Ulma e Islam Par Tanqeed?
عُلمائے اِسلام پر تنقِید؟

اِسلام ایک مُکمل ضابطۂ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کو اخلاق، کردار، عِلم، عدل، امن اور انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ دِینِ فِطرت ہے جو ہر دَور کے انسان کو سکونِ قلب، راہِ ہدایت اور زندگی کا صحیح مقصد عطا کرتا ہے۔ اِسلام کی تعلیمات کتاب و سنت کی بنیاد پر چلتی ہیں اور ان تعلیمات کو سمجھنے، سِکھانے، پھیلانے اور عمل کروانے کے لیے ایک طبقہ ہر دَور میں موجود رہا ہے، جسے ہم عُلمائے دِین کہتے ہیں۔
یہی وہ طبقہ ہے جس نے خُونِ جگر دے کر، جیلیں کاٹ کر، وطن چھوڑ کر اور جانیں قربان کرکے دِینِ اِسلام کو ہم تک پہنچایا۔ افسوس! آج کے کچھ گمراہ ذہن اور خود ساختہ "باشعُور" لوگ انہی عُلمائے کرام کے خلاف زبان دَرازی کو "روشن خیالی" اور "آزادیٔ رائے" کا نام دیتے ہیں۔ وہ اِسلام کے خلاف بولنے کو "ترقّی" سمجھتے ہیں اور عُلمائے دِین کی عزّت کرنے کو "رُجعت پسندی" کہتے ہیں۔ مگر درحقیقت یہ تنقِید نہیں، بلکہ ایک خطرناک ذہنی اور روحانی بیماری ہے، جو آہستہ آہستہ معاشرے کے ایمان، اخلاق اور اقدار کو نگل رہی ہے۔
جو لوگ عُلمائے دِین پر تنقِید کرتے ہیں، اُنہیں چاہیے کہ پہلے عُلمائے کرام کی قربانیاں اور خدمات کا مطالعہ کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عِلم کی شمع کو اندھیروں میں جلائے رکھا۔ جب دُنیا مغرب کی چمک دمک میں کھو چکی تھی، یہ عُلماء ہی تھے جو قُرآن کی تعلیمات، حدیث کی روشنی، فقہ کی بصیرت اور اُمّت کی رہنمائی کے لیے سینہ سپر رہے۔
برصغیر کے عُلماء نے آزادی کی تحریکوں میں کردار ادا کیا، تعلیم کے ادارے قائم کیے، فِتنوں کا سدباب کیا اور اُمّت کو حق و باطل میں فرق کرنا سِکھایا۔ اِسلام اور عُلمائے اِسلام پر تنقِید کرنے والے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا دِین سے تعلق نہایت سطحی یا محض زبانی ہوتا ہے۔ جب قُرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھا جائے، جب سیرتِ طیبہ کو دل سے سمجھا جائے، جب صحابۂ کرام کے جذبۂ قربانی کو جانا جائے، تو دل خود بخود جھک جاتا ہے، زبان ادب میں ڈھل جاتی ہے اور انسان عُلمائے حق کی خدمات کو سلام کرتا ہے۔
جو زبان عُلمائے دِین کے خلاف زہر اُگلتی ہے، وہ دراصل اپنی بدبختی کا اعلان کرتی ہے۔ ایک معمولی مکینک کے بغیر گاڑی خراب ہو جائے تو لوگ اُسے ہاتھ جوڑ کر بلاتے ہیں، ایک موچی جوتا خراب ہونے پر بے ادبی برداشت نہیں کرتا، تو پھر کیا دِین کے ماہرین، اُمّت کے روحانی طبیب اور حق و باطل کے پہچاننے والے عُلمائے کرام کو گالی دینا "آزادیٔ رائے" کہلائے گا؟
