Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Sindhi Qaum Parast Doston Se Baatein (2)

Sindhi Qaum Parast Doston Se Baatein (2)

سندھی قوم پرست دوستوں سے باتیں (2)

ہمارے قوم پرست دوستوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی صرف اِس صورت میں ممکن ہے کہ ہم 1940ء کی قراردار پر من و عن عمل کریں، یعنی اپنے صوبوں کو مکمل طور پر آزاد اور خودمختار کر دیں۔ ہمیں اِس میں کچھ قباحتیں ہیں۔ سب سے پہلی تو یہ ہے کہ 23 مارچ کی قرارداد اُس وقت کے منٹو پارک لاہور میں قائدِ اعظم کی سربراہی میں منظور کی گئی تھی۔ پھر قائدِ اعظم نے ہی اِس کی منظوری کے چھہ سال بعد مسلم لیگ کے جید رہنماؤں پر مبنی ایک کمیٹی بنائی جس کو ذمہ داری سونپی گئی کہ 1940ء اور 1946ء کے عرصے کے دوران پیش آنے والے واقعات اور سیاسی تبدیلیوں کی روشنی میں اِس قرارداد کو دیکھے اور اگر ضرورت پڑے تو اِس میں مناسب تبدیلیوں کی سفارشات پیش کرے۔ اِس کمیٹی کے ممبران یہ حضرات تھے:

نواب محمد اسماعیل خاں

ابو الحسن اصفہانی

چودھری خلیق الزماں

آئی آئی چندریگر

عبد المتین چودھری

اِس کمیٹی کی سفارشات کو حسین شہید سہروردی نے پیش کیا۔ اِس کمیٹی کی سفارش پر 23 مارچ 1940ء کی قرارداد میں states کے لفظ کو state کر دیا گیا۔ تو اِس معاملے پر ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ 23 مارچ کی قرارداد قائدِ اعظم کی سربراہی میں منظور ہوئی تھی اور اِس کے متن سے لگتا ہے کہ اِس میں آزاد اور خودمختار ریاستوں والی کنفیڈریشن یا کامن ویلتھ commonwealth کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن جب یہ قرارداد منظور کرنے والی جماعت اور اُس کے قائد نے خود ہی اِس ارادے کو نامناسب پاتے ہوئے پاکستان بننے سے ایک سال پہلے ہی تبدیل کرکے صوبوں والی فیڈریشن کر دیا تو اب اِس متروک ماڈل کو کیوں اختیار کیا جائے؟

جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ ہمارے اِن دوستوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی صرف اِس صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنے صوبوں کو مکمل طور پر آزاد اور خودمختار کر دیں۔ ہمارے کچھ دوست اِس حوالے سے یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ اگر صوبے مضبوط ہوں گے تو ملک بھی مضبوط ہوگا۔ یہ بات سننے میں بہت منطقی لگتی ہے لیکن اِتنی بھولی ہے نہیں جتنی لگتی ہے۔

یہ منطق ریاست سے بیزاری سے پھوٹتی ہے۔ اِسے پیش کرنے والوں کو اپنے آبائی علاقوں سے، جو اب اِس ریاستِ پاکستان کے صوبے ہیں، اِتنی محبت ہوتی ہے اور اُنھیں اِس بات کا افسوس اِس قدر ہوتا ہے کہ وہ علاقے آزاد اور خودمختار ملک نہیں ہیں کہ اُنھیں اپنی ریاست کھلتی ہے۔ مگر اُن کی اِس تمنا سے موجودہ ریاست یعنی پاکستان غائب نہیں ہو رہی تو اِس صورتِ حال میں اُنھیں اِس مسئلے کا یہ حل نظر آتا ہے کہ اگر ریاست سے چھٹکارا فی الحال ممکن نہیں ہے تو اِسے اِتنا غیر موثر کر دو کہ اِس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑے۔ صوبائی خودمختاری کے نام پر اپنے صوبے کو ایک ملک والے اختیارات دلوا دو اور ریاستی ڈھانچہ کھڑا کرلو، بس آزادی کا اعلان مت کرو۔

کوئی بھی خطرناک کام اُس وقت کرنا آسان ہوجاتا ہے جب اُس کے لیے توجیہہ بھلی اور معقول ہو۔ یعنی بدنیتی کو نیک نیتی بناکر پیش کر دیا جائے۔ تو اِس کام کی توجیہہ یہ دی جاتی ہے کہ اگر صوبے مضبوط ہوں گے تو ریاست مضبوط ہوگی۔ اگر اِسے دیکھا جائے تو یہ منطق بہت معقول لگتی ہے۔ چونکہ ریاست صوبوں سے مل کر بنی ہے تو اگر صوبے مضبوط ہوں گے تو ساتھ ساتھ وہ بھی مضبوط ہوگی۔ اِس منطق میں باریک واردات یہ ڈالی جاتی ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے تو ہمارے دوستوں کا مطلب ہوتا ہے کہ ہر قومیت اپنے صوبے کو دوسری قومیتوں اور ریاست سے بے نیاز ہوکر in isolation ترقی دے۔ اِس سے صوبے تو مضبوط ہوں گے لیکن تمام صوبوں میں ترقی یکساں نہیں ہوگی۔ اِس قسم کی ترقی سے ریاست کمزور ہوگی بلکہ غیر متعلقیirrelevant ہو جائے گی، جو اِن کی خواہش ہے۔

