Oriental College Mein Aik Aalim Aadmi
اورینٹل کالج میں ایک عالم آدمی
ڈاکٹر ضیاء الحسن صاحب سے میں صرف ایک بار ملا ہوں، چند ہفتے قبل 16 ستمبر کو اورینٹل کالج میں برادرم ڈاکٹر ذیشان تبسم کے ساتھ۔ میں نے اُنھیں معمول سے بہت سے زیادہ گرمجوشی سے جپھی ڈالی۔ وجہ ابھی بتاتا ہوں۔
یہ کوئی اٹھارہ بیس برس پرانی بات ہے جب میں نے ڈاکٹر وحید قریشی کے ارشاد پر "مخزن" لاہور کے لیے کچھ لکھا تھا۔ اُس تحریر میں میرؔ کا مصرع "رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد" کہیں سے ٹپک پڑا تھا، اور یہ ڈاکٹر ضیاء الحسن اور اورینٹل ہی کے ایک اور استاد کے حوالے سے تھا۔ قریشی صاحب نے پنجابی میں بتایا کہ "ضیا بہت پڑھا لکھا اور محنتی استاد ہے۔ عالم آدمی ہے"۔ کچھ دن بعد ڈاکٹر جمیل جالبی اسلام آباد آئے تو اُن کے ساتھ انکل مشفق خواجہ اور ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی موجودگی میں چائے پیتے ہوئے اورینٹل کالج کے موجود اساتذہ کا ذکر آگیا۔
اِن تینوں نے ڈاکٹر ضیاء الحسن کی تعریف کی جس میں محتنی استاد اور پڑھا لکھا ہونے کا ذکر کیا گیا۔ یہ بات چل رہی تھی کہ وہاں ڈاکٹر صابر کلوروی بھی تشریف لے آئے۔ اُنھوں نے بھی بہت اچھے الفاظ میں ڈاکٹر ضیاء الحسن کا ذکر کیا۔ پھر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ہوں یا قاضی عابد یا عامر سہیل یا عابد سیال یا شفیق انجم، اِن سب نے بھی مختلف مواقع پر ڈاکٹر ضیاء الحسن کی سکالرشپ کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات کہی اور بھی بہت سے دوست ہیں جنھوں نے ڈاکٹر ضیاء الحسن کے بارے میں ایسی ہی باتیں کہیں لیکن اُن کے نام رفتہ رفتہ یاد آئیں گے، کیونکہ شارٹ ٹرم میموری لاس میرا منہ چڑانے لگا ہے۔
اِتنے لوگوں سے اِتنا کچھ سنا تو سوچتا تھا کہ کبھی ضیاء صاحب سے ملوں گا اور اِس ملاقات کا موقع دو عشرے بعد بنا۔ ملاقات بھی کیا رہی۔ اورینٹل کے لان کے پاس گاڑی سے اترتے ہوئے جپھی ڈالی۔ اُن کے ساتھ ہی اُن کے دفتر میں گئے۔ کھڑے کھڑے تصویر اتروائی اور اگلے منٹ میں باہر۔ کمرے میں کرسی پہ بیٹھنے کا بھی وقت نہ تھا۔ پھر سارے کالج کا چکر لگایا۔ پرنسپل ڈاکٹر نبیلہ رحمان سے ملے۔ یہ افسوس رہا کہ ڈاکٹر محمد کامران سے لے کر ڈاکٹر عارفہ شہزاد تک کسی سے بھی ملاقات کا شرف نہ مل سکا۔
اورینٹل کالج میں جب بھی جانا ہوتا ہے تو میں اُس کے سارے برآمدوں میں اِس نیت سے چکر لگاتا ہوں کہ کبھی یہاں میرے والدِ گرامی پروفیسر عابد صدیق صاحب اور میری پھوپھو ڈاکٹر زبیدہ صدیقی پڑھتے تھے۔ سب دفاتر میں اور لائبریری میں بھی جاتا ہوں۔ پھر جب "جھوٹے روپ کے درشن" پڑھی اور معلوم ہوا کہ یہ واردات پنجاب یونیورسٹی میں ڈالی گئی تھی تو میں "سچے روپ کے درشن" لکھنے کا مصمم ارادہ کیے بیٹھا ہوں، جس کا لوکیل آرمی میڈیکل کالج ہوگا۔ بری نیت بھی کیا اچھی شے ہے۔۔
کل جب ڈاکٹر ضیاء الحسن اورینٹل کالج سے ریٹائر ہوئے ہیں اور لوگ فیسبک پہ پوسٹیں لگا رہے ہیں تو بہت خوشی ہوئی کہ ایک لائق استاد کو دل کی گہرائی سے خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ تصویر جس میں ڈاکٹر ضیاء الحسن اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیسیوں گلدستوں کے درمیان بیٹھے ہیں، اردو والوں کو بتانے کے لیے کیس سٹڈی ہے کہ وائرل تصویر کیا ہوتی ہے۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ جس نے نور جہاں کا گانا نہیں سنا وہ بہرا ہے، اب یہ کہا جایا کرے گا کہ جس نے ڈاکٹر ضیاء الحسن کی یہ تصویر نہیں دیکھی اُس کا اردو تعلیم و تدریس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اِس تصویر کے بارے میں اہم ترین بات وہ ہے جسے کسی نے ذکر نہیں کیا۔ یہ تصویر درحقیقت بھابی ڈاکٹر حمیدہ شاہین کے حسنِ انتظام اور ذوق کی آئینہ دار ہے۔ کامیاب مرد کے پیچھے ایسی ہی بیدار مغز سلیقہ مند عورت کا ہاتھ ہوا کرتا ہے۔ خوشا نصیب۔
ریٹائرمنٹ کا یہ موقع ڈاکٹر ضیاء الحسن کے جاری سفر کے راستے کا محض ایک پتھر ہے۔ ابھی اُنھیں علم کی دنیا کو بہت کچھ دینا ہے۔
حدِ سفر سمجھ کے جسے خوش ہوا تھا میں
اک تیر کا نشاں تھا وہاں بھی بنا ہوا
(عابد صدیق)