Cholistan Mein Badarbant
چولستان میں بندربانٹ
دو رکنی قافلہ (تحریر نویس اور عابد راو صاحب) سیدی و مولائی حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ کی خانقاہ پر حاضری دے کر اوچ شریف سے احمد پور شرقیہ کے لئے روانہ ہوا۔ احمد پور شرقیہ سے تعارف کا پہلا حوالہ ہمارے ماموں زاد بھائی سید منور حسین شاہ مرحوم تھے۔
اس شہر میں دوست و مہربان بہت ہیں ان میں سے کچھ دوست تلاش رزق کے لئے عشروں قبل احمد پور شرقیہ سے نکلے اور پھر جس شہر پہنچے وہاں صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ جناب حفیظ خان، سعید خاور، عبدالباسط بھٹی اور دیگر دوست بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
جواں جذبوں کے شاعر مرحوم انجم لشاری کا تعلق احمد پور شرقیہ کے پہلو میں آباد ڈیرہ نواب صاحب سے تھا۔
چند برس ہوتے ہیں ہمارے ایک مہربان دوست افضل مسعود ایڈووکیٹ دنیا سرائے سے پڑائو اٹھاکر رخصت ہوگئے۔ افضل مسعود ہمارے ابتدائی دوستوں میں سے تھے۔ ترقی پسند سوچ کے حامل بہت ہی نفیس شخصیت اپنی مثال آپ تھے۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
سید محمدعلی رضا کاظمی مسلسل فون پر دریافت کررہے تھے کہ اب کہاں پہنچے؟ لیجئے بالآخر تحصل کچہری احمد پور شرقیہ پہنچ ہی گئے جہاں ہمارے مہربان دوست اور سرائیکی پارٹی کے سیکرٹری جنرل سئیں اکبر انصاری ایڈووکیٹ کے ہمراہ ہمارے لاڈلے "ڈپٹی قائد" سرائیکی وسیب اعجاز الرحمن اور معروف شاعر و دانشور شاہد عالم شاہد منتظر تھے۔
عزیزم علی رضا کاظمی اور اعجاز الرحمن کے ہمراہ دونوں مسافر انصاری صاحب کے چیمبر میں پہنچے تو مقامی اخبار نویسوں کے ایک گروپ کو بھی منتظر پایا۔ سئیں اکبر انصاری کے چیمبر میں پرتکلف چائے کے ساتھ بے تکلف گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو بتایا گیا کہ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھیوں کو اس لئے مدعو کیا گیا ہے کہ عصری سیاسی صورتحال کے ساتھ سرائیکی قومی تحریک کے علاوہ چولستان میں جاری زمینوں کی لوٹ مار پر بات کرنا ہے۔
سرائیکی پارٹی کے سیکرٹری جنرل اکبر انصاری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ فیڈریشن میں صوبے کے طور پر آئینی شناخت و حیثیت کے لئے قوم پرستوں کو متحد ہوکر جدوجہد کرنی چاہیے اسی طرح چولستان میں جاری اراضی کی قبضہ گیر مہم سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے بھی وسیب کے بڑے شہروں کے علاوہ لاہور اسلام آباد اور کراچی میں سیمینار منعقد کئے جائیں۔
انہوں نے سرائیکی تحریک کی نصف صدی پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی اور صوبے کے قیام کے خلاف مختلف قوتوں کی سازشوں اور ان کے ماضی کا بھی ذکر کیا۔
اس موقع پر ہم نے عرض کیا کہ سرائیکی تحریک میں شامل جماعتوں کو اولاً تو اپنی اب تک کی جدوجہد کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے ثانیاً خود احتسابی بھی ضرورت ہے۔ قوم پرستوں کا اتحاد بہت ضروری ہے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی عرض کیا کہ قوم پرستوں کو شعوری طور پر سمجھنا ہوگا کہ قوم پرستی کی تحریک ترقی پسند شعور سے عبارت ہوتی ہے رجعت پسندی سے ہرگز نہیں۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے حق میں کئے گئے بعض مظاہروں سے سرائیکی قومی تحریک کا چہرہ متاثر ہوا ہے۔
یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ قومی تحریک طبقاتی تحریک نہیں ہوتی بلکہ اس میں وسیب کے تمام طبقات کی شعوری طور پر شمولیت بہت ضروری ہے اس کے لئے سرائیکی قوم پرستوں کو ہمسایہ اقوام کی قوم پرست سیاست کا جائزہ لے کر اپنی ناکامیوں کا تجزیہ کرنا ہوگا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ سرائیکی قوم پرست جماعتیں وسیب کی ہمسایہ اقوام سے مکالمے سے قبل خود وسیب کے اندر موجود دوسری نسلی و لسانی اکائیوں سے مشترکہ جدوجہد کے لئے مکالمہ اٹھائیں اس تاثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے کہ سرائیکی صوبہ بن جانے کی صورت میں غیرسرائیکی اکائیوں کے لئے وسیب کے دامن میں گنجائش نہیں رہے گی۔
یہ تاثر اس طور دور ہوگا کہ ان کے اہل دانش اور سیاسی فہم رکھنے والے حضرات سے مل بیٹھ کر بات چیت کی جائے۔ اپنے مسائل اور مقاصد ان کے سانے رکھے جائیں ان کی شکایات اور مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ وسیع تر اعتماد سازی صوبے کے قیام کی جدوجہد میں معاون بن سکتی ہے۔
اسی طرح وفاقی سیاست کرنے والی ان جماعتوں سے جو سرائیکی صوبے کے حوالے سے حقیقت پسندانہ رویہ اپناتی ہیں مشترکات پر بات چیت کے ذریعے اعتماد سازی ضروری ہے۔ چولستان میں اراضی کی حالیہ بندربانٹ پر عرض کیا کہ "ہم ایسے وسیب زادے طویل عرصے سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ غیرمقامیوں کو چولستان کی اراضی دینا مقامی آبادی پر فقط ظلم ہی نہیں بلکہ انہیں ان کے پرکھوں کی دھرتی سے نکالنے کی سازش ہے"۔
اراضی کی اندھادھند الاٹمنٹ غیرمقامی افراد کو ہو یا زرعی مقاصد کے لئے فوج کو، ہر دو سے جس طرح مقامی لینڈ سکیپ متاثر ہوا اس کا مداوا ممکن نہیں۔ ماحولیات کو تباہ کئے بغیر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے بے وسائل مقامی آبادی اپنے قدموں پر کھڑی ہو اور اس کا معیار زندگی بہتر ہوسکے۔
ہمیں اس خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ماحولیات و مقامیت دشمن اقدامات سے مقامی آبادی اگلے چند عشروں میں ریڈ انڈین بن جائے گی۔
یہ بھی عرض کیا کہ سرائیکی قوم پرست تو طویل عرصہ سے جولائی 1977ء کے بعد سرائیکی وسیب میں غیرمقامی افراد اور سول و ملٹری بیوروکریسی کے چھوٹے بڑے کل پرزوں کو الاٹ کی جانے والی اراضیوں کی الاٹ منٹوں کو مقامی بے زمین کاشتکاروں کی حق تلفی اور ان کے وجود کے خلاف سازش سمجھتے ہوئے ان الاٹ منٹوں کی منسوخی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔
ہماری رائے میں ہمہ قسم کے مقامی وسائل پر پہلا حق مقامی افراد کا ہے۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں عرض کیا، جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں یہ قابل فخر کیا قابل ذکر بھی نہیں سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ آخر کب تک اسٹیبلمنٹ کے مفادات کا تحفظ کرنے والی طبقاتی جمہوریت اس ملک کے لوگوں کے گلوں کا طوق بنی رہے گی۔
یہ بھی عرض کیا کہ طبقاتی جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں یہ بات ہے کہ ملک میں مختلف اقسام کی انتہا پسندی کا دوردورہ رہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی ناکامیوں اور اسٹیبلشمنٹ نوازی کا کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے۔ یہ بھی عرض کیا کہ طلبا یونینوں اور مزدور تنظیموں کے احیا کی ضرورت ہے۔
طلبا یونینوں اور مزدور تحریکوں سے سیاسی جماعتوں کو تواتر کے ساتھ تازہ خون ملتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں ہر دو کی حیثیت اور ضرورت کو تسلیم تو کرتی ہیں مگر ان کے احیا کے لئے عملی کام کرنے سے پتہ نہیں کیوں گھبراتی ہیں؟ سیاسی مستقبل کے حوالے سے دریافت کئے گئے سوال کے جواب میں ہم نے عرض کیا سیاسی مستقبل سے زیادہ اہم جغرافیائی مستقبل ہے۔
سیاسی مستقبل اس سے بندھا ہوا ہے۔ 1973ء کا آئین جن برسوں میں بنا تھا ان برسوں کے حالات اور ضرورتوں کو پیش نظر رکھا گیا گزشتہ 50 برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ فیڈریشن کی اکائیوں میں باہمی بداعتمادی بھی ہے اور وفاقی ڈھانچے سے بھی عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔
ان حالات میں 1973ء کے دستور میں ایسی ترامیم کی ضرورت ہے جو اسے یک قومی مذہبی فیڈریشن سے پانچ قومیتی فیڈریشن میں تبدیل کریں اس کے لئے سرائیکی، سندھی، بلوچ، پشتون اور پنجابی اقوام کے درمیان مساوی بنیادوں پر نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت ہے۔
قوموں کی مساوی نمائندگی کا اصول ہر جگہ اپنایا جانا چاہیے۔ نصاب تعلیم میں مقامیت کو مقدم رکھنا ہوگا خصوصاً تاریخ کے مضمون میں کیا ستم ہے کہ 23کروڑ لوگ جس سرزمین پر آباد ہیں اس کی قدیم تاریخ سے منہ موڑ کر عربوں، ترکوں، ایرانیوں اور وسط ایشیائی ریاستوں سے آنے والے حملہ آوروں کی تاریخ کو اپنا سمجھتے ہیں۔
ہاکڑہ، ملتان، موہنجوداڑو، ہڑپہ، گندھارا اور مہر گڑھ جیسی شاندار تہذیبوں کے وارثوں کو سمھجنا ہوگا کہ تہذیب و تمدن اور تاریخ کا تعلق سرزمین سے ہوتا ہے مذہب و عقیدے سے نہیں۔ مذہب اور عقیدے کی تاریخ ہوتی ہے تاریخ کا مذہب و عقیدہ نہیں ہوتا۔
یہ بھی عرض کیا کہ محفوظ جغرافیائی مستقبل کی ضمانت صرف اور صرف سیکولر نظام میں ہی ہے۔ ایک کثیرالقومی و کثیرالمسلکی ملک کو یک قومی و مذہبی ریاست کے ڈنڈوں سے مزید نہیں ہانکا جاسکتا۔ حقیقت پسندی کا مظاہرہ جس قدر جلد کرلیا جائے مناسب رہے گا۔