Mere Ustaz Mere Murabbi, Dr. Faiz Ahmad Bhatti
میرے استاذ میرے مربی، ڈاکٹر فیض احمد بھٹی

زندگی کے سفر میں بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں، جو انسان کے ذہن پر مہر ثبت کر دیتی ہیں۔ ان کی شفقت، تربیت، علم اور عمل کا اثر وقت کے ساتھ ماند نہیں پڑتا، بلکہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ میری زندگی میں اگر کسی شخصیت نے میری سوچ کو نکھارا، میری تعلیم و تربیت کو معطر کیا، میرے قلم کو جلا بخشی اور مجھے ایک سنجیدہ مدرس و لکھاری بننے کی راہ دکھائی، تو وہ میرے استاذ محترم، ممتاز مذہبی سکالر، معروف کالم نگار، فاضلِ مدینہ یونیورسٹی ڈاکٹر فیض احمد بھٹی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب میرے لیے صرف ایک اُستاذ نہیں، بلکہ ایک رہنما، مربی اور روحانی شخصیت ہیں۔ ان کے اخلاق اور اندازِ تربیت نے میرے دل پر گہرا نقش چھوڑا ہے۔ وہ ان اساتذہ میں سے ہیں جو شاگرد کو محض پڑھاتے نہیں، بلکہ اس کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچان کر اُسے نکھارنے کا ہنر جانتے ہیں۔ میں آج جو کچھ پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کے قابل ہوا ہوں اور گفتگو کو سلیقہ مندی سے پیش کرنے کا جو شعور پایا ہے یہ سب کچھ ان کی شب و روز محنت، رہنمائی اور بے پناہ محبت کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے تعلیم کے ساتھ تربیت کو ہمیشہ اپنا شعار بنایا۔ وہ اساتذہ کی اُس نایاب کیٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے دل میں شاگرد کے لیے باپ جیسا درد اور رہنمائی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے۔ ان کے پاس بیٹھنا محض علمی مجلس نہیں ہوتی، بلکہ ایک ایمانی و روحانی تجربہ بھی ملتا ہے۔ ان کے الفاظ میں تاثیر، لہجے میں نرمی اور باتوں میں علم و حکمت کی خوشبو چھلکتی ہے۔
ان کی علمی اور فکری گہرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عظیم علمی کتاب "خلاصۃ القرآن من فیض الرحمن" کے مصنف ہیں۔ یہ کتاب ان کے علم، تدبر اور قرآن سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس نے بھی یہ کتاب پڑھی، وہ ان کی علمی بصیرت اور قرآنی فہم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ میں خود یہ کتاب پڑھنے کی کئی بار سعادت حاصل کر چکا ہوں اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب ایک عام قاری کے لیے قرآنِ کریم کو سمجھنے میں نہایت مددگار ثابت ہوتی ہے۔ میں قارئین کو تلقین کرتا ہوں کہ وہ اسے ضرور پڑھیں، کیونکہ یہ کتاب دل و دماغ کو منور کرتی اور اللہ سے ملاتی ہے۔
ڈاکٹر فیض احمد بھٹی اس وقت "روزنامہ صدائے مسلم جہلم / راولپنڈی" کے ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین ہیں اور ساتھ ہی "ڈیلی خبرنامہ اسلام آباد" کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کے کالمز، تجزیے اور تبصرے علمی بصیرت، سچائی، حب الوطنی اور دردِ اُمت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ وہ قلم کو محض اظہار خیال کا ذریعہ نہیں، بلکہ اصلاحِ معاشرہ اور اتحاد امت کےلیے ایک قیمتی ہتھیار سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں صرف عقل کو نہیں، بلکہ دل کو بھی چھو لیتی ہیں۔
جہلم میں قائم ادارہ "ابنِ عباس اسلامک ریسرچ سنٹر" ان کے عظیم خوابوں کی تعبیر اور ان کے علمی شغف کا گہوارہ ہے۔ یہ ادارہ علم و کردار کا ایسا مرکز ہے، جہاں بچوں کو تعلیم کے ساتھ خصوصی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ اس ادارے کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بذات خود وہاں تربیتی نشستوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ وہ بچوں سے محبت بھرا برتاؤ کرتے ہیں، ان کے سوال سنتے ہیں، رہنمائی فرماتے ہیں اور ہر ایک کے دل میں علم و عمل کا شوق جگاتے ہیں۔