تنقِید برائے اصلاح ہونا چاہیے، نہ کہ توہین برائے شہرت۔ اگر کوئی عالِم غلطی کرے تو شریعت میں اُس کا طریقہ موجود ہے۔ خود صحابہ کرام نے بھی بعض اوقات سوالات کیے، مشورہ دیا، مگر ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور یہ ادب ہی عِلم کا پہلا زینہ ہے۔ جو شخص عِلم سے بے بہرہ ہوتا ہے، وہی دوسروں کے عِلم پر سوال اُٹھاتا ہے اور جو عِلم والے پر تنقِید کرتا ہے، وہ دراصل خود کو ننگا کر رہا ہوتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے ہر نادان کو زبان دی، ہر جاہل کو پلیٹ فارم دیا اور ہر بے عِلم کو تبصرہ نگار بنا دیا۔ نتیجہ؟ دِین کے خلاف بولنا فیشن بن گیا۔ عُلمائے کرام پر لطیفے، میمز اور طنز کے جملے "وائرل" ہونے لگے۔ مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ جن کی آج توہین کی جا رہی ہے، انہی کی دعاؤں سے شاید ہماری نسلیں بچی ہوئی ہیں، انہی کے مدرسوں سے تعلیم یافتہ ہو کر ہم نے قُرآن کا ایک حرف سیکھا ہے۔
عُلماء کو فرشتے نہیں کہا جا رہا، وہ انسان ہیں، خطا ہو سکتی ہے، مگر دِین دشمنی میں یہ کہنا کہ "تمام عُلماء خودغرض ہیں، دِینی طبقات پسماندہ ہیں، اِسلام انسان کو پیچھے لے جاتا ہے"۔۔ یہ تو کُفر کے دروازے پر دستک دینے والی بات ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خود قُرآن میں فرمایا: "فَاسُأَلُوا أَهُلَ الذِّكُرِ إِن كُنتُمُ لَا تَعُلَمُونَ" (الأنبیاء: 7)
یعنی: اگر تم نہیں جانتے تو عِلم والوں سے پوچھ لو۔
یہ آیت اہلِ عِلم کی ضرورت، اُن کی فضیلت اور اُن کی ذمہ داری کو واضح کرتی ہے۔
آج اگر ہم چاہیں کہ اُمّت بیدار ہو، نوجوان نسل دِین کی طرف لوٹے، معاشرہ برائی سے بچے، تو ہمیں عُلماء کا ادب سیکھنا ہوگا۔ جن قوموں نے اپنے علما کی بے ادبی کی، وہ تباہ ہوگئیں۔ جنہوں نے اپنے دِین کو تنقِید کی بھینٹ چڑھایا، وہ بے سکون ہوگئیں۔ جبکہ جن قوموں نے دِین اور علما کا ساتھ دیا، وہ دُنیا میں بھی کامیاب ہوئیں اور آخرت میں بھی۔
لہٰذا ان سب لوگوں کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں جو دِین کے خلاف بات کرتے ہیں، عُلمائے کرام کو نشانہ بناتے ہیں: اپنی زبان کو روکیے، اپنے عِلم کو بڑھائیے اور اپنی اصلاح کیجیے۔ تنقِید کا ہنر سیکھیں، مگر اس میں ادب کا تڑکا ضرور لگائیں۔ عُلمائے دِین آپ کے دُشمن نہیں، آپ کی نجات کا ذریعہ ہیں۔ اِسلام آپ کی ترقّی کی راہ میں رُکاوٹ نہیں، بلکہ روشنی کی وہ مشعل ہے جو اندھیروں میں راستہ دِکھاتی ہے۔
آئیے! ہم سب مِل کر دِین کا دفاع کریں، عُلمائے کرام کی عزّت کریں اور معاشرے میں شعور و اصلاح کی ایسی لہر چلائیں جو فتنہ پرور ذہنوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دے۔ کیونکہ اِسلام کی سربلندی میں ہی ہماری بقاء ہے اور عُلمائے دِین کی رہنمائی میں ہی ہماری نجات۔

