Audio Leaks, Americi Sazish, Chand Mazeek Baatein
آڈیو لیکس، امریکی سازش، چند مزید باتیں
وزیراعظم کی آڈیوز ہیکرز نے لیک کیں لیکن عمران خان کی آڈیو وزیراعظم نے۔ ایک ہی سانس میں دو باتیں بھلا کون کہہ سکتاہے؟ جواب ہم سبھی کو معلوم ہے۔ البتہ عمران خان کہتے ہیں"آڈیو نہیں پورا خط لیک ہوجائے سائفر پر تو ابھی میں نے کھیلا ہی نہیں۔
انہوں نے بھی شہباز شریف و ہمنوا پر الزام لگایا کہ میری آڈیو انہوں نے لیک کی ہے"۔ کہتے ہیں"اب یہ ایکسپوز کریں گے تو ہم کھیلیں گے"۔
آڈیوز لیکس سے لگے تماشے دلچسپ ہیں۔ مجاہدین سوشل میڈیا کے نزدیک یہ ایجنسیوں کی اندرونی لڑائی کا شاخسانہ ہے ایک مجاہد اعظم نے اس میں آئی بی اور عمران خان میں اختلافات تلاش کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت کے وزیراعظم، وزیراعظم ہائوس سے آبی بی کو بے دخل کرنے کے حامی تھے۔
بے دخل کون کرنا چاہتا تھا اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے اس وقت کے چیف۔ ہم اس بحث سے دامن بچاکے آگے بڑھتے ہیں۔ عمر بھی نہیں"مجاہد گیری" کرنے کی۔
عمران خان والی آڈیو لیکس اس سفارتی مراسلہ کے گرد گھومتی ہے جس پر خان نے مارچ کے آخری دنوں میں (27مارچ کو) اسلام آباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی مداخلت و سازش کی باتیں کیں اور کہا کہ میرے خلاف امریکہ نے سازش کی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک امریکی سازش کا حصہ ہے۔ یہ الزام بھی لگایا کہ باہر سے صرف سازش نہیں ہوئی بلکہ "مال بھی وافر مقدار" میں آیا ہے۔
ان الزامات یا انصافی بیانیہ پر عمران خان کی تقریر کے بعد ان کالموں میں ایک سے زائد بار عرض کیا تھا کہ سفارتی مراسلہ میں گھٹالہ ہوا ہے اور گھٹالے کے کرداروں میں اعظم خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چودھری اور بابر اعوان شامل ہیں۔
ہیکرز نے (یا بقول عمران خان کے وزیراعظم شہباز شریف نے) ان کی جو آڈیو ریلیز کی ہے اس میں موجود گفتگو سن لیجئے۔ اعظم خان وزیراعظم کے اس وقت پرنسپل سیکرٹری تھے وہ آڈیو میں کہہ رہے ہیں"سفیر نے لکھا تھا ڈیمارچ کریں گے، کس طرح کور کرنا ہے اس پر بہت سوچا ہے۔ منٹس مرضی سے ڈرافٹ کرلیں گے تاکہ ریکارڈ پر آجائے"۔
خان صاحب کہہ رہے ہیں"اعظم خان نام نہیں لینا امریکہ کا، صرف کھیلنا ہے کہ پہلے سے اس پر تاریخ تھی"۔
سفارتی مراسلہ کے من پسند تشریحات کے مقاصد کیا تھے اور یہ کہ سازش کا کیا اس وقت پتہ چلا جب دو باتیں سامنے آئیں ایک بقول شوکت ترین "آئی ایم ایف کے حکام نے کہا معاہدہ میں سخت شرائط امریکہ نے رکھوائی ہیں آپ امریکہ سے بات کرلیں"۔
دوسرا معاہدہ کے مطابق پٹرولیم اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی بجائے عمران خان کی جانب سے پٹرولیم پر 10روپے لٹر اور بجلی پر 5روپے یونٹ رعایت دے کر اس رعایت کو بجٹ تک برقرار رکھنے کا اعلان۔