راقم کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اُن کے زیرِ سایہ علم حاصل کر رہا ہے۔ وہ اب بھی مجھے بذاتِ خود پڑھاتے ہیں، میری تحریروں کو دیکھتے ہیں، اصلاح فرماتے ہیں اور ہر قدم پر رہنمائی کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی تحریر لکھتا ہوں تو اُن کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجتے ہیں: "بیٹا! حق سچ لکھنا عبادت ہے، قلم امانت ہے اور تحریر ایک ذمہ داری ہے"۔ یہ جملے میرے لیے درسِ حیات بن چکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی ذوقیات کا ایک نہایت حسین پہلو عشقِ رسول ﷺ ہے، جس کے پیش نظر وہ اکثر حدیث بیانی اور نعت گوئی میں محو رہتے ہیں۔ انہیں حمد و نعت لکھنے اور پڑھنے میں ید طولٰی حاصل ہے۔ ان کی لکھی ہوئی نعتوں میں وہ روحانی کیفیت محسوس ہوتی ہے، جو دل کو نم کر دیتی ہے۔ میں نے خود کئی مواقع پر دیکھا کہ جب وہ نعت شریف پڑھتے ہیں، تو اُن کی آواز میں عاجزی اور چہرے پر محبت رسول ﷺ کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر قرآن و حدیث کی حدود و قیود میں رہ کر نعت گوئی کی جائے تو وہ درود و سلام پڑھنے کے مترادف ہوتی ہے۔
تقریر کے میدان میں بھی استاذِ محترم صفِ اوّل کے خطیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا اندازِ گفتگو ایسا مُؤثر اور جاندار ہوتا ہے کہ سننے والا لمحہ بھر کے لیے بھی توجہ ہٹانے کا نہیں سوچ سکتا۔ وہ اپنے پختہ لب و لہجے، پُر اثر الفاظ اور منفرد انداز سے سامعین کے دلوں میں اُتر جاتے ہیں۔ عربی زبان پر ان کو ایسا عبور حاصل ہے کہ جب وہ عربی میں خطاب کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے گویا عربی ان کی مادری زبان ہو۔ ان کے الفاظ کی روانی، تلفظ کی صفائی اور فصاحت و بلاغت کا انداز ایسا دلکش ہوتا ہے کہ عرب شیوخ بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ ایک عجمی اتنی فصیح عربی کیسے بول رہا ہے۔ ان کا خطاب صرف سنا نہیں جاتا، بلکہ دلوں میں اتر کر ایمان و جذبہ دونوں کو تازہ کر دیتا ہے۔
ان کی شفقت کا ایک اور پہلو بھی میرے دل کے قریب ہے کہ جہاں بھی کوئی دینی پروگرام، کانفرنس یا علمی نشست ہوتی ہے، وہاں مجھے اپنے ساتھ لے جانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ عمل محض عنایت نہیں، بلکہ عملی تربیت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے شاگرد کتابی علم کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں بھی تجربہ حاصل کریں، لوگوں سے ملیں، مشاہدہ کریں اور سیکھیں۔ میرے والدِ محترم ٹھیکیدار عبدالرازق مرحوم، ڈاکٹر صاحب کے نہایت قریبی دوست اور مخلص ساتھی تھے۔ والد گرامی کی وفات کے بعد جب میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہوں، تو انہوں نے نہ صرف میری بات سنی، بلکہ شفقت بھرے لہجے میں فرمایا: "بچو! آپ میرے پاس آ جائیں، میں تمہیں خود پڑھاؤں گا" یہ جملہ آج بھی میرے دل میں منقوش ہے۔ وہ دن میری زندگی کا ایک نیا آغاز تھا۔ اس کے بعد میں ان کے ادارے "ابنِ عباس اسلامک ریسرچ سنٹر" میں آگیا اور تب سے آج تک اُن کے زیرِ سایہ سیکھنے اور سنورنے کا عمل جاری ہے۔
یاد رہے! ڈاکٹر فیض احمد بھٹی ایک ایسے استاد ہیں جو شاگردوں کے دلوں میں اُتر جاتے ہیں۔ ان کی محبت میں خلوص، ان کی رہنمائی میں روشنی اور ان کی شخصیت میں وہ کرشمہ ہے، جو انسان کو بدل دیتا ہے۔ آپ نے کئی مقامات پر باقاعدہ تدریسی فرائض سر انجام دیے۔ آپ سے سینکڑوں افراد نے براہِ راست تعلیم و تربیت حاصل کی۔ آپ اکثر و بیشتر اپنے شاگردوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، خاص کر: صاحبزادہ حافظ ساجد محمد مدنی، پروفیسر ڈاکٹر ذبیح الرحمٰن ہزاروی، چوہدری بابر علی زاہد آف پتوکی، حکیم ریاض احمد رانجھا آف منڈی بہاؤالدین، شیخ محمد کاشف اثری آف منڈی بہاوالدین، حکیم نصراللہ گوندل آف منڈی بہاؤالدین، حافظ فہد آف منڈی بہاوالدین، مولانا سمیع اللہ آف منڈی بہاؤالدین، قاری شمریز اختر آف کھیوہ، حافظ عرفان مغل آف جہلم، حافظ رضوان احمد صدیقی آف جہلم، محمد عدنان آف جہلم، قاری عبدالوکیل غازی آف راولپنڈی، قاری عبدالمتین آف پوران، حافظ محمد اشتیاق آف سیالکوٹ، مولانا ابوبکر یزدانی آف میر پوری، قاری محمد احمد آف آدھی کوٹ، قاری محمد ابراھیم کنگن پوری، قاری نجی اللہ، عمر زرگر آف یوکے، مولانا محمد اقبال آف نیپال اور راقم الحروف کو اپنے فرماں بردار شاگردوں میں شمار کرتے ہیں۔
سچ پوچھیے! میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اللہ نے مجھے ان جیسا مخلص استاد عطا فرمایا۔ آخر میں ہاتھ اٹھا کر دل سے دعا کرتا ہوں: یا اللہ! میرے استاد گرامی کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی عطا فرما، ان کے علم و عمل میں برکت دے، ان کے قلم کو مزید تاثیر عطا فرما اور ہمیں ہمیشہ ان کے فیض سے مستفید ہونے کی توفیق دے۔

