Tareek Kyun Ki Jati Hai?
تعریف کیوں کی جاتی ہے؟
یہ ایک عام سماجی طریقہ اور رویہ ہے کہ جس کے پاس وسائل کے اعتبار سے کوئی مالی کمی دیکھیں اُسے اُس پر مطعون کرنے کے بجائے اُس میں کوئی خوبی تلاش کرکے اُس کا ذکر کر دیا جاتا ہے اور اگر کچھ بھی نظر نہ آئے تو کسی ایسی چیز کا ذکر کر دیا جاتا ہے جو عمومًا اچھی کہلاتی ہے گو اُس شخص کے پاس وہ ذاتی حیثیت میں موجود نہ بھی ہو۔
مثال لیجیے کہ کسی کے پاس اپنا گھر یا سواری نہیں ہے لیکن اُس نے ظاہری حالت کپڑا جوتا منہ ماتھا ٹھیک رکھنے کی کوشش کی ہے تو ایسے مرد/ عورت سے بات کرتے ہوئے اُس کے کپڑے جوتے کی تعریف کر دی جائے گی اور اگر اِس کی ظاہری حالت بھی بری ہے تو اُس کی تعلیم یا کسی وقت میں کوئی میڈل وغیرہ لینے کا یا کسی اور چیز کا ذکر کر دیا جائے گا اور اگر یہ کچھ بھی نہ ہو تو اُس کے خاندان میں پہلے کوئی اہم آدمی یا عورت گزرا ہے تو اُس کی تعریف کر دی جائے گی اور یہ بھی نہ ہو تو پھر اسلام اور اچھے مسلمانوں کا تذکرہ کرکے اُسے مسلمان ہونے کی وجہ سے اِس فولڈ کا حصہ ہونے پہ اچھا کہہ دیا جائے گا اور اگر وہ کوئی اچھا/ اچھی مسلمان نہیں ہے تب رنگ، نسل، جنس، زبان یا علاقے کی کوئی خوبی ذکر کر لی جائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔
خوب یاد رہنا چاہیے کہ یہ چیزیں اُس وقت ذکر کی جاتی ہیں جب مالی حیثیت اچھی نہ ہو۔ مالی حیثیت اچھی ہو تو سبھی کمیاں چھپ جاتی ہیں بلکہ خرابیاں بھی خوبی بناکر پیش کی جاتی ہیں۔ یہ عام سماجی طریقہ ہے اِس لیے درست ہے۔
ہم پاکستانیوں کے ہاں بڑی خرابی یہ ہوئی ہے کہ پوری دنیا کے مقابلے میں عمومی مالی و سیاسی بے حیثیتی کی وجہ سے ہمارا فائبر خراب ہوگیا ہے۔ خرابی کو خرابی سمجھنا ہی موقوف ہوگیا ہے بلکہ اب تو خرابی کو اچھائی باور کیا جانے لگا ہے۔ مثال لیجیے کہ مال کا نہ ہونا خرابی ہے، اور اِس حال کو بدلنے کے لیے جائز طریقوں سے کام کرنا چاہیے۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ کچھ لوگ تو بدحالی غریبی ہی کو گلیمرائز کرتے ہیں اور ایک بہت بڑی آبادی ناجائز طریقوں کو اپنانے میں لگ گئی ہے۔ سماج میں ترقی کے لیے ناجائز طریقوں کو اپنانے میں جرات کی سب سے بڑی وجہ اہلِ مذہب کی سپورٹ ہے۔
یہی وجہ ہوئی ہے کہ کسی کم وسیلہ انسان کو اچھا کہنے کی جو چیزیں اوپر ذکر کیں اُن میں سے جو وجہ سب سے آخر میں لکھی، یعنی رنگ نسل جنس زبان یا علاقے کی بنیاد پہ اچھا کہنا، آج اِسی کو پہلے نمبر پہ لے آیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا انتخاب کوئی شخص خود نہیں کرتا بلکہ یہ چیزیں جبراً ساری زندگی ساتھ چپکی رہتی ہیں۔
کوئی شخص اپنی نسل جنس زبان یا علاقائی شناخت تبدیل نہیں کرسکتا چنانچہ اِن کی بنیاد پر کسی کو اچھا اُسی وقت کہا یا سمجھا جائے گا جب اُس میں کوئی کسبی خوبی نہ ملے اور توجہ سے دیکھیں تو کسی کو مطعون کرنے کے لیے رنگ نسل زبان وغیرہ کو برا کہنا یہی ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے پاس کہنے کو اور کچھ باقی نہیں ہے۔
چنانچہ بغور دیکھ اور سمجھ لیجیے کہ آپ کسی مرد/ عورت کی تعریف کیوں کر رہے ہیں اور تعریف میں آپ کا موضوع کیا ہے۔ بے جا تعریف اور بے جا طعن دونوں نقصان دہ ہیں۔ ماں اگر کلموہی کو چاند یا گیدڑ صفت بچے کو شیر کہہ دیتی ہے تو یہ اُس کی سادگی ہے۔ اِس پر یقین کرکے اپنی بھد نہیں اڑوانی چاہیے۔