UP, CP Ke Logon Aur Civil Afsaran Ka Qasoor
یو پی، سی پی کے لوگوں اور سول افسران کا قصور

یہ بہت دلچسپ مضمون ہے۔ اِس کے حوالے سے مصنف کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی کیونکہ اُنھوں نے ایک پوری تہذیب کی انتہائی خوش اخلاقی سے توہین کی ہے۔ اُنھوں نے دہلی اور لکھنؤ کے درباروں، نوابی ثقافت اور زبان و بیان کی نفاست کے مراکز کے حوالے سے بات کی ہے اور دنیا بھر میں درباروں کے آس پاس کے لوگوں کے عمومی برتاؤ کو یو پی، سی پی کے باشندوں پر ایسے منطبق کیا ہے جیسے یہ دنیا میں اور کہیں نہ پایا جاتا ہو اور صرف یہیں کے باشندوں میں کا خاصہ ہو۔ ایک اور جگہ آپ نے تحریر کیا ہے "۔۔ ماحول نے یو پی اور سی پی کے مسلمانوں کو ایک "خدمت گاہی معاشرت" میں ڈھال دیا۔ " محترم، دنیا بھر میں نوکری پیشہ لوگوں کو "خدمتگاہی معاشرت" اپنانا پڑتی ہے۔ اگر کسی نے نوکری کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ اُس میں ترقی بھی کرنا چاہتا ہے تو اُسے خدمت گاہی ہی کرنا پڑے گی۔
اپنے الزامی رویے میں اُنھوں نے اُن لوگوں کو بھی یو پی، سی پی والوں میں پائی جانے والی برائیوں کی مثال بناکر پیش کیا ہے جن کا اِن علاقوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مثال کے طور پر اُنھوں نے میر جعفر اور میر صادق جیسے ننگہائے ملت لوگوں کو بھی یوپی، سی پی والا بنا دیا جب کہ میر جعفر عراقی نسل سے تعلق رکھنے والے بنگالی تھا اور میر صادق جنوبی ہند سے تعلق رکھتا تھا، یعنی یہ دونوں یوپی، سی پی والے نہیں تھے۔ مگر میں مصنف کو شک کا فائدہ دینا چاہتا ہوں۔ شاید اُنھیں یہ غلط فہمی اِس لیے ہوئی ہو کہ اُس زمانے میں پورے برِصغیر کی اشرافیہ فارسی اور شاید اردو بولتی تھی۔
اُن کی یہ بات بہرحال ماننی پڑے گی کہ یوپی، سی پی کے خطے دہلی اور لکھنؤ کے درباروں، نوابی ثقافت اور زبان و بیان کی نفاست کے مراکز سمجھے جاتے تھے۔ یہ تو اُنھوں نے درست کہا۔ لیکن دنیا بھر میں درباروں (اور موجودہ دور میں دارالحکومتوں) کے اردگرد کہاں ایسا کلچر پروان نہیں چڑھتا جو اصل میں طاقت کے ایوانوں تک رسائی، درباری چاپلوسی اور جاگیردارانہ بقا کی نفسیات پر کھڑا نہ ہو؟ کہاں دربار کی خدمت، بادشاہ یا نواب و راجہ یا وڈیرے کی خوشنودی اور بڑے آدمی کے دروازے پر حاضری بقا کا اصول نہ ہو؟
اُنھوں نے تاریخی طور پر یہ غلط لکھا ہے کہ جب انگریز برِصغیر پر قابض ہوئے تو سب سے پہلے اِنہی (یعنی یوپی، سی پی کے) درباری نوابوں اور جاگیرداروں کو خریدا۔ یہ غلط فہمی اِس لیے ہوئی کہ جب انگریز برِصغیر میں آیا تھا تو اُس نے سب سے پہلے 1613ء میں"سورت" میں جو بھارتی ریاست گجرات میں واقع ہے، اپنا تجارتی مرکز قائم کیا تھا۔ اُنھوں نے 1639ء میں مدراس کا علاقہ حاصل کیا اور گمان غالب ہے کہ وہیں کے نوابوں کو اپنے ساتھ ملایا ہوگا۔ اِس کے بعد انگریز نے میر جعفر کی مدد سے 1757ء میں بنگال پر قبضہ کیا تھا۔
