Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Beti Ke Liye Jeene Ki Khwahish

Beti Ke Liye Jeene Ki Khwahish

بیٹی کے لئے جینے کی خواہش

ڈاکٹر محمد اعجاز الدین بھٹی ہمیں بچوں اور چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں۔ اس عزیز داری کے واسطے نصف درجن کےقریب ہیں لیکن اہم ترین واسطہ ان کا سرائیکی ہونا ہے۔ نوجوان معالج نے ابھی چند ماہ قبل ایف سی پی ایس (ایم ڈی کاریڈیالوجی) کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ برطانوی نظام تعلیم اور خصوصاً شعبہ صحت کے امتحانات کم از کم ہمارے ہاں کے ڈنگ ٹپائو سفارشی بدعتوں سے محفوظ ہے۔

یہ نوجوان عزیز ترقی پسند سوچ کا حامل ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ کتاب دوست ہے اپنے شعبہ کی ضروری کتب کے ساتھ سیاسیات، تاریخ اور دیگر موضوعات اسے نہ صرف پسند ہیں بلکہ ان موضوعات کی ڈھیروں کتابیں اس کی لائبریری میں بھی ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے مہینہ ڈیڑھ مہینہ بعد ان سے لمبی نشست ہوجاتی ہے وہ پچھلی ملاقات کے بعد سے جو پڑھ چکے ہوتے ہیں اس پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

مجھے اپنے اس عزیز پر رشک آتا ہے کہ پی آئی سی لاہور میں اپنی شعبہ جاتی مصروفیات (ذمہ داریوں) کے باوجود پڑھنے اور دوستوں کے لئے وقت نکال لیتا ہے۔ مطالعہ شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

بزرگ کہتے تھے مطالعہ بگاڑ بھی دیتا ہے۔ مجھے جب بزرگوں کا یہ ارشاد یاد آتا ہے تو میں فقیر راحموں کی طرف دیکھتا ہوں تب مجھے لگتا ہے کہ وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہا ہے۔ اس اتفاق کہیں یا دل کا چور پر ہم دونوں قہقہہ اچھالتے ہیں۔

ڈاکٹر اعجاز الدین بھٹی چند دن بعد برطانیہ روانہ ہورہے ہیں۔ امراض قلب کے شعبہ میں مزید اعلیٰ تعلیم کا حصول ان کے پیش نظر ہے۔ ان کے لاہور ہونے اور پی آئی سی میں موجودگی کا مجھ سے بے نوائوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔

گزشتہ روز ان سے عرض کیا اب آپ جارہے ہیں تو ہمارا طبی معائنہ کرواتے جایئں۔ یہ اچانک طبی معائنہ کروانے کی سوچ دو وجہ سے پیدا ہوئی ایک یہ کہ ہم دو ہزار چھ سے عارضہ قلب میں مبتلا ہیں دوا دارو بصد توفیق کرتے رہے پھر چند برس ایسے بھی آئے کہ ادویات سے منہ موڑ لیا۔

یہ خود اپنی ذات اور صحت پر ستم تھا مگر کیا کیجئے چار اور ایسے ہی حالات ہیں۔ بقول شاعر "توں کی جانیں یار امیرا، روٹی بندہ کھاجاندی اے"۔ روٹی بندے کیسے کھاتی ہے آنکھیں کھول کے اپنے اردگرد نگاہیں دوڑایئے۔ "ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات" بہرطور تازہ قصہ یہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے طبیعت ناساز ہے۔

ناسازگی کی اس دستک نے مجھ ایسے لاپروا شخص کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا۔ تین چار دن قبل جب دوستوں کا ایک کٹھ ایک دوست سے ملاقات کے لئے (اس کا احوال پچھلے کالم میں لکھا ہے) لاہور سے سفر پر روانہ ہوا تو مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی گپ شپ کے دوران میں نے ناسازی طبیعت کی مسلسل دستکوں سے دوستوں کو آگاہ کیا۔

عزیزم سید زوہیب حسن بخاری بضد ہوئے کہ فوراً چیک اپ کرایا جائے۔ 46 اڈا کے دوست تو کسی تاخیر کے بغیر مقامی ڈاکٹر کے پاس ای سی جی کے لئے لے جانے پر آمادہ و پرجوش ہوئے۔ عرض کرتے بنی کہ اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ "بس گزر ہی جائیں"۔

دوستوں کے اصرار پر یہ وعدہ کرنا ہی پڑا کہ لاہور پہنچ کر پہلا کام تفصیلی طبی معائنہ کروانا ہوگا۔ گزشتہ سے پیوستہ شب ڈاکٹر اعجاز الدین سے رابطہ کیا انہوں نے ہمیشہ کی طرح ہنستے ہوئے کہا شاہ جی حاضر آپ کل آجائیں۔

سوموار کی دوپہر پی آئی سی پہنچے ابتدائی اندراج کے بعد ای سی جی کی رپورٹ دیکھ کر ان کے چہرے پر پریشانی کے سائے لہراتے دیکھے تو پوچھا سئیں! خیریت تو ہے؟

کہنے لگے خیریت ہے بس ہلکا سا شک ہے کیوں نہ اسے دور کرلیا جائے۔ کچھ بھاگ دوڑ کے بعد انہوں نے ہنگامی طور پر ایکو ٹیسٹ کے لئے بندوبست کیا وہ بھی ہوگیا لیکن اس ٹیسٹ کے دوران متعلقہ ڈاکٹر (ڈاکٹر عدیل) اور ڈاکٹر اعجاز الدین کی باہمی گفتگو میں جو طبی اصلاحات تھیں وہ تو سمجھ میں کم کم ہی آپائیں یہ ضرور سمجھ میں آگیا کہ لاپروائی بے احتیاطی اور بدپرہیزی نے معاملات بگاڑ دیئے ہیں۔

ایکو ٹیسٹ کے دوران وہ متعلقہ ڈاکٹر سے بات چیت میں مصروف تھے اس لئے اصل حقیقت انہیں ہی معلوم تھی مگر انہوں نے چہرے پر بشاشت طاری کرتے ہوئے کہا "فکر کی کوئی بات نہیں میں دوستوں سے مل کر کوشش کرتا ہوں کہ انجوگرافی آج رات ہی ہوجائے۔

اب پریشان ہونے کی ہماری باری تھی۔ صورتحال کی نزاکت کا احساس گو پچھلے چند ہفتوں سے ہمیں تھا لیکن یہ اب معاملہ نازک سے زیادہ سنگین صورت اختیار کرچکا۔ اسی اثنا میں پروفیسر ڈاکٹر حامد نے ان سے کہا کہ مناسب ہوگا پہلے مریض کو ادویات سے بہتری کی طرف لے آئیں پھر بعد کے مرحلے دیکھ لیں گے۔

پروفیسر صاحب کے مشورہ کے بعد ڈاکٹر اعجاز نے اپنے ساتھیوں سے ہنگامی طور پر انجو گرافی کرانے کے انتظامات کے لئے بھاگ دوڑ کرنے سے روک دیا ان کے دوستوں اور خصوصاً ڈاکٹر عدیل کا بہت شکریہ کہ انہوں نے بھرپور توجہ سے ایکو ٹیسٹ کے دوران چھوٹی چھوٹی جزئیات پر نہ صرف ڈاکٹر اعجاز سے کھل کر بات کی بلکہ رپورٹ بھی تفصیل سے مرتب کرائی۔

اب صورت یہ ہے کہ سوموار کی دوپہر کی اس ساری بھاگ دوڑ، ٹیسوں کے نتائج، ڈاکٹرز کی باہمی گفتگو اور مشوروں سے یہ تو ہم سمجھ ہی گئے ہیں کہ "سانسوں والی جیب تیزی سے خالی ہوتی جارہی ہے"۔