اِس کی مثال یوں لیجیے کہ کسی گاڑی کے چاروں پہیے اپنی اپنی مرضی کی رفتار یا سمت میں چلیں تو کیا گاڑی اچھی طرح چل پائے گی؟ گاڑی کو اچھی طرح چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے سفر کی سمت متعین کرنے کے لیے ایک سٹیرنگ ویل ہو جسے کوئی کنٹرول کر رہا ہو۔ چاروں پہیوں کی حرکت اور رفتار کو ہم آہنگ coordinated رکھنے کے لیے گاڑیوں میں wheel alignment کرائی جاتی ہے اور differential لگایا جاتا ہے۔ اِن تینوں چیزوں کے بغیر گاڑی نہیں چل سکتی، چاہے پہیے کتنے ہی چمکدار کیوں نہ ہوں، اُن کی بیلنسنگ بھی درست ہو اور اُن میں ہوا بھی مناسب بھری ہوئی ہو۔

اب اِس مثال کو ریاست پر منطبق کرتے ہیں۔ پہیے صوبے ہیں اور سٹیرنگ ویل اور ڈفرنشل مرکز ہے جو گاڑی کی سمت، رفتار اور پہیوں کے درمیان coordinationکرتا ہے تاکہ گاڑی صحیح سمت میں، اپنی منزل کی طرف مطلوبہ رفتار سے سفر کرسکے اور پہیے ایک مربوط طریقے سے اُسے چلائیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ صوبوں کو آزاد اور خودمختار ہونا چاہیے وہ صرف اپنے پہیے کا سوچ رہے ہوتے ہیں نہ کہ گاڑی کا۔

میں اِن لوگوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ فرض کریں کہ اُن کی دلی مرادیں بر آتی ہیں اور اُن کے صوبے آزاد ملک بن جاتے ہیں تو کیا وہ اپنے نئے ملک میں موجود انتظامی یونٹوں کو ویسی ہی آزادی اور خودمختاری دیں گے جو وہ پاکستان سے اپنے صوبے کے لیے مانگتے ہیں؟

اِن باتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں unitary state چاہتا ہوں۔ میں ایسا بالکل نہیں چاہتا۔ میں ایک ایسی فیڈریشن چاہتا ہوں جس میں صوبوں کو جائز حقوق دیے جائیں اور مرکز کا حق مرکز کو ملے۔ نہ مرکز کو اِتنے اختیارات ملیں کہ وہ صوبوں کو دبا کر رکھے اور نہ صوبوں کو اِتنی خودمختاری ملنی چاہیے کہ وہ عملًا آزاد ملک بن جائیں۔

آخر میں میں اپنے اِن قوم پرست دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں، جو وہ خود بھی سمجھتے ہیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے ہیں، کہ اُن کے بڑوں کا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ ناقابلِ تنسیخ نہیں تھا اور وہ مشرقی پاکستان کی مثال کو علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے ایک نظیر سمجھتے ہیں کہ وہ غلط مفروضوں کی بنیاد پر امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، یا جدوجہد کر رہے ہیں۔ دنیا میں کسی ملک میں شہریوں کو ملک سے علیحدگی کا حق حاصل نہیں ہے اور تمام ریاستیں اپنی علاقائی سالمیت کا دفاع اپنی پوری طاقت سے کرتی ہیں۔ مشرقی پاکستان ایک الگ معاملہ aberration تھا۔ وہ ملک کے دوسرے حصے سے ایک ہزار میل دور تھا اور درمیان میں بھارت تھا۔ وہاں پر موجود ریاستی فوج وہاں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے بالکل ناکافی تھی اور اُس کی سپلائی لائنز بھی وہاں بڑے آپریشن کے لیے رسد اور کمک پہنچانے کے لیے کافی نہیں تھیں۔ سندھ یا بلوچستان میں ایسا نہیں ہے۔ اِس لیے ایسی سوچ آپ کے لیے نقصان دہ ہے۔ قیمہ نکالنے والی مشین میں نہ خود کو ڈالیں نہ دوسروں کو اِس کی ترغیب دیں۔

نوٹ: اِس پوسٹ میں پیش کردہ خیالات میں جناب سلیم احسن نقوی کا بڑا حصہ ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan