Mere Ustad e Mohtaram, Yaadon Ke Aaine Mein
میرے استادِ محترم، یادوں کے آئینے میں

تعلیم و تربیت کا پہلا چراغ جو راہِ علم میں روشن کیا جاتا ہے، وہ اکثر وہی ہوتا ہے جس کی روشنی عمر بھر دل و دماغ میں جگمگاتی رہتی ہے۔ اس پہلی روشنی کا اثر زندگی بھر قائم رہتا ہے۔ استاد محض کتابی علوم کا نام نہیں، بلکہ وہ زندگی کی وہ ابتدائی سمتیں متعین کرنے والا مینار ہوتا ہے، جو آنے والے وقتوں میں انسان کی سوچ، کردار اور وقار کی بنیاد بنتا ہے۔ میرے لیے یہ مینارِ علم، یہ چراغِ ہدایت، یہ رہنما ہستی کوئی اور نہیں بلکہ ماسٹر ارشاد احمد حقانی صاحب ہیں، راقم الحروف کے ابتدائی تعلیمی سفر کے معمار، میرے دل کے استاد۔
راقم الحروف نے پہلی جماعت سے پنجم تک گورنمنٹ ہائی سکول کنگن پور نزد پانی والی ٹینکی میں ان کی زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کی۔ یہ محض تعلیم کا زمانہ نہیں تھا، یہ تربیت کا سنہرا دور تھا۔ استادِ محترم کی شخصیت جتنی باوقار، اتنی ہی دلنشیں اور جاذبِ نظر تھی۔ سفید رنگت، متوازن سیاہ و سفید داڑھی، درمیانہ قد، جھکی نظریں جو عاجزی اور وقار کا حسین امتزاج تھیں، نرم و ملائم لہجہ جو دلوں میں اتر جائے اور آنکھوں پر وہ عینک جس سے نہ صرف تحریریں بلکہ شاگردوں کے دلوں کی کیفیت تک پڑھ لیتے تھے، یہ سب کچھ ان کی شخصیت کو ایسا حسن عطا کرتا تھا جو آج بھی دل کے آئینے میں عکس بن کر جگمگاتا ہے۔
وہ کلاس روم میں صرف استاد نہیں، ایک مربی، ایک رہنما، ایک مشفق باپ کی طرح ہوتے تھے۔ ان کا اندازِ تدریس اپنی مثال آپ تھا۔ پہلی جماعت کے انچارج ہونے کے ساتھ ساتھ، وہ مختلف کلاسوں میں انگلش گرائمر پڑھایا کرتے تھے اور اس علم میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ انہوں نے ہمیں بھی اعلیٰ درجے کی انگلش سکھا دی، گویا ہم چھوٹی کلاسوں میں بھی خود کو کسی بڑے ادارے کے فاضل طالبعلم محسوس کرنے لگے۔ ان کا یہ فن صرف مضمون تک محدود نہ تھا، وہ لفظوں میں تربیت چھپا کر دیتے تھے، حروف میں محبت سموتے تھے اور جملوں میں کردار سازی کی راہیں دکھاتے تھے۔
یادوں کی جھولی میں ان کے ساتھ بیتے لمحے موتیوں کی مانند جگمگا رہے ہیں۔ استادِ محترم ہمیشہ "بیٹا" کہہ کر بلاتے۔ اس ایک لفظ میں جو شفقت، محبت اور اعتماد ہوتا، وہ آج کی زندگی میں مفقود ہے۔ اگر کبھی کوئی چیز بھول جاتے یا کسی کام کی ضرورت ہوتی، تو راقم الحروف ہی کو بلا کر اعتماد سے بھیجتے۔ ان کا اعتماد ایک ایسا سرمایہ تھا جو زندگی بھر کی خوداعتمادی کا سرچشمہ بن گیا۔
بریک میں کھیلنے کے بجائے ہم اکثر استاد جی کے پاس بیٹھ جایا کرتے۔ بڑی کلاسوں کے طلباء بھی ان کے گرد جمع ہو جاتے۔ وہ زیرہ پلس بسکٹ منگوا کر سب کو محبت سے کھلاتے اور علمی گفتگو کے ساتھ ساتھ دلوں کو بھی تسکین دیتے۔ ان کی مجلس میں محبت کے سوا کچھ نہ تھا، ڈر یا خوف کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ ایسا لگتا کہ وہ استاد سے بڑھ کر ایک روحانی مرشد ہیں، جو نہ صرف علم دیتے ہیں بلکہ دلوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔
ان کے قریبی دوست اسحاق خادم قصوری صاحب بھی ایک مہذب اور باوقار شخصیت کے حامل تھے۔ دونوں اکثر ساتھ نظر آتے، چائے بھی اکٹھے پیتے اور تعلیمی گفتگو میں مشغول رہتے۔ اسحاق صاحب راقم الحروف سے بھی محبت سے پیش آتے۔ ان دونوں کی دوستی علم و اخلاص کی بنیاد پر قائم تھی۔ ایسے اساتذہ کی صحبت ایک نعمت سے کم نہیں ہوتی۔
استادِ محترم کی شخصیت جہاں علم، وقار اور محبت کا مجموعہ تھی، وہیں اُن کی جسمانی چستی اور کھیلوں سے محبت بھی قابلِ رشک تھی۔ انہیں ہاکی کھیلنے کا بےحد شوق تھا۔ وہ نہ صرف شوقیہ کھلاڑی تھے بلکہ ایک بہترین ہاکی پلیئر کے طور پر اسکول کے اساتذہ اور طلباء میں جانے جاتے تھے۔ ہاکی کے میدان میں ان کی پھرتی، اسٹک پر گرفت اور گیند پر کنٹرول ایسا تھا کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھتے۔ کئی بار وہ طلباء کے ساتھ خود بھی ہاکی کھیلتے اور ان لمحوں میں ان کا انداز ایسا بےتکلف اور دوستانہ ہوتا کہ ہم جیسے کم عمر طالبعلم خود کو ان کا قریبی محسوس کرتے۔ ان کی کھیل میں دلچسپی نے ہمیں بھی سکھایا کہ ایک کامیاب انسان صرف کتابوں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ جسمانی صحت اور کھیل میں بھی مہارت رکھتا ہے۔
استادِ محترم کو پودے لگانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ سکول ہو یا گھر، ہر جگہ سبزہ ان کی شخصیت کا عکس دکھاتا تھا۔ گویا زمین سے محبت، زندگی سے وابستگی اور فطرت سے تعلق ان کی شخصیت کا خاص حصہ تھا۔ سکول کی الماری کی چابی راقم الحروف کے پاس ہوتی اور کلاس سجانے کے مقابلے میں ہمیشہ میری کلاس بازی لے جاتی، جس کا کریڈٹ میرے استاد کی تربیت کو ہی جاتا ہے۔
جب ان کا تبادلہ کنگن پور اسکول میں ہوا تو پہلی ہی ملاقات کے بعد راقم الحروف کو کلاس مانیٹر بنا دیا گیا۔ یہ عزت و اعتماد کا ایسا لمحہ تھا جو آج بھی دل کے کسی گوشے میں محفوظ ہے، ایک ایسا تحفہ جس کی قیمت لفظوں میں نہیں بیان ہو سکتی۔ وہ شاگردوں کو صرف نصاب نہیں دیتے تھے، وہ عزت، وقار اور خوداعتمادی کا احساس بھی دیتے تھے۔
استادِ محترم نے راقم الحروف کی پہلی تقریر کے لیے بہت محنت کی۔ موضوع تھا: "قائداعظم محمد علی جناح کی پیدائش"۔ تقریر خود لکھ کر دی، یاد کروائی، بار بار سنا کر اصلاح کی اور آخر میں حوصلہ دیا:
"ڈرنا نہیں، جوش سے سنانا ہے"۔
انہوں نے آخری جملے کچھ یوں سکھائے تھے:
"ڈٹ کے رہے گا پاکستان! بٹ کے رہے گا ہندوستان!"
اور کہا تھا کہ ان جملوں پر دو مکے سٹیج پر مارنے ہیں۔ جب راقم الحروف نے ایسا کیا، تو مجمع حیرت زدہ ہوگیا۔ نتیجہ آیا تو پہلی پوزیشن میری تھی۔ استادِ محترم کی آنکھوں میں خوشی، چہرے پر فخر اور لبوں پر دعائیں تھیں۔ انہوں نے گلے لگا کر فرمایا:
"بیٹا، محنت کبھی ضائع نہیں جاتی! "
اگر کبھی کوئی غلطی ہو جاتی تو مارتے نہیں تھے، بلکہ نرمی سے سمجھاتے۔ صرف بار بار کی غلطی پر کبھی کبھار ڈانٹ دیتے، مگر اس میں بھی شفقت اور اصلاح کا جذبہ نمایاں ہوتا۔ ان کی ہر بات دل میں اتر جاتی اور انسان خود کو بہتر بنانے کی طرف مائل ہو جاتا۔ ان کا مخصوص جملہ آج بھی دل پر نقش ہے:
"بیٹا، محنت کرو، جتنی زیادہ ہو سکے۔ کامیابی اتنی ہی بڑی ملے گی! "
وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیتے۔ اکثر بچوں کو سفیدوں کے درختوں کے نیچے بٹھاتے، وہاں حمد و نعت سنتے اور پھر اخلاقیات و آداب پر پراثر گفتگو کرتے۔ محبت، خلوص، صفائی، وقت کی پابندی، بڑوں کی عزت، یہ سب ان کی تعلیمات کا حصہ تھا۔ ان کی باتوں میں ایک عجیب کشش ہوتی، جس سے دل بھی بدلتے اور کردار بھی سنورتے۔
راقم الحروف کی زندگی میں جو ادب، مطالعہ، بڑوں کا احترام اور دوستوں سے خلوص و مروت کا جذبہ ہے، یہ سب انہی کے لگائے ہوئے بیجوں کا ثمر ہے۔ اُن کی صحبت نے جو اثرات چھوڑے، وہ آج بھی میرے اندر زندہ ہیں۔ زندگی میں جتنی بھی کامیابیاں آئیں، ان کی دعاؤں، رہنمائی اور اعتماد کا بڑا حصہ ہے۔
آج بھی جب استادِ محترم سے ملاقات ہوتی ہے تو وہی پیار، وہی شفقت اور وہی خندہ پیشانی نظر آتی ہے۔ وقت چاہے کتنا ہی بدل جائے، وہ محبت نہیں بدلتی جو ایک سچے استاد کے دل میں اپنے شاگرد کے لیے ہوتی ہے۔ جب بھی کنگن پور جاتا ہوں، ان سے ملاقات میرے لیے صرف ایک رسمی سلام نہیں ہوتی، بلکہ روحانی سکون، خوشبو اور دل کو روشنی دینے والا لمحہ بن جاتی ہے۔
استادِ محترم صرف وہ نہیں جو نصاب مکمل کرواتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جو زندگی کے آئینے کو صاف کرتے ہیں، کردار سنوارتے ہیں اور دلوں میں محبت کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ ماسٹر ارشاد احمد حقانی صاحب جیسے اساتذہ کے لیے جتنا لکھا جائے، کم ہے۔ ان کی عظمت، ان کا اخلاص اور ان کی تربیت نے جو نقش چھوڑے، وہ وقت کی گرد سے مٹ نہیں سکتے۔
اللہ رب العزت ان کا سایہ تادیر سلامت رکھے، ان کی عمر دراز کرے اور ہمیں ان کی تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر آج ہم کسی مقام پر کھڑے ہیں، تو اس میں استاد کا خونِ دل، ان کی محنت، ان کی دعائیں شامل ہیں۔
ایسے استاد قوموں کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں اور ان کی قدر وہی کر سکتا ہے جس نے ان کے سائے میں تربیت پائی ہو۔

