Prem Panth, Abdul Aziz Khalid Ka Punjabi Kalam
پریم پنتھ، عبدالعزیز خالد کا پنجابی کلام
جناب عبد العزیز خالد اردو کے شاعرِ ہفت زبان ہیں۔ بڑی زبانوں کے علاوہ مقامی علاقائی زبانوں میں بھی اُن کا درک اور پہنچ معروف و ممتاز ہے۔ اردو زبان کو اپنے اِس بڑے شاعر پر ہمیشہ فخر رہے گا۔
برادرم ڈاکٹر محمد نواز کنول نے عبد العزیز خالد پر پی ایچ ڈی کے دوران اُن کی ذاتی لائبریری سے اُن کا پنجابی کلام بھی ڈھونڈ نکالا تھا۔ مختلف فائلوں سے دستیاب ہونے والا یہ کلام متعدد پنجابی رسائل میں شائع ہوا تھا تاہم فائلوں میں رکھے اِن کاغذات میں حوالہ جات موجود نہیں تھے۔ نواز کنول نے اِس تمام مواد کو "پریم پنتھ" کے نام سے ترتیب دے کر جنوری 2023ء میں کریئیٹو پبلشرز فیصل آباد سے شائع کیا ہے۔
"پریم پنتھ" میں حمد و نعت، پابند اور آزاد نظمیں، دوہے، ماہیے اور غزلیں شامل ہیں۔ نیز اِس میں وارث شاہ، فیض احمد فیض اور راقب قصوری پر باقاعدہ نظمیں موجود ہیں۔ چھوٹی اور لمبی بحر کا یہ منظوم کلام پنجابی شاعری کی فکری روایت اور عوامی گائیکی دونوں سے مربوط ہے۔
"پریم پنتھ" کی اشاعت کے بعد عبد العزیز خالد اب پنجابی کے بھی باقاعدہ صاحبِ دیوان شاعر ہوگئے ہیں۔ اِس سے پہلے اہلِ ادب صرف یہ جانتے تھے کہ وہ اردو کے شاعر ہیں اور کبھی کبھی پنجابی میں بھی شعر کہتے ہیں۔
"پریم پنتھ" کی شاعری کے موضوعات میں عشق، ہجر و وصال، صوفیانہ وارداتیں، وغیرہ شامل ہیں۔ اِس کلام سے عبد العزیز خالد کا پنجابی ماجھوی لہجہ عمومی طور پر جھلکتا ہے۔ مجموعے کی لفظیات پر نگاہ کریں تو پنجابی کے علاوہ ہندی الفاظ بھی بکثرت نظر آتے ہیں۔
عبد العزیز خالد کی بنیادی شہرت شاعری میں مشکل پسندی اور نامانوس الفاظ اور collocations استعمال کرنے کے حوالے سے ہے۔ "پریم پنتھ" میں شامل اُن کا پنجابی کلام بھی اِس عمومی قاعدے سے ہٹا ہوا نہیں ہے۔ پنجابی کے بعض مشکل الفاظ اور استعارات کے ساتھ ساتھ قرآن کی آیتوں کے ٹکڑے ہر تیسرے چوتھے صفحے پہ نظر آتے ہیں۔ اردو والوں میں عربی فارسی کا چلن کم ہوجانے کی وجہ سے یہ لسانی خوبیاں اور جڑاؤ زیورات جیسے مرصع الفاظ اب ماضی کا وقار ہوگئے ہیں چنانچہ اِن کا استقبال کم رہ گیا ہے۔ تاہم اِس کلام کا بہت سا حصہ عام سمجھ میں آنے والی پنجابی پر مشتمل ہے۔ پنجابی کہاوتوں کا استعمال بھی خاصا نظر آتا ہے۔ یہ چیز اِس کلام میں قاری کی توجہ مبذول کیے رکھتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر نواز کنول نے عبد العزیز خالد کے اب تک دریافت شدہ پنجابی کلام کی تدوین اپنی دانست کے مطابق بہت سلیقے سے کر دی ہے۔ مستقبل میں مزید کلام کی تلاش بھی اُن کے پیشِ نظر ہوگی۔ امید کرتا ہوں کہ اِس کتاب کے آئندہ ایڈیشن سے پہلے حوالہ جات تلاش کرلیے جائیں گے۔ ایسی ادبی کاوشوں کا زمانۂ تخلیق اگر سامنے ہو تبھی اُنھیں ملکی و قومی سیاسی و سماجی تناظر میں سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ روحِ عصر سے درست آگاہی نہ ہو تو ادبی مطالعات نہایت ادھورے رہ جاتے ہیں۔
اپنے ابتدائیے "دل دیاں گلاں" میں نواز کنول نے یہ ذکر نہیں کیا کہ پنجابی دیوان کا نام "پریم پنتھ" اُن کا اپنا تجویز کردہ ہے یا عبد العزیز خالد خود اِس نام سے اپنا یہ کلام پیش کرنا چاہتے تھے۔ بہرطور "پریم پنتھ" یعنی پیار کا اسوہ یا پیار کا مذہب، ایک نہایت لبھاونا نام ہے۔
"پریم پنتھ" کی اشاعت بے شک پنجابی شعر و ادب میں ایک سنگِ میل ہے جو عبد العزیز خالد کو پنجابی کا نمائندہ اور منفرد شاعر ثابت کرتی ہے۔ اِس عطا کے لیے پنجابی دنیا ڈاکٹر نواز کنول کی شکرگزار رہے گی۔