Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Usama Razzaq
  4. Musalman Wo Hai

Musalman Wo Hai

مسلمان وہ ہے

انسانی معاشرت میں امن و سکون کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ رہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حقیقت کو نہایت جامع اور مختصر انداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه" (صحیح بخاری، صحیح مسلم) یعنی "مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے"۔ یہ حدیث نہ صرف اسلام کے اخلاقی معیار کی بنیاد رکھتی ہے بلکہ ہمارے روزمرہ کے معاملات میں ایک آئینہ فراہم کرتی ہے کہ حقیقی مسلمان کون ہے اور اس کی عملی پہچان کیا ہے۔

اسلام کی تعلیمات محض عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ایک مسلمان کے کردار کا سب سے پہلا امتحان اس کی زبان اور ہاتھ میں ہے۔ زبان اگر قابو میں نہ ہو تو یہ محبت کے رشتے توڑ دیتی ہے، دلوں میں نفرت بھرتی ہے اور معاشرے میں فتنہ پھیلاتی ہے۔ اسی طرح ہاتھ کا غلط استعمال ظلم، زیادتی اور حق تلفی کا سبب بنتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند کیا کہ تمہاری ذات سے دوسروں کو صرف خیر پہنچے، نقصان نہیں۔

بدقسمتی سے آج کے معاشرے میں اس حدیث پر عمل نہ کرنے کے باعث بے شمار مسائل جنم لے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ، الزام تراشی اور کردار کشی زبان کے فتنے کی واضح مثال ہے۔ لوگ بغیر تحقیق کے ایک دوسرے پر تہمت لگاتے ہیں اور چند لمحوں میں کسی کی عزت خاک میں ملا دیتے ہیں۔ یہی زبان جب قابو میں ہو تو دعاؤں اور ذکرکے ذریعے انسان کے درجات بلند کر دیتی ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ زیادہ تر لوگ اپنی زبان کے سبب جہنم میں جائیں گے۔ گویا ایک مسلمان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور صرف بھلائی کے کلمات ادا کرے۔

اسی طرح ہاتھ سے مراد صرف جسمانی طاقت یا مارپیٹ نہیں بلکہ ہر وہ عمل ہے جو دوسروں کے نقصان کا باعث بنے۔ رشوت لینا، ڈاکہ ڈالنا، چوری کرنا، کسی کا حق دبانا یا طاقت کے زور پر کمزور کو ظلم کا نشانہ بنانا سب اس میں شامل ہے۔ معاشرے میں اگر ہر شخص اس حدیث کو اپنا معیار بنا لے تو ظلم و زیادتی کا نام و نشان ختم ہوجائے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسلمان کی تعریف کرتے وقت "دوسرے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے" کی بات فرمائی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ بدسلوکی کی اجازت ہے۔ اسلام کا اصل مزاج امن و سلامتی ہے اور قرآن مجید میں ارشاد ہے: "والله يحب المحسنين" (اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)۔ لہٰذا حقیقی مسلمان تو وہ ہے جو ہر انسان کے لیے رحمت اور خیر کا ذریعہ بنے۔

یہ حدیث ہمیں ایک اور حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اسلام صرف ظاہری دعوؤں کا نام نہیں بلکہ اعمال اور اخلاق کا دوسرا نام ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ اپنی جگہ نہایت اہم ہیں لیکن اگر ان کے باوجود ہماری زبان اور ہاتھ دوسروں کے لیے اذیت کا سبب بنیں تو پھر ہماری عبادات بے وزن ہو جائیں گی۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک صحابی نے ایک عورت کا ذکر کیا جو رات بھر نماز پڑھتی اور دن بھر روزہ رکھتی مگر اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ جہنمی ہے"۔ (مسند احمد)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے اخلاق اور رویے اس کی اصل پہچان ہیں۔

آج ہم جس معاشرتی بگاڑ کا شکار ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے دین کے اس بنیادی اصول کو فراموش کر دیا ہے۔ سیاست میں مخالفین پر الزام تراشی، کاروبار میں جھوٹ اور دھوکہ، گھریلو زندگی میں ایک دوسرے کو اذیت دینا، سب اسی حدیث کی خلاف ورزی ہیں۔ اگر ہر مسلمان یہ عہد کر لے کہ میری زبان سے کوئی بری بات نہیں نکلے گی اور میرے ہاتھ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا تو یقین جانیں ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ زبان اور ہاتھ کو قابو میں رکھنا آسان نہیں۔ اس کے لیے دل میں خوف خدا اور ایمان کی پختگی ضروری ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ تقویٰ ہی وہ قوت ہے جو انسان کو برائی سے بچاتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: "جس نے مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دی، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں"۔ (بخاری)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کی کامیابی کا راز اس کے کردار کے کنٹرول میں ہے۔

اس حدیث کے دوسرے حصے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے"۔ یعنی اصل ہجرت محض شہر یا ملک بدلنے کا نام نہیں بلکہ اپنے نفس کو برائیوں سے نکالنے کا عمل ہے۔ جو شخص جھوٹ، غیبت، سود، ظلم، بے حیائی اور حرام کاموں کو چھوڑ دیتا ہے وہی حقیقی مہاجر ہے۔ اس تعریف نے ہجرت کے تصور کو وسیع کر دیا ہے اور ہر مسلمان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ جہاں بھی ہو، اگر اللہ کی نافرمانی چھوڑ دے تو مہاجر کہلانے کے لائق ہے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہونا صرف نام رکھنے یا کلمہ پڑھ لینے کا نام ہے۔ لیکن اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اصل مسلمان وہ ہے جو اپنے عمل سے دوسروں کو سکون پہنچائے۔ اگر ایک شخص نماز پڑھتا ہے لیکن ساتھ ہی جھوٹ بولتا ہے یا دوسروں کو گالیاں دیتا ہے تو اس کا اسلام ادھورا ہے۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے: "قد أفلح المؤمنون" (یقیناً ایمان والے کامیاب ہوگئے) اور پھر ان کے اوصاف میں بتایا کہ وہ لغو باتوں سے بچتے ہیں۔

یہاں ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسروں کے لیے کتنے محفوظ ہیں۔ کیا ہمارے پڑوسی، رشتہ دار اور دوست ہم سے مطمئن ہیں؟ یا وہ ہماری تلخ باتوں، بدگمانی اور سخت رویے سے پریشان ہیں؟ ایک اچھا مسلمان اپنی ذات کو دوسروں کے لیے راحت اور سکون کا ذریعہ بناتا ہے۔

آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اگر اس حدیث پر حقیقی معنوں میں عمل کر لیا جائے تو نہ صرف انفرادی زندگی میں سکون آئے گا بلکہ اجتماعی طور پر بھی امت مسلمہ دنیا کے لیے ایک نمونہ بن جائے گی۔ موجودہ دور میں اسلاموفوبیا اور منفی پروپیگنڈے کے خاتمے کے لیے سب سے مؤثر ہتھیار یہی ہے کہ مسلمان اپنے اخلاق سے دنیا کو متاثر کریں۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ مسلمان کے ہاتھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور اس کی زبان سے صرف خیر نکلتا ہے تو وہ خود اسلام کی طرف مائل ہوں گے۔

Check Also

Israr Ul Haq Majaz Se Majaz Lakhnavi Tak Ka Safar

By Rehmat Aziz Khan