جس کے بعد آئی ایم ایف نے 96کروڑ ڈالر کی قسط روک دی۔ قسط روکنے کا معاملہ سامنے آیا تو وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا کہ یہ خبر دینے والے غیرذمہ دار لوگ ہیں ایسا کچھ نہیں۔ آئی ایم ایف کے اسلام آباد میں موجود نمائندے نے وزارت خزانہ کی تردید کے بعد وضاحتی بیان میں کہا "معاہدہ کی خلاف وزی پر قسط روکی گئی اس کی ادائیگی شرائط پر عمل سے ممکن ہے"۔
ان سطور میں قسط روکے جانے کی وجوہات عرض کی تھیں وزارت خزانہ کی تردید اور آئی ایم ایف کی وضاحت بھی یاد کیجئے خود عمران خان اعتراف کرچکے کہ انہوں نے سخت شرائط والے معاہدے کی بعض شرائط پر عمل نہیں ہونے دیا۔
تب عرض کیا تھا معاہدہ کس نے کیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے۔ ابتدائی معاملات حفیظ شیخ نے طے کئے، اگلا مرحلہ شوکت ترین نے۔ شوکت ترین نے بھی بجٹ تقریر میں اعتراف کیا تھا کہ حفیظ شیخ نے سخت شرائط قبول کیں ہم ان پر بات کریں گے۔ بات کرنے گئے تو ڈھیر ہوگئے اب ہیرو گیری میں مصروف ہیں۔
معاہدے حکومت سے ہوتے ہیں فرد سے نہیں۔ ایک یا دو شرائط سے انحراف کا فیصلہ ذاتی تھا اس کا نقصان ہوا۔
سفارتی مراسلے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان سطور میں عرض کیا تھا امریکی سازش کا رونا رونے والے ایک ساعت کے لئے ہمت کریں اور سعودی عرب میں اس وقت تعینات پاکستانی سفیر کے مراسلوں کے متن سامنے لائیں جب عمران خان ترکی اور ملائیشیاء کے ساتھ مل کرنیا اسلامی بلاک اور ایک عالمی سطح کا ٹی وی چینل بنانے جارہے تھے۔
تب سعودی حکمرانوں نے پاکستانی سفیر کو بلاکر کیا کہا اور سفیر نے دفتر خارجہ کو کیا مراسلے بھجوائے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سفارتی عملے خصوصاً سفیر صاحبان جس ملک میں تعینات ہوتے ہیں دو طرفہ تعلقات میں اونچ نیچ محبتوں اور تلخیوں کو رپورٹ کرتے رہتے ہیں۔
خان صاحب کہتے رہے کہ امریکہ میرے دورہ روس اور آزادانہ خارجہ پالیسی سے ناراض ہوا۔ گزشتہ چالیس بیالیس برسوں میں عسکری محکموں میں بڑے عہدوں پر فائز اور پالیسی سازی میں شریک سابقین کا لشکر دیوانہ وار گھروں سے نکلا ان سب کو امریکہ مخالفت کا چڑھا ہوا تھا۔ اس بخار کا ایک معمولی سا چھینٹا ان پر اس وقت تو نہ پڑا جب یہ عہدوں پر تھے اور امریکی جنگ کے مجاہد بھی۔
یہ امریکی جنگ پاکستان میں لایا کون؟ اس سے فیض کس کس نے پایا؟ مجھے نہیں لگتا کہ اس ملک میں کبھی ان دو سوالوں پر سنجیدہ مکالمہ ہوسکے گا۔
عمران خان اور "مجاہدین" (سابق عسکری نابغوں) کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں کہ امریکہ اور افغان سٹوڈنٹس کے درمیان معاہدے، امریکی انخلاء اور پھر معاہدہ سے انحراف کرتے ہوئے سٹوڈنٹس کا کابل پر قبضہ کرنا قبضے کے بعد ایک صاحب کا چائے کے کپ کے ساتھ تصویر بنواکر وائرل کروانا یہ کس کے "شونق" تھے۔