اِس کے بعد 1764ء کی "جنگِ بکسر" کے بعد "اڑیسا" اور "بہار" کے علاقوں کا کنٹرول بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں آ گیا۔ یہ سارے علاقے یوپی، سی پی، سے ہزاروں میل دور ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یوپی، سی پی کے علاقوں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ 1803ء میں"جنگِ دہلی" کے بعد ہوا ہے جب جنرل لیک (Lake) نے مراٹھا بادشاہ دولت راؤ سندیا کو ہرایا تھا۔ یوں یوپی، سی پی کے نوابوں سے انگریزوں کا واسطہ اپنی فتوحات شروع ہونے کے 190 برس بعد پڑا تھا۔ اِس لیے کیا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ جب انگریز برِصغیر پر قابض ہوئے تو اُنھوں نے سب سے پہلے یوپی، سی پی کے درباری نوابوں اور جاگیرداروں کو خریدا؟
دوسری بات یہ ہے کہ بے شک 1857ء کی بغاوت و سرکشی میں عام سپاہی اور کسان لڑے، مگر بڑے نواب اور رئیس صرف یوپی سی پی کے ہی نہیں باقی پورے برِصغیر بشمول پنجاب اور خیبر پختونخوا انگریز کی خدمت میں لگے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز کو طاقتور بننے میں زیادہ محنت نہ کرنی پڑی۔
اُنھوں نے لکھا ہے کہ "۔۔ مہاجر قیادت نے کبھی زمینی سیاست یا عوامی جدوجہد کو اہمیت نہ دی۔ وہ ہمیشہ کسی "بڑے آقا" کے ساتھ کھڑے ہونے کو کامیابی سمجھتے رہے۔ کبھی ریاستی اداروں کے قریب، کبھی عالمی طاقتوں کے قریب لیکن عوامی سیاست سے ہمیشہ دور۔ " اِس کی شاید وجہ یہ ہو کہ وہ ایک صوبے سے ہجرت کرکے اُسی ملک کے کسی دوسرے صوبے میں آکر نہیں بسے تھے بلکہ ایک ملک سے ہجرت کرکے دوسرے ملک آئے تھے۔ اِس لیے اُن کی وفاداریوں اور ترجیحات میں ملک، صوبوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اگر کبھی معاملہ ملک اور صوبے یا ملک اور قوم پرستوں کے درمیان پڑ جائے تو وہ ملک کی حمایت کریں گے۔
اُنھوں نے آگے لکھا ہے کہ: "۔۔ اردو زبان کی نفاست اور لکھنؤ کے آداب کو بنیاد بناکر وہ خود کو دوسرے مسلمانوں سے اعلیٰ سمجھتے تھے۔ یہی رویہ پاکستان آنے کے بعد بھی برقرار رہا۔ سندھی، پنجابی یا پٹھان کو وہ اپنے سے "کم تر" سمجھنے لگے۔ یہی "لسانی تکبر" بعد میں لسانی فسادات اور تقسیم کا بیج بنا۔ " اِن کے تکبر کی میں پرزور مذمت کرتا ہوں لیکن لسانی فسادات کی وجہ کچھ اور تھی، محض تکبر نہیں۔ چونکہ یہ موضوع بہت حساس ہے اِس لیے میں اِس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
اُن کی تحریر میں اُن کے ایجنڈے کو سب سے اچھی طرح اُن کے اِس جملے نے بے نقاب کیا ہے: "۔۔ کیونکہ اُن کے ذہن میں سندھ یا پنجاب کوئی برابری کی جگہ نہیں تھی بلکہ صرف ایک نئی "جاگیر" تھی جہاں وہ اپنی زبان اور تہذیب کو مسلط کرسکیں۔ " اِس قسم کے استدلال کو انگریزی میں presentism کہتے ہیں، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ماضی کے واقعات، شخصیات، اقدار اور نظریات وغیرہ کو اُس دور کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے جس میں وہ پیش آئے تھے، اپنے موجودہ نظریات یا اقدار کی کسوٹی پر پرکھنا اور فیصلے صادر کرنا۔ بھائی، جو لوگ یوپی، سی پی کے علاقوں سے ہجرت کرکے آئے تھے وہ سب کے سب اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
اُن کی ایک بہت بڑی تعداد غریبوں پر مشتمل تھی۔ وہ اپنے آبائی علاقے اور گھر، جیسے بھی تھے، اُن کو اور اپنے آبا و اجداد کی قبروں کو چھوڑ کر ایک ایسے علاقے میں آکر بسے تھے جو اُن کے لیے اجنبی تھا، جہاں کے لوگ اُن سے مختلف زبان بولتے تھے، جہاں اُنھیں نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرنا تھی۔ ایسے حالات میں کس کو ہوش ہوتا ہے کہ مقامی لوگوں کو غلام بنائے؟ تو یہ الزام ممکن ہے کہ اشرافیہ پر تو صادق آتا ہو، لیکن کسی بھی کمیونٹی میں اشرافیہ ہوتی کتنی ہے؟ اِس لیے یہ الزام پوری کمیونٹی پر لگانا کیا زیادتی نہیں ہے؟ اور جہاں تک زبان تھوپنے والی بات ہے، یہ پریزنٹ ازم کی بدترین مثال ہے کیونکہ یہ آج کے دور کے قوم پرستوں کا بیانیہ ہے۔ اُس دور میں آج جیسی کوئی لسانی کشیدگی نہیں تھی۔
اب آتے ہیں بیوروکریٹس کی طرف۔ ہمارے مہربان دوست یہ الزام تواتر سے لگاتے ہیں کہ پاکستان میں یوپی، سی پی سے آئے ہوئے بیوروکریٹ آبادی میں اپنے تناسب سے کہیں زیادہ تھے۔ آئیے، اِس پر تھوڑا غور کرلیتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت انڈین سول سروس میں 980 افسران تھے، جن میں سے 101 مسلمان تھے۔ جب تقسیم کے وقت اُن سے پوچھا گیا کہ وہ بھارت کی سول سروس میں خدمات سرانجام دینا چاہیں گے یا پاکستان میں، تو اُن 101 افسران میں سے 95 نے پاکستان کا انتخاب کیا۔ اِن 95 میں سے 25 یا 30 افسران متحدہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور 8 یا 12 سندھ سے تعلق رکھتے تھے، 4 یا 6 شمال مغربی سرحدی صوبے (آج کے خیبر پختونخوا) سے، 2 یا 3 بلوچستان سے، 6 یا 7 بنگال سے، 3 یا 5 بِہار سے، 2 یا 4 سی پی سے اور 4 یا 6 باقی صوبوں سے۔
صورتِ حال یہ تھی کہ پاکستان نیا ملک بنا تھا۔ اُسے اپنی سول سروس اپنے انداز میں استوار کرنی تھی۔ اِس کا مطلب تھا کہ پاکستان کی سول سروس کی تمام اسامیاں اِنہی افسران سے پُر کی جانی تھیں جو اُس وقت انڈین سول سروس میں موجود تھے۔ اب اگر 1947ء میں انڈین سول سروس میں سے صرف 6 سے 10 بنگالی افسر تھے تو پاکستان کی سول سروس میں وہی 6 سے 10 تعینات ہوں گے۔ اب یہ کہنا کہ بنگال کی آبادی پاکستان کے نصف سے زیادہ تھی لیکن سول سروس میں فقط 6 سے 10 افسران تھے، تو یہ حالات سے ناواقفیت کے علاوہ کیا ہے؟ اور کیا خالی اسامیوں پر اُن تجربہ کار افسروں کو نہ لگایا جاتا جو یو پی، سی پی سے تعلق رکھتے تھے اور پاکستان آ چکے تھے؟
باقی تحریر کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِسے ایک تعصب سے بھری ناخوشگوار بات کو انتہائی شائستگی اور بہترین اردو میں کہنے کی وجہ سے کوئی اچھا ادبی انعام دیا جانا چاہیے، تاہم اپنے مندرجات کے اعتبار سے یہ غلط حوالوں سے بھری ہوئی ایک متعصب تحریر ہے۔

