Ashura, Band Raste, Aitrazat Aur Talkh Haqeeqat
عاشورہ، بند راستے، اعتراضات اور تلخ حقیقت
آج عاشورہ (10محرم الحرام) ہے۔ عاشور کیا ہے، وہ کیا حالات تھے جن میں کلمہ گو مسلمانوں کے لشکر نے ہادی اکبر نور مجسم رحمت دو عالم آقائے صادق حضرت محمد مصطفی کریمؐ کے محبوب نواسے (امام حسینؑ) ان کے فرزندوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور احباب و انصار اور شب عاشور سے عصر عاشور تک کوفہ شہر سے کسی نہ کسی طرح نکل کر میدان کربلا میں نصرتِ سبطِ احمد مرسلؐ کے لئے پہنچنے والوں کا خون بہایا؟
تاریخ کی کتابیں ان حالات و واقعات اور وجوہات سے بھری پڑی ہیں۔ تاریخ کی کچھ کتابوں میں اس پورے واقعہ سے انکار بھی درج ہے۔ کچھ میں ایک دوسرا موقف بھی ہے یہ موقف اس وقت کی حکومت کے حامیوں کا یا یوں کہہ لیجئے بیعت زدگان کے وارثین کا ہے۔
یقیناً بحث مباحثے، کٹ حجتیاں، انکار و اقرار کا سلسلہ عصری شعور کی پہلی کرن سے ہمارے منور ہونے سے پہلے چل دوڑ رہا ہے۔ گزری کل کی طرح مجھے یاد ہے کہ جماعت سوئم کا طالب علم تھا جب میری والدہ محترمہ سیدہ عاشو بی بی وعظ والی ملتان کے محلہ کیڑی دائود خان کے ایک گھر میں وعظ کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں
"کربلا تاریخ کے بھونچالوں میں گم ہوجاتی اگر امام حسینؑ کی ہمشیرہ ثانی بتولؑ جناب سیدہ زینبؑ بنتِ علیؑ کے خطبات نے یزیدی خلافت کے درودیوار نہ ہلادیئے ہوتے"۔
پچھلے لگ بھگ 57 سالوں سے جب بھی محرم الحرام کا مہینہ آتا ہے میرے دل و دماغ پر امڑی سینڑ (والدہ محترمہ) کی وہ تقریر دستک دینے لگتی ہے۔
بچپن کی ڈھیر ساری یادوں میں محفوظ ان کے خطاب کے اس جملے کے ساتھ ایک دعا بھی محفوظ ہے ان سطور میں ایک سے زائد بار عرض کیا کہ والدہ حضور وعظ کے بعد دعا فرماتے ہوئے کہا کرتی تھیں"اے کریم و عادل اور مہربان رب جن سے ہم ناراض ہیں یا جو ہم سے ناراض ہیں سب کی بچیوں کا شرم پردہ قائم رکھ"۔ روز عاشور کے لئے حرف جمع کرتے یہ تحریر لکھتے وقت حافظے کی خودستائی اور والدہ محترمہ کی تعریف مقصود نہیں۔ فرات کنارے اترے قافلہ حسینؑ کا تذکرہ مقصود ہے۔
طالب علم کے لئے بہت سہل تھا کہ امام عالی مقام حسینؑ ابن علیؑ کے ارشادات و خطبات کے اقتباسات سے کالم کا پیٹ بھرتا اور مطالعے کی داد وصول کرتا۔ سچ یہ ہے کہ ارادہ بھی یہی تھا مگر یہ سطور لکھتے ہوئے اس حوالے سے معروضی حالات سے ہوئی ذہن سازی کچھ تھڑدلے پن اور دوسری وجوہات پر بات کرنا مقصود ہے۔
ہمارے ہاں جب سے سوشل میڈیا آہا ہے دانشوڑوں کا ہڑ سا آگیا ہے۔ چند ایک لوگوں کے سوا اکثریت دوسرے کی آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ اپنے فرقے کے مولویوں کی تقاریر اور کتب کو عین اسلام سمجھنے والے دیگر مسلم مکاتب فکر سے منسلک لوگوں کی تحقیر کرکے راحت حاصل کرتے ہیں۔
فرقہ پرستی سے پراگندہ اس سماج میں حبس ہر گزرے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے غالباً یہی وہ وجہ ہے کہ ہم جیسے طلباء برسوں سے کہتے لکھتے آرہے ہیں کہ ایک مذہبی ریاست خاص فہم کا عقیدہ نہ رکھتی ہو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔
ایک عقیدہ رکھنے والی ریاست اپنی جغرافیائی حدود میں اپنے ہی مذہب کے دوسرے مسلمہ مکاتب فکرکے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے امتیازی برتائو کرتی ہے۔
ہمیں اگر پاکستانی ریاست کے عقیدے کو سمجھنا ہے تو قرارداد مقاصد اور دستور کے سرنامے "کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بن سکتا" سے آگے ریاست کے اعمال کو بطور (یہاں اعمال سے مراد عمل ہے) خاص دیکھنا سمجھنا ہوگا۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس ریاست نے جب خاص مقاصد کے لئے عسکری تنظیموں کی سرپرستی کی تو کیا پالیسی ساز یہ نہیں سمجھ پارہے تھے کہ ایک خاص مکتب فکرکے جہادی جنون کو فرقہ وارانہ رنگ ملنے کے نتائج کیا ہوں گے؟
بالکل معلوم تھا مگر اس وقت ریاست پر اسلامی ممالک کا "قائداعظم" بننے کا بھوت سوار تھا۔ ریاست جہاد کو زندہ کررہی تھی مغرب اور اسلامی دنیا "لادین" سوویت یونین کے خلاف اہل کتاب کا اتحاد تشکیل دے چکے تھے۔
اس صورتحال سے ان انتہا پسندوں نے فائدہ اٹھایا جو مخالف مکتب فکر کی تکفیر کو ایک قدم آگے بڑھاکر عسکریت کا دروازہ کھولنے پر تلے ہوئے تھے۔ افغانستان میں انقلاب ثور کو انہوں نے لادینیت کا سیلاب عظیم قرار دینے والی قوتوں کی ہمنوائی کا راستہ اپنایا تو دوسری طرف یہی مغربی و معشرقی قوتیں انہی برسوں میں برپا ہوئے ایرانی انقلاب کو بھی ایک خاص انداز میں دیکھ رہی تھیں۔
لادین سوویت یونین کے خلاف ریاست کی چھتر چھایہ میں منظم ہوئے جہادی گروپوں کو افرادی قوت کے لئے اپنے ہی مدارس سے رجوع کرنا تھا۔ مدارس کا نصاب اور تکفیری تدریس جو ذہن سازی کرچکے تھے اس ذہن کے لوگوں کو ریاست کی ہمنوائی یا یوں کہہ لیجئے جہادی پالیسی میں اپنے لئے خیر اور کامیابی کا پہلو دیکھائی دیا۔
دونوں نے ایک دوسرے کے جرائم سے پردہ پوشی کو ضروری سمجھا۔ جہاد کی کوکھ سے فرقہ وارانہ عسکریت پسندی پھوٹ پڑی۔ معاملہ پہلی یا دوسری فرقہ پرست عسکری تنظیم کے قیام اور سوال کا ہرگز نہیں معاملہ یہ ہے کہ اس ریاست کی شقاوت کا اندازہ کیجئے جس نے جہاد کے نام پر مال سمیٹنے والے فرقہ پرستوں کو کھل کھیلنے کا ماحول فراہم کیا۔
بالائی سطور کی تفصیل لکھنا اس لئے ضروری تھی کہ پچھلے عشرہ ڈیڑھ عشرہ یا کچھ زائد وقت سے محرم، چہلم، 21 رمضان المبارک سمیت چند دیگر ایام اور پھر عید میلادالنبیؐ کے جلوسوں جلسوں کے لئے ریاست کے سکیورٹی انتظامات کا بوجھ ایام منانے والوں پر ڈال کر سیاپا شروع ہوجاتا ہے۔
یہ سارے سیاپا فروش اگر یاد کرسکیں تو ہمارے سماج میں لگ بھگ 1988ء اور 1989ء تک 10 محرم اور 12 ربیع الاول کے دو دنوں میں بھی جلوس والے علاقوں سے باہر کے علاقوں میں کاروباری زندگی چلتا رہتا تھا۔
21 رمضان اور چہلم شہدائے کربلا کے جلوسوں کے دوران جلوسوں کے روٹوں پر بازاروں اور جلوس والی سڑکوں پر جلوس جوں جوں آگے بڑھتے پچھلے حصوں میں دکانوں کے دروازے کھل جاتے کاروبار شروع ہوجاتا۔
فرقہ وارانہ کشیدگی و عسکریت پسندی 1985ء سے شروع ہوئی اسے چار چاند 1989ء سے لگنا شروع ہوئے پھر مذہبی جلوسوں کی سکیورٹی کے نام پر ریاست اور اس کی انتظامیہ کا نفرت پھیلائو پروگرام شروع ہوگیا۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رک کر اس سوال پر ضرور غور کیجئے کہ 1988ء اور 1989ء سے قبل اس طرح کے سکیورٹی انتظامات، پابندیاں، کنٹینرز وغیرہ اور خاردار تاریں لگاکر راستے بند کیوں نہیں کئے جاتے تھے؟
یہ سلسلہ جلوسوں اور مذہبی اجتماعات پر حملوں اور تکفیر سے پھوٹی ٹارگٹ کلنگ کے بعد شروع ہوا۔
وہ لوگ جو آج چند مخصوص ایام پر راستوں کی بندش کی آڑ میں متعلقہ گروہوں کی توہین تحقیر اور تکفیر کرتے ہیں کیا انہوں نے اتنی شدت اور "ایمانداری" کے ساتھ اس فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بھی مذمت کی تھی جو ریاست کی سرپرستی میں شروع ہوئی اور اس نے ہنستے بستے سماج کو لہو لیان کرکے رکھ دیا؟
تاریخ و سیاست اور صحافت کے مجھ ایسے طلباء کے لئے یہ امر بھی حیرانی کا باعث ہے کہ وہ لوگ جو دیگر مذاہب کے مخصوص ایام کی تقاریب میں شرکت کو شہری آزادیوں اور انسانیت کا تقاضہ قرار دیتے ہیں وہی مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکرکے بعض ایام پر چیں بچیں ہونے لگتے ہیں۔ کچھ تو غصے میں منہ بھر کے گالیاں بھی دیتے ہیں لیکن حرام ہے کہ انہوں نے کبھی ان قاتل لشکروں اور ریاستی پالیسی کی مذمت میں منہ کھولا ہو جو آج کے حالات کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔
پچھلے چند برسوں کے دوران مخصوص مذہبی ایام منانے، جلسوں جلوسوں اور مجالس کا اہتمام کرنے والوں کے ساتھ دونوں طبقات کے بڑوں سے ایک صحافی کے طور پر ان مسائل کے حوالے سے بات چیت کی جو ان کی مجالس، جلسوں اور جلوسوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا جواب ہوتا ہے کہ کیا ہم انتظامیہ کو کہتے ہیں راستے بند کردو ہمارے لئے تو راستوں کی بندش نقصان دہ ہے ہم اپنا نقصان کیوں کریں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی کے جلسوں جلوسوں اور مجالس پر اعتراضات اٹھانے والے ایک مذہبی گروہ نے خود اپنے لئے بھی چند ایام مخصوص کرلئے ہیں وہ بھی ان ایام میں جلسے بھی کرتا ہے اور جلوس بھی نکالتا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ مسئلہ راستوں کے بند ہونے سے پیدا ضرور ہوتا ہے لیکن راستے کون بند کرتا ہے کیوں ہوتے ہیں یہ ضرور سوچا جانا چاہیے۔