کیا امریکہ طالبان معاہدے کےمطابق عوامی مینڈیٹ کے حصول تک کی درمیانی مدت کے لئے وسیع البنیاد عبوری حکومت نہیں بننا تھی۔ یہی اس معاہدہ کی روح کی حیثیت رکھنے والا نکتہ تھا۔ طالبان نے اس سے انحراف کیوں کیا؟
امریکی انخلا اور بعد کے مرحلوں میں افغان صورتحال پر 20اقساط لکھیں اس طالب علم نے ایک ایک نکتے پر عمل اور انحراف کے کرداروں بارے تفصیل سے عرض کیا تھا۔ اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ طالبان کو کابل کا قبضہ دلانے والے اصل میں پاکستان کے حقیقی مجرم ہیں۔
ان کے عمل کا "پھل" پاکستان اور عوام کو کھانا پڑرہا ہے۔ امریکہ کی ناراضگی، انخلا کے معاہدے سے انحراف کے لئے طالبان کی حوصلہ افزائی اور تعاون پر تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکیوں نے پاکستان کو سفارتی تنہائی سے دوچار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
اپنی زبان و بیان، بعض عادات اور قلابازیوں سے جناب عمران خان ایک سے زائد ان دوست ممالک کو ناراض کرچکے تھے جو آڑے وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ انہوں نے ایک لمحے کے لئے یہ نہیں سوچا کہ اب وہ کرکٹ گرائونڈ کے ڈریسنگ روم یا تھڑے پر گفتگو نہیں کررہے بلکہ ایک ملک کے وزیراعظم ہیں الفاظ ہی نہیں زیرزبر پر بھی گرفت ہوگی۔
ایک سے زائد بار ان کالموں میں سوال اٹھایا کہ ٹرمپ عمران ملاقات میں صدر ٹرمپ نے انہیں بھارت کے زیرتسلط مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آئندہ اقدامات پر اعتماد میں لیا تھا۔ امریکی بھارتی حکمت عملی سے پیشگی آگاہ تھے۔ امریکی سازش اور ہم کیا غلام ہیں کی مالا جپتے رہنے والے عمران خان کسی دن قوم کو بتائیں تو ٹرمپ اور ان کی مشہور زمانہ ملاقات میں کشمیر کے حوالے سے بھارت کی حکمت عملی پر کیا بات ہوئی تھی۔ کیا کسی قسم کی یقین دہانی وائٹ ہائوس میں کرائی گئی یا انہی دنوں پینٹاگون میں؟
خان صاحب کے وزیر داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں وزارت داخلہ اور آئی بی نے اکتوبر 2021ء میں وزیراعظم کو اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے نئے سلسلے سے آگاہ کردیا تھا۔ نومبر اور دسمبر میں عمران خان کو بتادیا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں ان کے خلاف عدم اعتماد لارہی ہیں۔
جب عدم اعتماد سے انہیں نومبر دسمبر میں آگاہ کردیا گیا تھا تو مارچ میں موصول ہونے والے سفارتی مراسلہ کے لفافے سے سازش کیسے برآمد کرلی گئی۔
خان صاحب کی لیک آڈیو کے پہلے حصے میں موجود گفتگو میں منٹس کی تبدیلی والی بات واضح ہے۔ اپنی کمزوریوں، نااہل ٹیم کی بدانتظامیوں، ملک کے لئے حاصل کردہ سفارتی تنہائی، آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے سے انحراف کے نتائج اور دوسرے معاملات کو امریکی سازش کے بیانیہ میں چھپاکر وہ اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بناسکتے ہیں حقائق کو مسخ نہیں کرسکتے۔