کتنی تیزی سے؟ اس کا جواب ہمارے عزیز ڈاکٹر اور ان کے ساتھی ڈاکٹرز کے چہروں پر صاف لکھا تھا ٹیسٹوں کے مراحل پورے ہوچکے تو عزیزم ڈاکٹر اعجاز نے کہا "شاہ جی احتیاط، پرہیز اور ادویات اب ان تینوں کو اہمیت دینا پڑے گی۔ کتنی میں نے دریافت کیا؟

بولے خود سے بھی زیادہ بس آپ کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ احتیاط پرہیز اور ادویات ہی سانسوں کی جیب کو خالی نہیں ہونے دیں گے ورنہ جو ستم آپ خود پر توڑتے رہے ہیں ان کے نتائج اب آپ کی میڈیکل فائل میں موجود رپورٹس میں درج ہیں۔

سو پیارے دوستوں اور پڑھنے والو ہم گزشتہ سپہر سے واقعتاً پریشان ہیں سفر حیات میں پہلی بار بیماری کو اس قدر سنجیدگی سے محسوس کیا ہے۔ عارضہ قلب کی تکلیف ہمیں سال دو ہزار چھ سے ہے سال دو ہزار چھ کے 13رجب والے دن چند گھنٹوں کے وقفے سے دو ہارٹ اٹیک بھگت کر بھی نہ صرف معمول کے دفتری امور انجام دیئے بلکہ شام میں سفر کرکے شیخوپورہ بھی چلا گیا۔

وہ تو ہمارے بڑے بھائی سید اطہر حسن رضوی اور بھانجے سید علی ذوالقرنین زیدی کا بھلا ہو کہ دونوں ہمارے جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور برادر عزیز ڈاکٹر سید شجاعت حسین بخاری کے پاس لے گئے انہوں نے فوری طور پر ڈاکٹر بابر امین کو فون کرکے ہماری ظاہری حالت سے آگاہ کرتے ہوئے علی سے کہا حیدر بھائی کو فوراً بابر امین کے پاس لے جائیں۔

ڈاکٹر بابر امین نے انکشاف کیا کہ اس وقت دوسرے ہارٹ اٹیک سے گزر رہا ہوں میں نے انہیں صبح لاہور میں ڈاکٹر کو دیکھانے کا بتاکر اس کا نسخے اور ادویات دیکھائیں انہوں نے غصے سے دونوں چیزیں دیوار پر مارتے ہوئے کہا "جس احمق کو عارضہ قلب اور بخارات (گیس) میں تمیز کرنے کی اہلیت نہیں وہ بھی اس ملک میں ڈاکٹر ہے۔

تیسرا ہارٹ اٹیک دو ہزار آٹھ میں ہوا تھا اس پر بھی ڈاکٹر بابر امین نے اپنی صاف ستھری کلاس لی تھی۔

ملتان میں قیام کے برسوں میں برادر محترم ڈاکٹر دیوان سید ظفر عباس بخاری نے میڈیکل بورڈ بنواکر معائنہ و انجو گرافی کروائی دو ہزار چودہ میں ہوئی یہ انجو گرافی تیسری انجو گرافی تھی۔

گزشتہ دوپہر کے ٹیسٹوں، ادویات کے نسخے اور دوائیوں کے ڈھیر نے حقیقت مجھ پر پوری طرح عیاں کردی ہے۔ 65 برس تو رہ جی لئے اس دنیا سرائے میں سانسوں کی جیب کب خالی ہوجائے کچھ پتہ نہیں، لیکن مجھ بیٹی کے باپ کے دل میں کل سے ایک ہی خواہش مچل رہی ہے یہی اپنے لئے جی لیا بہت کچھ وقت اگر بیٹی کے لئے جینے کو مل جائے۔

اس سموں میں دوستوں، عزیزوں اور پڑھنے والوں سے دعائوں کی درخواست ہی کرسکتا ہوں۔ مجھے دعائوں کی ہی ضرورت ہے۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat