Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. 16 December, Gwadar Dharna, Tareekh Ka Almiya

16 December, Gwadar Dharna, Tareekh Ka Almiya

16دسمبر، گوادر دھرنا، تاریخ کا المیہ

محمد شفیق بنگش اور سید اطہر علی نے ای میل کے ذریعے شکوہ کیا ہے کہ "آپ نے 16دسمبر کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا، سقوط مشرقی پاکستان اور سانحہ اے پی ایس پشاور کو نظرانداز کرنا ہمیں اچھا نہیں لگا"۔ قارئین کی ناراضگی سر آنکھوں پر یقیناً ان موضوعات پر لکھا جانا چاہیے۔ بہت سارے دوستوں نے لکھا بھی تحریر نویس نے ان دو واقعات کو نظرانداز نہیں کیا۔ ہمارے پیش نظر دستیاب تاریخ اور معلومات ہیں یا پھر عمومی حالات۔ اس سماج میں ہر کوئی اپنے سچ کے سوا کچھ بھی سننا، پڑھنا نہیں چاہتا۔ سوال کسی کو اچھے نہیں لگتے مکالمہ ہوتا نہیں ملاکھڑے کا فائدہ۔ مختصراً یہ کہ ہم نے ہر دور ہی کیا، ماضی کے دوسرے واقعات سے بھی سبق نہیں سیکھا۔

"تاریخ کاالمیہ یہی ہے کہ ہم اس سے سبق سیکھنے کی بجائے نئے المیوں کو دعوت دیتے ہیں، اور رونما ہونے پر مرثیہ خوانی شروع"فی الوقت گوادر جہاں وزیراعظم کی قائم کردہ دو رکنی وزراء کمیٹی (اسد عمر اور زبیدہ جلال) نے گوادر دھرنے کے شرکا کے نمائندوں، مولانا ہدایت الرحمٰن ، اور دیگر سے ملاقات میں ابتدائی بات چیت کی ہے۔ وفاقی وزراء 31دن بعد دھرنے تک پہنچ پائے۔ تصور کیجئے ہزاروں مردوزن اور بچے، پچھلے 32دنوں سے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں۔ 29دن تک مین سٹریم کہلانے والے ذرائع ابلاغ نے اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔

اس دھرنے کی پہلی نمایاں خبر اس وقت سامنے آئی جب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق خطاب کے لئے پہنچے۔ دوسری خبر فقط سنگل کالمی تھی، وہ عوامی ورکر پارٹی کے صدر یوسف مستی خان کی بغاوت کے مقدمہ میں گرفتار کی۔ مین سٹریم کہلاتے، میڈیا کی بلاجانےیوسف مستی خان کون ہیں۔ بغاوت کا یہ مقدمہ ان کی اس تقریر پر درج ہوا جو انہوں نے گوادر دھرنے کے شرکا میں کی تھی۔ یوسف مستی خان معروف ترقی پسند سیاستدان ہیں۔ نیپ، نیشنل عوامی پارٹی سے ان کے سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ یہ ان ماہ و سال کی بات ہے، جب نیشنل عوامی پارٹی اس ملک کے ترقی پسندوں کی سب سے بڑی جماعت تھی۔

بھٹو صاحب کے دور میں اس جماعت پر پابندی لگی، این ڈی پی اور اب اے این پی اسی کا تسلسل ہیں۔ اے این پی اب پشتون قوم پرست جماعت ہے۔ نیپ پر پابندی کے بعد حیدر آباد سازش کیس بنا، یہ مقدمہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے واپس لیا اور حیدر آباد سازش کیس کے قیدی رہا ہوگئے۔ اسیری کے زمانے میں پشتون اور بلوچ رہنمائوں کے درمیان اختلافات نے جنم لیا۔ ان اختلافات کی کہانی پھر سہی مگر یہی اختلافات دونوں قوموں کے بڑے رہنمائوں کے جدا جدا سیاسی سفر کی بنیاد بن گئے۔

خان عبدالولی خان اور ان کے پشتون دوستوں نے این ڈی پی کے پلیٹ فارم سے سیاست شروع کی۔ میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی قائم کی۔ سندھ، سرائیکی وسیب پنجاب اور بلوچستان کے معروف ترقی پسند رہنما ان کے ساتھ چلے گئے۔ یوسف مستی خان بھی ان میں شامل تھے۔ انہوں نے ساری عمر شرف انسانی، جمہوریت اور دستور کی بالادستی کے لئے جدوجہد کی، اب بھی وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود کراچی سے گوادر پہنچے، جہاں انہوں نے دھرنے سے خطاب کیا۔ بغاوت کا مقدمہ درج ہوا اور گرفتار کرلئے گئے۔

اس دھرنے سے سراج الحق نے بھی خطاب کیا تھا، کوئی مقدمہ درج ہوا؟ پتہ کرلیجئے اس سوال کے جواب سے آپ کو یہ موقف سمجھنے میں آسانی رہے گی، کہ گوادر اور بلوچستان میں لوگ کیوں یہ کہتے ہیں کہ "کوئی " گوادر کا سیاسی انتظام جماعت اسلامی کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ " اس " کیلئے مشکلات پیدا نہ ہوں، گوادر دھرنا بنیادی شہری حقوق، سیاسی آرزووں، امن تعلیم، صحت اور تعمیروترقی کے خوابوں کی تعبیر کے لئے ہے۔ منشیات کی سمگلنگ اور فروخت کے خاتمے کے ساتھ، چیک پوسٹوں کا جنگل ختم کرانے کے لئے دیئے گئے اس دھرنے کے بعد 29دن تک، بلوچستان کی صوبائی حکومت " ڈبل گرم کمبل" اوڑھے سوئی رہی۔

اس دوران ایک دو بیانات ضرور دیئے گئے، لیکن مذاکراتی کمیٹی اس وقت قائم کی گئی جب کوئٹہ میں یہ خبر پہنچی، کہ وزیراعظم نے گوادر دھرنے کا نوٹس لے لیا ہے۔ دھرنے والوں اوران کے ہمدردوں کا موقف ہے، کہ چیک پوسٹوں کا جنگل بنے اس شہر میں کسی "اور" کے احکامات چلتے ہیں۔ یہ کون ہے اس پر بات کرتے ہوئے زبانیں تالو سے جالگتی ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ معاملہ نبیڑنے کا "اشارہ" ملا تو نوٹس نوٹس کھیلا گیا۔ ورنہ کیا صوبائی حکومت کو معلوم نہیں کہ ہزاروں مردوزن اور بچے، کھلے آسمان کے نیچے 15نومبر سے دھرنا دے کر بیٹھے ہیں؟ معاف کیجئے معلوم تھا، لیکن کیا بلوچستان کی حکومت کے پاس ملک کے باقی تین صوبوں کے کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے برابر اختیارات ہیں؟

اگر آپ اس سوال کا جواب تلاش کرلیں تو معاملات کوسمجھنے میں آسانی رہے گی۔ معاف کیجئے گا یہ کوئی سازشی تھیوری نہیں تلخ ترین حقیقت ہے۔ ورنہ جدیدیت سے گاوں بنے کرہ ارض میں، یہ کیسے ممکن ہے کہ 15نومبر سے گوادر میں دھرنا اور احتجاج جاری ہو اور صوبائی حکومت اس سے لاعلم رہے۔ گوادر بھی ویسا ہی شہر ہے جیسے دوسرے سرحدی و ساحلی شہر ہوتے ہیں۔ خفیہ اہلکاروں کی بھرمار، ہر خبر پر نظر اور سانس شماری۔ وہ دوست جو یہ سوال کرتے ہیں، کہ گوادر میں بندرگاہ کی تعمیروتوسیع کے ساتھ ہی شہر میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیوں شروع نہیں کیا گیا، ان کا سوال سو فیصد درست ہے۔

خطے میں بڑی اور جدید بندرگاہ بنانے والوں نے ساحلی شہر کو، جدید سہولتوں سے منظم کرنے کی منصوبہ بندی کی ضرورت کو کیوں نظرانداز کیا۔ کیا انہیں مقامی آبادی کی ضرورتوں، محرومیوں، مسائل اور ان معاملات سے آگاہی نہیں تھی، جن سے بگاڑ اور دوریاں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہے تھے؟ اب کہا جارہاہے کہ وفاقی وزراء کی کمیٹی کے مذاکرات تسلی بخش طور پر آگے بڑھے، تو بلوچستان کے وزیراعلیٰ بھی مذاکراتی عمل میں شریک ہوں گے۔

ارے واہ یہ تو چمتکار ہوگا۔ یہاں اصل المیہ یہی ہے۔ وہ یہ کہ دھرنے والوں کی قیادت یقیناً جماعت اسلامی والے مولانا ہدایت الرحمٰن کے پاس ہے، مگر شرکائے دھرنا تو وہی ہیں، قومی سیاسی شعور کی دولت سے مالامال، اسی لئے تو مردوزن اور بچے 31دنوں سے دھرنے میں بیٹھے ہیں۔ دھرنا پرامن ہے تو یہ ماہی گیر خاندانوں کے سیاسی شعور، صبر اور امن پسندوں سے دوٹوک محبت کا نتیجہ ہے۔ خوفزدہ کون ہے؟ وہی جو یہ سمجھتے ہیں، دھرنے والوں کے 14 مطالبات تسلیم ہوجانے کی صورت میں بہت سارے دھندے ختم ہوجائیں گے۔

یہ بجا ہے کہ دھرنے والوں کا اہم ترین اور پہلا مطالبہ، ٹرالرز کے ذریعے ہونے والی غیرقانونی ماہی گیری کو بند کروانے کا ہے۔ اس غیرقانونی ماہی گیری کی وجہ سے صدیوں سے کشتیوں کے ذریعے، ماہی گیری سے منسلک ہزاروں خاندانوں کے ذریعے روزگار پر خودکش حملہ ہوا ہے، لیکن دوسرے مطالبات، بجلی، پینے کے صاف پانی، جدید ہسپتال کا قیام، یونیورسٹی کو جدید خطوط پر منظم کرنا، چیک پوسٹوں کا خاتمہ، سمگلنگ کی روک تھام، بھتہ گیری کا صفایا اور شہر میں جدید سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ مقامی لوگوں کو ملازمتوں میں حصہ دینے کا مطالبہ۔

کیا یہ سارے مطالبات اپنی صوبائی اور وفاقی حکومت سے کئے جارہے ہیں یا کسی فاتحہ سے مفتوحین کررہے ہیں؟ "تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہم اس سے سبق سیکھنے کی بجائے نئے المیوں کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور رونما ہونے پر مرثیہ خوانی شروع"۔

پسِ نوشت: کالم لکھ چکا تو گوادر سے دوستوں نے اطلاع دی کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان آج جمعرات کی شام پانچ بجے گوادر تشریف لارہے ہیں۔

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad