Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Chand Talkh O Shireen Batein

Chand Talkh O Shireen Batein

چند تلخ و شیریں باتیں

دو تین گرما گرم خبریں اور پھر کچھ باتیں تھیں لیکن فقیر راحموں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں"بندوق" کے زور پر بنوایا گیا منڈا ڈیم ہیڈ ورکس ٹوٹ جانے سے سیلابی پانی نے چارسدہ اور نوشہرہ کے گردونواح میں تباہی پھیلادی ہے۔

اچھا میری کھال چونکہ کمزور ہے اسی لئے "بندوق" کے زور" پر زور نہیں دے سکتا البتہ یہ عرض کرسکتا ہوں کہ منڈا ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ عبدالرزاق دائود کی کمپنی "ڈیسکون" کو ملا تھا۔ عبدالرزاق دائود صاحب "صدابہار ایماندار" شخص ہیں۔

پچھلے دور میں بھی حکومتی منصب تھا ان کے پاس۔ ہمارے متروک شدہ ممدوح جنرل پرویز مشرف کو بھی محبوب ہوئے تھے۔ "ڈیسکون" والے بھی یقیناً یہی کہیں گے کہ سیلاب کے عذاب کے سامنے جب "کچھ" نہیں ٹھہرا تو منڈا ڈیم کیا بچنا تھا۔ ویسے یہ بات درست ہی سمجھی جاوے۔

طوفانی بارشوں اور بدترین سیلاب کے ان شب و روز میں گزشتہ روز ایک نظارہ تو یہ ہوا کہ سیلابی پانی نے ڈیرہ اسماعیل خان کے مفتی محمود ٹیچنگ ہسپتال کے درودیوار کے بوسے لئے۔ اڑھائی فٹ سے انوچے پانی نے ہسپتال میں چہل قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔

ایک زندہ کرامت یہ ہوئی کہ پیر طریقت مفتی اعظم ڈیرہ اسماعیل خان علی امین گنڈاپور قائد محترم عمران خان، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور دیگر مہمانوں کو فینسی قناتوں کے درمیان بنائی گئی جس عارضی گلی سے لے کر پنڈال میں گئے اس پنڈال میں بچھائے گئے قالین خشک تھے۔ فینسی قناتوں کے درمیان کی پتلی گلی میں بھی سیلابی پانی صرف قائدین کی قدم بوسی کے لئے آیا تھا اسی لئے قطار میں رکھی 4انچ والی اینٹیں بھی پوری طرح سیلابی پانی میں نہ ڈوب پائیں۔ اس ڈرامے کی ضرورت کیا تھی یہ علی امین گنڈاپور ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔

اسی صوبے کے علاقے کوہستان میں سیلابی پانی میں پھنسے 5دوست کئی گھنٹے تک امداد کے لئے پکارتے رہے ان کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی مگر کسی نے ان کی مدد نہ کی البتہ جنرل مشرف سے تحریک انصاف تک کا سفر براستہ ایم کیو ایم کی سیڑھی طے کرنے والے بیرسٹر سیف جو آجکل خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان ہیں، نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ "ہیلی کاپٹروں میں اس طرح ریسکیو کرنے کے آلات نہیں ہوتے"۔

سیف کا یہ انکشاف ایسا ہی ہے جیسے آجکل سوشل میڈیا پر دس بارہ کروڑ ماہرین "آبیات " چیخ چلارہے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم بنا لیا جاتا تو سیلاب سے تباہی نہ ہوتی۔ فقیر راحموں کہتے ہیں ان ماہرین اور دانشوروں کو توپ کے منہ سے باندھ کر سلامی دی جائے۔

عمران خان نے جمعہ کو ڈیرہ اسماعیل خان میں کہا سیلاب سے بچائو کا حل ڈیموں کی تعمیر ہے۔ بجا بلکہ ارب ہا بار درست۔ لیکن سرکار آپ نے ہمیشہ نوید دی کہ خیبر پختونخوا میں تین سو چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں اس سے زیادہ کیا عرض کروں کیونکہ تحریک انصاف والے کہتے ہیں ہر وقت پی ٹی آئی اور عمران خان پر تنقید کرتے رہتے ہو تمہیں کوئی اور کام نہیں ہے۔ کام بہت ہیں عزیز لیکن مجھے "پیسے" اسی کام کے ملتے ہیں۔

خیر چھوڑیں سکھر چلتے ہیں۔ لاہور بیس ایک نجی چینل (اس کے مالکان صالحین سے تعلق رکھتے ہیں) نے خبر دی کہ جمعہ کو وزیراعظم کے دورہ سکھر کے دوران "بروقت امداد فراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے پریشان حال سیلاب متاثرین نے احتجاج کیا ان متاثرین کے خلاف سکھر پولیس نے مقدمہ درج کرلیاہے"۔

یہ خبر درست ہے تو مقدمہ درج کرانے اور کرنے والوں کو سیلابی پانی میں سوا تین منٹ تک غوطے دیئے جانے چاہئیں۔ متاثرین اگر وزیراعظم کو اپنی فریاد نہ سنائیں تو اور کیا کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو فوری طورپر سکھر پولیس کی اس انسان دشمن کارروائی اور سیلاب متاثرین کی توہین کا نوٹس لینا چاہیے۔

ادھر قائد محترم عمران خان نے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے پاکستان میں جاری اپنی انقلابی جدوجہد کے اخراجات کے لئے چندہ دینے کی اپیل کی ہے۔ ویسے گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان میں ان سے پوچھا گیا کہ وہ سیلاب زدگان کے لئے فنڈ ریزنگ کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا "میں سیلاب زدگان کے لئے چندہ اکٹھا نہیں کروں گا کیونکہ مجھے علم نہیں یہ پیسہ کہاں جائے گا"۔

صدقے اور قربان اس ادا اور بیان پر ان کے لئے فقیر راحموں کہہ رہے ہیں کہ "پیسہ وہیں جائے گا جہاں 2010ء کے سیلاب کے زمانہ میں ایک میڈیا ہائوس کے ساتھ مل کر فنڈ ریزنگ والا پیسہ گیا تھا اور بعد میں تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ ان کے چند جاہل دشمن کہتے ہیں میڈیا ہائوس والے فنڈ ریزنگ کا آڈٹ کروانا چاہتے تھے اس پر جھگڑا ہوا اس گرما گرمی کا اقتدار میں آکر بدلہ بھی لیا گیا"۔

پیارے قارئین اس فقیر راحموں کی باتوں میں بالکل نہ آئیں یہ خان صاحب کا مخالف ہے اس لئے پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے۔ البتہ خان صاحب سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ حضور سیاسی ترجیحات کے لئے فنڈ ریزنگ کرسکتے ہیں تو سیلاب زدگان کے لئے کیوں نہیں؟

جماعت اسلامی کے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر دین بیزاروں کے جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ کو دل پر لیتے ہوئے گزشتہ سپہر کہا "شاہ جی دیکھ لیجئے الخدمت فائونڈیشن کے رضاکار سیلاب زدہ علاقے میں کتنے نظم و ضبط کے ساتھ کام کررہے ہیں لیکن یہ لوگ پھر بھی جماعت پر تنقید سے باز نہیں آتے "

ان کی خدمت میں عرض کیا تنقید کرنے والے جماعت اسلامی کی نامعلوم سیاست پر تنقید کرتے ہیں اس کے لمبے عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کا نظریاتی حلیف رہنے اور اب بھی کوکلہ چھپاکی کھیلنے پر۔ ویسے سچ بتائو کیا لوگوں نے کبھی آفات کے دنوں میں چندہ اور قربانی کی کھال دینے سے انکار کیا؟

پتہ نہیں کیوں انہوں نے ہماری بات کا برا منایا اور کہنے لگے آج بڑے شاہ صاحب (ہمارے والد گرامی) حیات ہوتے تو آپ کی جماعت دشمنی کا نوٹس لیتے۔ لیجئے کھٹ سے انہوں نے ہمیں جماعت دشمن قرار دے دیا ویس یہ اعزاز کی بات ہے۔

پنجاب کے وزیر مال نوابزادہ منصور علی خان نے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت سیلاب سے متاثرہ گھروں کی تعمیر کے لئے 50ہزار سے 4لاکھ روپے تک دینے کا جائزہ لے رہی ہے۔

اللہ کرے یہ جائزے کا مرحلہ زیادہ طویل نہ ہو ویسے ان کی خدمت میں عرض ہے نواب صاحب گھر سیلاب اترنے کے بعد بنائے جائیں گے ابھی اپنی حکومت سے کہیں کہ متاثرین کی دیکھ بھال، انہیں راشن، ادویات، پینے کا صاف پانی اور خیمے فراہم کرنے کو ترجیح دے اور ڈیرہ غازی خان میں امداد کی بندربانٹ کا نوٹس بھی لے۔

سیلاب کی صورتحال بگڑ ہی رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے دس اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے اور متاثرین کی شکایات بھی بدقسمتی سے چاروں صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھرپور خدمت خلق کے دعوے اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں ہر دو میں 80سے 90 فیصد جھوٹ ہے اور وہ بھی سفید جھوٹ۔

گزشتہ روز ڈی جی خان، راجن پور اور میانوالی کو آفت زدہ اضلاع قرار دیا گیا اس سے کیا حکومت کی ذمہ داری پوری ہوگئی؟

یہاں ایک بات سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی خدمت میں عرض کرنا ہے وہ یہ کہ "خان صاحب جمعہ کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آپ کو ماموں بنادیا۔ ایک لمبا عرصہ یورپ میں گزارا آپ نے لیکن یہ نہیں سمجھ پائے کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لئے فینسی قناتوں والے امدادی کیمپ جہاں لائن میں گملے بھی رکھے ہوں کہیں بھی نہیں ہوتے"۔

حرف آخر یہ ہے کہ گزشتہ روز والے کالم میں پیپلزپارٹی کو سرائیکیوں کا آخری مورچہ قرار دینے والوں سے پوچھے گئے سوال پر پی پی پی کے چند دوست ناراض ہوئے ان کی خدمت میں عرض ہے مجھ پر غصہ نکالنے کی بجائے اپنی وسیبی قیادت کو سیلاب زدہ علاقوں میں لے جائیں۔

یہ پیر مخدوم وڈیرے کیا نذر نیاز لینے اور اسمبلیوں میں رونق افروز ہونے کے لئے ہی پیدا ہوتے ہیں؟

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar