Sindhi Qaum Parast Doston Se Baatein
سندھی قوم پرست دوستوں سے باتیں

آج کل تبصروں کی ایک لڑی پر ایک سندھی قوم پرست دوست سے گفتگو ہو رہی ہے۔ وہ لڑی اِتنی لمبی ہوچکی ہے کہ میرا خیال ہے کہ اُس میں لوگوں کی دلچسپی کم ہوگئی ہوگی۔ مگر اُنھوں نے کچھ نکات ایسے اٹھائے ہیں جو سندھی قوم پرستوں یعنی سندھودیش کے حامیوں کے موقف کی ترجمانی کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اِن کے جواب دیگر دوستوں کو بھی پڑھنے چاہییں۔ اِس لیے میں اِن نکات کا جواب اِس نئی پوسٹ میں دے رہا ہوں۔
ہمارے دوست کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان سندھیوں اور بنگالیوں نے بنایا تھا اِس لیے اِن قوموں کا "چاچا ماما" (یہ اُن کے الفاظ ہیں) سندھیوں بنگالیوں کو ہونا چاہیے تھا، لیکن ملک کا چاچا ماما پنجابی بن گئے۔
اِس کا جواب یہ ہے: سندھی کس طرح پاکستان کے چاچے مامے ہوتے؟ کیا پاکستان کے آئین میں درج ہوتا کہ چونکہ سندھ نے پاکستان بنایا ہے اِس لیے قانونی طور پر ہمیشہ کے لیے سربراہانِ مملکت اور وزرائے اعظم سندھی ہی ہوں گے اور کسی دوسری قومیت کا فرد اِن منصبوں پر فائز نہیں ہوسکتا؟ کیا اسمبلی میں کسی بل یا قانون پر ووٹنگ میں سندھیوں کو ایک کے بجائے دو ووٹ ڈالنے کا حق ہوتا؟ کیا فوج میں کوٹہ سسٹم لگاکر اُس میں 70 یا 80 فیصد سندھی رکھے جاتے؟
سوال یہ ہے کہ کیا کسی جمہوری ملک میں کسی ایک ہی قومیت کے لوگ ملک کے چاچے مامے بن سکتے ہیں؟ لوگوں کو اقتدار میں حصہ اُن کی آبادی میں تناسب کے حساب سے ہی ملے گا۔
اُن سندھی قوم پرست دوست کے ساتھ 23 مارچ 1940ء کی قراردادِ لاہور اور اُس میں 9 اپریل 1946ء کو مسلم لیگ کے دہلی کنونشن میں کی جانے وانے والی تبدیلی پر کافی گفتگو ہوئی۔ سندھی قوم پرست دوستوں کا موقف ہے کہ چونکہ پاکستان کے قیام کے حوالے سے 23 مارچ کی قراردادِ پاکستان کے متن میں درج ہے کہ انڈیا کالونی کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطوں میں مسلم اکثریتی صوبوں کی آزاد اور خودمختار ریاستیں بنائی جائیں اِس لیے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اِس میں ایک آزاد اور خودمختار ریاستوں کی کنفیڈریشن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اُن کا پرزور اصرار ہے کہ سندھ کی اسمبلی نے 1943ء میں پاکستان کے حق میں ووٹ اُس کنفیڈریشن کا حصہ بننے کے لیے دیا تھا، لیکن اُن کے ساتھ اسلام اور پاکستان کے نام پر دھوکہ کیا گیا اور آزاد اور خودمختار ریاستوں والی کنفیڈریشن کے بجائے صوبوں والی فیڈریشن بنا دی گئی۔
ہم اُن سے متفق ہیں کہ 23 مارچ 1940ء کی قراردادِ پاکستان ہی بنیادی دستاویز ہے کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ انڈیا کالونی کے مسلمانوں نے آنے والے دور کے متعلق اپنے خدشات اور امنگوں کی روشنی میں مستقبل میں اپنے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ ہم اُن سے اِس بات پر بھی متفق ہیں کہ اِس قرارداد کے متن سے کنفیڈریشن کا ہی خاکہ سامنے آتا ہے۔ اِس کے بعد ہم کہتے ہیں کہ قائدِ اعظم نے 7 سے 9 اپریل 1946ء کے درمیان دہلی میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے کنونشن میں اپنی بنائی ہوئی ایک کمیونٹی کی سفارشات کی روشنی میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد میں سرکاری طور بنیادی تبدیلی کر دی اور متن میں درج لفظ states کو state سے بدل دیا۔
اِس کا مطلب ہے کہ پاکستان بننے سے 16 مہینے پہلے ہی قائدِ اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ نے اپنی مانگ پاکستان تو رکھی لیکن اِس ریاست کی نوعیت تبدیل کر دی، یعنی نئے فیصلے کے بعد پاکستان آزاد اور خودمختار ریاستوں کی کنفیڈریشن نہیں بلکہ صوبوں والی فیڈریشن ہوگا۔ اِس کنونشن میں سندھ مسلم لیگ کا وفد جناب غلام حسین ہدایت اللہ کی قیادت میں موجود تھا اور اِس وفد کی طرف سے کوئی اختلاف یا احتجاج ریکارڈ پر نہیں ہے۔ اِس کے بعد ترمیم شدہ قرارداد ہی بنیادی دستاویز بن گئی اور قائدِ اعظم اور مسلم لیگ نے اِس کے بعد کی پوری جدوجہد اور مذاکرات اِسی کی روشنی میں کیے۔
اِس تبدیلی کے بعد بھی تحریکِ پاکستان اُسی جوش و خروش سے جاری رہی۔ لوگوں نے اِس تبدیلی کو قبول کر لیا۔ سندھ میں اِس تبدیلی کے خلاف کسی بڑے احتجاج کی خبر نہیں ہے۔ اگر یہ تبدیلی اُن کے نزدیک اِتنی ہی ناقابلِ قبول ہوتی جتنی آج کے سندھی قوم پرستوں کے لیے ہے تو اُن کے پاس 9 اپریل 1946ء سے لے کر 14 اگست 1947ء تک کا وقت تھا کہ وہ اپنی 1943ء والی قرارداد منسوخ کر دیتے۔ لیکن اِس کے بجائے اِس تبدیلی کے 14 مہینے بعد 26 جون 1947ء کو سندھ اسمبلی نے "صوبوں کی فیڈریشن پاکستان" میں شامل ہونے کا ووٹ دیا۔
لیکن ہمارے سندھی قوم پرست دوست کہتے ہیں کہ اصل اہمیت 23 مارچ کی قرارداد ہی کو حاصل ہے اور بعد میں آنے والی قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ شروع میں وہ اِسے یہ کہہ کر dismiss کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کسی کی ذاتی رائے ہوگی۔ جب اُن پر زور دیا جاتا ہے کہ نہیں یہ کسی کی ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ قائدِ اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کا آفیشل فیصلہ تھا تو وہ یہ دوہراتے رہتے ہیں کہ اصل اہمیت 23 مارچ کی قرارداد کی ہے اور بعد کی کسی تبدیلی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ہم اُن کے اِس موقف سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں یہ چلن ہے کہ اگر کوئی دستاویز supersede ہوجائے تو اُس کی تاریخی اہمیت تو باقی رہتی ہے لیکن وہ نافذالعمل نہیں رہتی۔ یہ دوست اِس مسلّمہ بین الاقوامی رواج کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کی قوم پرستی کی نظریاتی عمارت کھڑی ہی اِس مفروضے پر ہے کہ پاکستان نے سندھیوں دھوکہ دیا ہے اور آزاد اور خودمختار ریاستوں کی کنفیڈریشن کا جھانسہ دے کر اُن حمایت حاصل کی لیکن بنا لی صوبوں والی فیڈریشن۔ اِس مفروضے کو اگر مان لیا جائے تو پاکستان سے نفرت کرنا آسان ہوجاتا ہے اور اپنے ہی ملک سے نفرت کرنے پر ضمیر پر بوجھ نہیں پڑتا۔
اگر کسی طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ دھوکہ نہیں دیا گیا بلکہ ملک کی نوعیت 1946ء میں کنفیڈریشن سے فیڈریشن کر دی گئی تھی اور اِس کا سب کو پتہ تھا اور اِس کے باوجود لوگوں نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد جاری رکھی تو اِن کے نظریات کی عمارت دھڑام سے گر جائے گی اور یہ وہ چیز ہے جو ہمارے قوم پرست دوست بالکل نہیں چاہتے۔ یہ دوست پاکستان سے نفرت کرتے رہنا چاہتے ہیں اِس لیے وہ کسی ایسی منطق کو نہیں مانیں گے جو اُن کے موجودہ نظریات کے خلاف ہو۔
جاری۔۔

