Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Usama Razzaq
  4. Aqal e Kul Ka Mughalta, Kam Aqli Ki Meraj

Aqal e Kul Ka Mughalta, Kam Aqli Ki Meraj

عقلِ کل کا مغالطہ، کم عقلی کی معراج

انسان کا سب سے بڑا دشمن اگر کوئی چیز ہے تو وہ اس کا اپنا "تکبر" ہے اور تکبر کی سب سے خطرناک شکل یہ ہے کہ کوئی شخص خود کو عقلِ کل سمجھ بیٹھے۔ خود کو ہر علم، ہر معاملے، ہر فیصلے اور ہر فہم و بصیرت کا منبع و محور سمجھ لینا، گویا اپنے ذہن کے بت کو سجدہ کرنا ہے۔ یہ وہ ذہنی بیماری ہے جو نہ صرف انسان کی شخصیت کو مسخ کرتی ہے بلکہ معاشرے میں علم و فہم کے حقیقی دروازے بند کر دیتی ہے۔

آج کل کالم نگاری، تجزیہ نگاری اور سوشل میڈیا کی چکا چوند میں ایک نئی قسم کی "خود ساختہ دانشوری" جنم لے چکی ہے۔ ہر دوسرا شخص جو دو لفظ جوڑ لیتا ہے، وہ خود کو علامہ اقبالؒ، ابو الکلام آزاد یا اشفاق احمد کا جانشین سمجھنے لگتا ہے۔ افسوس کہ الفاظ کا ذخیرہ اور ادائیگی کا انداز تو وہ نقل کر لیتا ہے، مگر ان شخصیات کا تدبر، عاجزی اور علم کا سمندر کہیں نظر نہیں آتا۔

جس ذہن میں عاجزی نہ ہو، وہ ذہن علم کا گہوارہ نہیں بلکہ جہالت کا اڈہ بن جاتا ہے۔ عقلِ کل کا دعویٰ اصل میں کم عقلی کی سب سے بلند چیخ ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں ہی سب کچھ جانتا ہوں، باقی سب نادان ہیں، وہ اصل میں خود سب سے بڑا نادان ہوتا ہے۔ کیونکہ علم کا پہلا دروازہ ہی یہ اعتراف ہے کہ "مجھے سب کچھ نہیں آتا، مجھے سیکھنا ہے"۔

دانشور وہ ہوتا ہے جو اپنی ہر بات کے بعد کہے: "ممکن ہے میں غلط ہوں "، جبکہ جعلی دانشور ہر بات کے بعد اعلان کرتا ہے: "بس یہی سچ ہے! "۔ وہ اختلاف کو گستاخی اور مشورے کو دشمنی سمجھتا ہے۔ وہ سچائی کی تلاش نہیں کرتا بلکہ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے دلیلیں تراشتا ہے۔ ایسے لوگ معاشرے کے لیے ناسور ہوتے ہیں، کیونکہ وہ علم و فہم کی راہ میں دیواریں کھڑی کرتے ہیں۔

کالم نگار اگر حقیقت پسند اور خاکسار نہ ہو تو وہ اپنے قلم سے آگ لگا دیتا ہے۔ وہ معاشرتی شعور بیدار کرنے کے بجائے، تعصب، تکبر اور خود ستائشی کا زہر پھیلاتا ہے۔ ایسے کالموں میں خود پسندی جھلکتی ہے، سوچ کی گہرائی نہیں۔ ان کے جملے گرجتے ہیں مگر دلیل کی بنیاد سے خالی ہوتے ہیں۔ ایسے لکھاری عوام کو گمراہ کرتے ہیں، سچ کو مسخ کرتے ہیں اور اختلاف کو دفن کر دیتے ہیں۔

یاد رکھیں! علم کا اصل جوہر عاجزی میں ہے، سچائی کی اصل پہچان سننے اور سیکھنے میں ہے۔ اگر کوئی خود کو سب سے بڑا تجزیہ نگار، سب سے بڑا کالم نگار، یا سب سے بڑا دانشور سمجھتا ہے تو اسے آئینے میں جھانکنا چاہیے۔ یہ رویہ بتا رہا ہے کہ وہ شخص علم کے نہیں، انا کے منبر پر بیٹھا ہے۔

سچے مفکرین اور حقیقی دانشوروں کی زندگیاں عاجزی اور خاموشی سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ سننے کو علم کا دروازہ سمجھتے تھے اور بولنے کو صرف اُس وقت چنتے تھے جب کچھ کہنا واقعی ضروری ہو۔ وہ ہر روز سیکھتے تھے، ہر اختلاف کو غور سے سنتے تھے اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اپنی عظمت کا حصہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انسان جتنا زیادہ سیکھتا ہے، اتنا ہی اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ "ابھی تو کچھ بھی نہیں جانتا"۔

مگر افسوس! آج کے خود ساختہ "دانشور" نہ سیکھنا چاہتے ہیں، نہ ماننا چاہتے ہیں۔ وہ ہر اختلاف پر بپھر جاتے ہیں، ہر تنقید پر چیخ اٹھتے ہیں اور ہر سوال پر دشمنی پال لیتے ہیں۔ ایسے ذہن معاشرے کو تنقیدی سوچ کے بجائے، تقلیدی اندھیرے میں دھکیلتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایسے رویوں کا محاسبہ کریں۔ ہمیں ایسے لوگوں کو سماجی پذیرائی نہیں دینی چاہیے جو عاجزی کے لباس میں تکبر چھپائے بیٹھے ہوں۔ ہمیں اُن لکھاریوں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو سچ بولیں، سچ سنیں اور اپنی ذات کو سچ سے بالا نہ سمجھیں۔

علم بانٹنے سے بڑھتا ہے اور سیکھنے سے نکھرتا ہے۔ اگر کوئی صرف بولے اور کبھی سنے نہیں، تو وہ علم نہیں بانٹ رہا بلکہ اپنا تکبر پھیلا رہا ہے۔ ایسے لوگ کتابوں سے بھلے آشنا ہوں، مگر وہ "علم" سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔

کیا خوب فرمایا تھا ایک اہلِ دل نے: "جاہل وہ نہیں جو علم نہ رکھے۔ بلکہ جاہل وہ ہے جو خود کو عقلِ کل سمجھ بیٹھے! "

لہٰذا، آئیں! ہم اپنے معاشرے میں ایک نئی سوچ کو جنم دیں ایک ایسی سوچ جو سننے والی ہو، سیکھنے والی ہو اور ماننے والی ہو۔ خود کو "عقلِ کل" نہ سمجھیں، بلکہ ایک طالب علم بنیں جو ہمیشہ سیکھنے کے لیے تیار رہے۔

کیونکہ "طالب علم" وہی ہے جو ساری زندگی طالب ہی رہتا ہے اور "دانشور" وہی ہے جو سب سے پہلے اپنی ذات پر تنقید کرنا سیکھے۔ باقی سب صرف شور ہے اور شور میں علم نہیں ملتا۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed