعتراف کرچکی۔
اب کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں مقیم تھے۔ مرضی سے ہی سامنے آئے اور مجسٹریٹ کی عدالت میں بیان حلفی دیا۔ حکومت اور اس کے ہمنوا بھلے ہی اس بیان حلفی پر آسمان سر پر اٹھالیں مگر جس طریقہ سے وہ غائب و ظاہر ہوئے اور بیان دیا اس میں اتنے جھول ہیں کہ معمولی سی شدھ بدھ رکھنے والا شخص بھی حکومتی موقف کو مشکل ہی تسلیم کرے گا۔
کیا عمران خان کی گرفتاری جیسے منصوبے کے جال میں پھنسنے والے ایک بار پھر جھانسے میں آگئے ہیں؟ کم از کم میری رائے یہی ہے کہ حکومت کے ساتھ پھر ہاتھ ہوگیا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جو فیصلہ سال بھر پہلے ہوجانا چاہیے تھا اس میں مسلسل تاخیر کے بعد اب جو راستہ اپنایا جارہا ہے اس سے حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا۔
حدیبیہ پیپر کیس میں اسحق ڈار کے بیان حلفی پر فیصلہ ایک نظیر کی صورت میں موجود ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ ایف آئی اے نے عمران خان، شاہ محمود قریشی اوراسد عمر کو مختلف تاریخوں میں تفتیش کے لئے طلب کرلیا ہے۔ پی ٹی آئی اعظم خان کے بیان کو تضادات کا مجموعہ قرار دے چکی ہے۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ گمشدہ سائفر کی برآمدگی کے لئے عمران خان کی گرفتاری لازمی ہے۔
وزارت خارجہ کے مطابق سائفر کی ماسوائے عمران خان والی کاپی کے باقی کاپیاں واپس مل گئی تھیں لیکن جعلسازی سے رکن قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کے حکم امتناعی سے ڈپٹی سپیکر رہنے والے قاسم سوری کہتے ہیں میں نے بطور قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی سائفر کی ایک سیل شدہ کاپی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھجوائی تھی۔
عمران خان کی کچن کابینہ کے ایک سابق رکن فیصل واوڈا اس حوالے سے کچھ اور کہانی سنارہے ہیں۔ انہیں کہانیاں کون لکھ کر دے رہا ہے یہ زیادہ اہم سوال ہرگز نہیں اصل سوال یہ ہے کہ اعظم خان کی پراسرار گمشدگی پھر منظر عام پر آنا اور مجسٹریٹ کی عدالت میں 164/161 کا بیان دینا یہ سب کیا ہے کیسے لوگوں کو مطمئن کیا جائے گا۔
لوگوں کو چھوڑیں 164 کے تحت اسحق ڈار کے بیان پر فائز عیسیٰ کے احکامات کا کیا ہوگا؟
عمران خان نے یوٹیوب چینل چلانے کے کامیاب تجربے کے بعد اپنا ٹک ٹاک اکائونٹ بنالیا ہے۔ معجزہ یہ ہوا کہ ان کے لگ بھگ 4 ملین فالوورز بھی ہوگئے ہیں ان کے ایک سابق کار خاص فرحان ورک کہتے ہیں ہیرا پھیری سے وہ اس میدان میں بھی باز نہیں آئے۔ ادھرعمران خان گزشتہ روز اسلام آباد کی ایک عدالت میں جج کو دی گئی دھمکی کے کیس میں معافی مانگتے ہوئے پائے گئے۔ البتہ معافی کے لئے جو الفاظ انہوں نے استعمال کئے قانونی حلقے ان الفاظ کو غیرمشروط معافی کے برعکس کہہ رہے ہیں
ان کا کہنا تھا "اگر میں نے لائن کراس کی ہے تو میں معافی چاہتا ہوں"۔
قانون دانوں کے مطابق "اگر" کے استعمال نے معافی کو مشروط کردیا جبکہ غیرمشروط معافی مانگی جانا چاہیے تھی۔
بہرحال عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہیے۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ سے روابط اور بات چیت میں ناکامی کے بعد پرویز خٹک نے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے نام سے اپنی جماعت بنالی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ کے پی کے محمود خان بھی ان کی جماعت کا حصہ ہیں انصافی آج کل پارٹی چھوڑنے والوں کو گندگی قرار دے رہے ہیں جب یہ کوڑا کرکٹ جمع کیا جارہا تھا تو انصافی کیا کہا کرتے تھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ سوال اہم ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کے بعد پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کیا کرلے گی؟
اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی جماعتوں کی دشمنی میں جو لشکر پالے تھے وہ خاندانوں سمیت عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں خود آرمڈ فورسز کے سابق ملازمین کے خاندانوں کی بڑی تعداد اب بھی عمران خان کے لئے پرجوش و سرگرم عمل ہے۔ پچھلے سال اپریل تک مسلح افواج کو محافظ، نجات دہندہ، رہبر سمیت سب کچھ سمجھنے والے بھی اب عمران کے حامی ہیں اور سابق مربیوں و ان داتاوں کیلئے جو کہتے ہیں وہ " دلچسپ ہے "
مقدمات، پابندیوں اور دوسرے معاملات کے باوجود عمران بطور چیلنج موجود ہے۔ آئی پی پی اور پی ٹی آئی پی موثر انتخابی حثیت حاصل کرپائیں گی؟
دعوے اور تجزیے جو مرضی ہوں زمینی حقائق مختلف ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ آئی پی پی والے کہتے ہیں ہمیں اقتدار ملا تو مزدور کی تنخواہ 50ہزار روپے ہوگی اور 300یونٹ بجلی مفت، صدقے جائوں منشور لکھنے والے پر کیا لمبی چھوڑی ہے لگتا ہے ابھی تک عمران خان کا اثر موجود ہے۔
اس قدر لمبی چھوڑنے سے قبل اگر آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط پر ایک نگاہ ڈال لی جاتی تو مناسب ہوتا۔ ادھر وزیراعظم نے اس بات کی تردید کردی ہے کہ انتخابات پرانی مردم شماری پر کرانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اچھا تو پھر نئی مردم شماری کا نوٹیفکیشن اب تک جاری کیوں نہیں ہوا اور حلقہ بندیاں کیوں شروع نہیں ہوئیں؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب بھی وزیراعظم کو ہی دینا چاہیے۔