Riyasat Tahleel Kese Ho?
ریاست تحلیل کیسے ہو؟

ہمارے بعض قوم پرست دوست پاکستان سے نفرت میں اِتنا آگے جاچکے ہیں کہ اِس کا وجود اُنھیں ذاتی توہین محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے یہ دوست ملک میں پیش آنے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے بعد سوشل میڈیا (اور مجھے یقین ہے کہ نجی محفلوں، ہم خیالوں کے ساتھ میٹنگوں اور تربیتی نشستوں) پر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ "اب تو ریاست نے اپنے وجود کا جواز کھو دیا ہے" یا "اب اِس ریاست کا اخلاقی جواز ختم ہوگیا ہے"۔ یہ بات میں پچھلے دس پندرہ سال سے باقاعدگی کے ساتھ سن رہا ہوں۔ مگر یہ ریاست ہے اِتنی سخت جان ہے کہ ہمارے اِن دوستوں کی مرضی کے خلاف ابھی تک سلامت ہے۔
ریاست میں موجود جن خرابیوں پر یہ دوست اپنا نمائشی غصہ دکھاتے ہیں اُن کی سنگینی کو میں مانتا ہوں اور اُن سب چیزوں کی بلا چون و چِرا واشگاف الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ کسی مہذب ملک میں یہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اِن سب باتوں کے باوجود میں یہ بھی واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ اِن دوستوں کا ریاست کے وجود کے متعلق نظریہ جو اُن کی خواہشات کی عکاسی کرتا ہے، سراسر غلط ہے۔
کوئی ریاست ایک دفعہ قائم ہوجائے تو اُس کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قانونی حیثیت ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسا کوئی چلن نہیں ہے کہ اگر کسی ریاست میں فلاں فلاں غلط کام ہوتے ہوں تو دنیا مل کر اُس کو تحلیل کر دے گی اور یہ یقینی بنانے کے لیے کہ وہ کام ہو تو نہیں رہے، ہر ریاست کا ہر سال آڈٹ ہوتا ہو۔ یہ غلط فہمی ہے کہ ریاست کو ہر سال یا پانچ سال یا دس سال بعد اقوامِ متحدہ یا کسی اور بین الاقوامی ادارے کے سامنے اپنی کارکردگی دکھا کر اگلے عرصے کے لیے بحیثیتِ ریاست اپنے وجود کے لیے سرٹیفکیٹ یا پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ ایک دفعہ قائم ہوجانے کے بعد ریاست کا وجود ہی اس کی وجہ ہوتا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ ایسی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو ریاست سے نفرت کرتے ہیں اور جن سے اُس کا وجود برداشت نہیں ہوتا۔ یہ سوال عام شہریوں کو نہیں سوجھتا۔
یہ بالکل الگ معاملہ ہے کہ اچھی ریاست میں ایسے کام نہیں ہونے چاہییں اور اگر یہ ہوجائیں تو مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے، لیکن ایسے جرائم کا ریاست کے وجود سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

