Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Adam Tawazun, Khooni Tareekh, Party Election, Saanu Ki

Adam Tawazun, Khooni Tareekh, Party Election, Saanu Ki

عدم توازن، خونی تاریخ، پارٹی الیکشن، سانوں کی

خیبر پختونخوا کے متعدد شہروں کے بعد گزشتہ سے پیوستہ روز صوابی اور تخت بھائی میں بھی سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے ذمہ داران کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔

اسی صوبے کے مختلف شہروں میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی وغیرہ نے حالیہ عرصہ میں سیاسی اجتماعات منعقد کئے کیا اس وقت عارضی طور پر دفعہ 144 اٹھالی گئی تھی یا خلاف ورزی پر ان جماعتوں کے رہنمائوں کے خلاف کوئی مقدمہ وغیرہ درج ہوا؟ یا پھر صرف تحریک انصاف کے اجتماع سے قبل متعلقہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر دفعہ 144 نافذ کردیتا ہے۔

ایسا ہے (جوکہ لگ رہا ہے) تو پھر صاف سیدھی بات یہ ہوئی کہ صوبے میں دوبار برسراقتدار رہنے والی جماعت کو عوامی سرگرمیوں سے روکنے کی "کہیں سے" ہدایات ہیں۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسرے رخ کی طرف صوبے کے گونر حاجی غلام علی نے توجہ دلائی ہے۔ چلاس کے قریب گزشتہ سے پیوستہ روز غذر گلگت بلتستان سے راولپنڈی جانے والی مسافر بس پر دہشت گردوں کے حملے میں 8 مسافروں کے جاں بحق اور 16 کے زخمی ہونے کی افسوسناک خبروں کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی کا کہنا ہے کہ "صوبے کے بعض علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کے لئے مشکل ترین حالات ہیں۔

ان کے بقول "کالعدم ٹی ٹی پی متحرک ہے یہ نہ ہو کہ ووٹر اپنی جان ہی کھودیں۔

خیبر پختونخوا کے گورنر نے لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اعتراضات و الزامات کو نادرست قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنما اور دیگر ذمہ داران عدالتوں کا سامنا کریں الزامات سے بری ہوکر آئیں"۔

خیبر پختونخوا کے گونر ایک طویل عرصہ سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کا حصہ ہیں۔ ان کے صاحبزادے پشاور کے ضلعی میئر بھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا سمدھی ہونا بھی ایک حوالہ ہے۔ رشتہ داری اور تعلق انسانی سماج کا ہی حصہ ہیں مثلاً خواجہ محمد آصف اور پیپلزپارٹی والے سینیٹر فاروق ایچ نائیک بھی قریبی رشتہ دار ہیں یوسف رضا گیلانی اور موجودہ پیر پگاڑا خالہ زاد بھائی ہیں۔

البتہ پی ٹی آئی کے حوالے سے حاجی غلام علی کے جذبات وہی ہیں جو ان کی جماعت کے عام ہمدرد سے سربراہ مولانا فضل الرحمن تک کے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت جو خیبر پختونخوا میں دوبار اقتدار میں رہی ہو اسے صوبے میں جس امتیازی سلوک، پکڑدھکڑ اور مقدمات کا سامنا ہے اس سے کیسے صرف نظر کرلیا جائے؟

ہماری رائے بہرطور یہی ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ انتظامیہ کا جانبدارانہ رویہ کسی بھی طرح درست نہیں۔ جب دوسری سیاسی جماعتیں اپنے عوامی اجتماعات کا انعقاد بلا کسی رکاوٹ کے کررہی ہیں تو پی ٹی آئی پر پابندی کیوں۔

اسے بھی عوامی سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہیے یہ اس کا جمہوری اور قانونی حق ہے۔

جہاں تک گورنر خیبر پختونخوا کی اس بات کا تعلق ہے کہ صوبے کے بعض حصوں میں کالعدم ٹی ٹی پی سرگرم عمل ہے جس کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں میں مشکل پیش آسکتی ہے تو یہ بات یا یوں کہہ لیجئے کہ خطرہ اپنی جگہ درست ہے۔

گورنر خیبر پختونخوا کی اس بات کو کالعدم ٹی ٹی پی کے اکتوبر میں کئے جانے والے اس فیصلے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا کہ خود کو نشانہ بنائے جانے کا جواب انتخابی سرگرمیوں کے ماحول میں دیاجائے گا۔

گو ٹی ٹی پی نے دو تین دن بعد ایسے کسی اعلامیہ کے اجراء کی تردید کردی تھی لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی والے جھوٹ تواتر کے ساتھ بولتے ہیں بالخصوص اس وقت جھوٹ بولنے کاان کے پاس "شرعی" جواز ہوتا ہے جب اس دہشت گرد تنظیم کے کسی اعلامیہ پر عوامی ردعمل آئے اور یہ کہ خود ان کے ہم خیال سیاسی گروپ بھی تشویش کا اظہار کریں۔

رواں سال اکتوبر میں جب کالعدم ٹی ٹی پی نے انتخابی سرگرمیوں کے ماحول کو بدلہ لینے کے لئے بہترین موقع قرار دیا تھا تو تب ہی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ نگران حکومت اور سیاسی عمل میں شریک سیاسی جماعتوں کو اس معاملے پر یکسوئی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ کسی لگی لپٹی کے بغیر ٹی ٹی پی کی مذمت کرنی چاہیے۔

اب آیئے سانحہ چلاس پر کچھ بات کرلیتے ہیں، گلگت بلتستان کے دیامر ڈویژن کے علاقے چلاس میں غذر سے راولپنڈی جانے والی مسافر بس پر ہونے والا حملہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اس حملے میں 8 مسافر جاں بحق ہوئے ان میں 2 فوجی جوان بھی شامل ہیں جبکہ 16 مسافروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اتوار کو گلگت بلتستان میں اس سانحہ کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج ہوا۔ مرحومین کی نماز جنازہ کے اجتماعات کے شرکا نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔ مسافر بس پر فائرنگ اور انسانی جانوں کے ضیاع پر احتجاج کرتے ہوئے ٹرانسپورٹروں نے ہڑتال کی۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ بس پر حملہ کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور 6 مشکوک افراد کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے۔

سانحہ چلاس کو محض ایک کالعدم عسکری تنظیم یا اس کے کسی ہم خیال شدت پسند گروپ کی کارستانی قرار دے کر اور بھارت کے ملوث ہونے کا پچھتر سالہ پکا راگ سناکر لوگوں کو بہلایا نہیں جاسکتا۔

مسافر بس پر حملہ پہلا واقعہ نہیں قبل ازیں بھی شاہراہ قراقرم پر مسافر بسوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دو مواقع پر تو مسافروں کے شناختی کارڈوں سے ان کے ناموں کی بنیاد پر فرقہ وارانہ شناخت کی تصدیق کے بعد بسوں سے اتار کر انہیں موت کا رزق بنایا گیا۔

گزشتہ ساڑھے تین عشروں سے چلاس اور ملحقہ علاقوں سے لے کر کوہستان ڈویژن کی مانسہرہ کی سمت اختتامی حدود پر شاہراہ قراقرم پر کئی افسوسناک واقعات رونما ہوئے بعض واقعات فرقہ وارانہ کشیدگی کا نتیجہ قرار پائے اور بعض واقعات کو پاک چین تعلقات پر بزدلانہ حملہ قرار دیا گیا۔

اس خونی کھیل کا آغاز تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور کے آخری سال 1988ء میں اس وقت شروع ہا تھا جب اس وقت کے ایک وفاقی وزیر قاسم شاہ افغان مہاجروں اور شدت پسند تنظیموں کے عسکریت پسندوں کا ایک لشکر لے کر گلگت بلتستان میں"جہاد" کے لئے روانہ ہوئے تھے اس لشکر کو ریاستی سرپرستی بھی حاصل رہی اس سرپرستی کے حوالے سے بریگیڈیئر پرویز مشرف (یہ موصوف بعد میں آرمی چیف بھی بنے اور چوتھے فوجی آمر کے طور پر حکمران ہوئے) کا نام بھی ملکی و غیرملکی صحافیوں میں زبان زدعام ہوا تھا۔

اس لشکرنے بربریت و خباثت کے جو کارنامے سرانجام دیئے ان کے متاثرہ خاندانوں کے بچے کھچے لوگ جو کہانیاں سناتے ہیں انہیں سن کر شدید گرم ماحول میں بھی خون رگوں میں جم جاتا ہے۔

1988ء کے اس المناک واقعہ سے لے کر حالیہ سانحہ چلاس کے درمیانی ماہ و سالوں میں رونما ہونے والے کسی بھی سانحہ کے بعد زبانی جمع خرچ، اظہار ہمدردی، بھارتی مداخلت کے راگ اور دوسری کئی باتیں کہی سنائی گئیں لیکن سنجیدگی کے ساتھ اصلاح احوال کی کوششیں کبھی نہیں ہوئیں۔

مثال کے طور پر ریاست پورے ملک میں غیرقانونی افغانوں اور دوسرے تارکین وطن کے خلاف کارروائی کرتی رہتی ہے مگر کبھی کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ کوہستان ڈویژن اور ملحقہ علاقوں میں رہنے والے افغان باشندوں بارے بھی چھان بین کریں کہ ان میں سے کتنے پرامن شہری ہیں اور کتنے کالعدم عسکری تنظیموں کے ہمدرد و معاون۔

کالم کے تیسرے حصے میں پی ٹی آئی کے جماعتی انتخابات کا ذکر خیر ہوجائے۔ دو تین دن قبل پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں بیرسٹر علی گوہر پی ٹی آئی کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔

پارٹی کے قیام سے اب تک کے 26 برسوں میں عمران خان ہی پارٹی چیئرمین منتخب ہوتے چلے آرہے تھے۔ بیرسٹر علی گوہر پچھلے برس 2022ء میں پہلے عمران خان کے ایک دو مقدمات میں وکیل بنے پھر پارٹی میں شامل ہوگئے۔

اب وہ پارٹی میں شمولیت کے سال سوال سال بعد چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں۔

بونیر خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر علی گوہر کے والد پیپلزپارٹی کے سرگرم رہنمما رہے خود علی گوہر نے 2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ 18 ہزار ووٹ لے کر اے این پی کے امیدوار سے شکست کھاگئے۔

26 برسوں سے عمران خان کے ساتھ کھڑے حامد خان ایڈووکیٹ عمران خان کی عارضی جانشینی کے حقدار کیوں نہ بن پائے یا کوئی دیرینہ رہنما، اس پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔

فی الوقت پی ٹی آئی کے چیئرمین پیپلزپارٹی سے آئے ہیں اور سیکرٹری جنرل گوہر ایوب تین جماعتیں تبدیل کرکے تحریک انصاف میں پہنچے تھے پی ٹی آئی کے ناقدین اس انٹراپارٹی الیکشن پر بھڑاس نکال رہے ہیں اور حامیوں کا خیال ہے کہ اس عمل نے موروثی سیاست کا منہ کالا کردیا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ "درست" ہیں"سانوں کی"۔

Check Also

Ghamdi Qarar Dena

By Amirjan Haqqani