Mochi Se Kurta Ganthwai Aur Uski Mabadiyat
موچی سے کرتہ گنٹھوائی اور اُس کی مابعدیات
اصولی بات ہے کہ پاکستانیوں میں اسلامک اور نان اسلامک بینکنگ کا چکر چلاکر ساری دنیا میں پاکستانی مسلمانوں کو نہ صرف معاشی طور پہ بدحال کر دیا گیا ہے بلکہ اِس بے وجہ بحث کو اٹھاکر ہر پاکستانی کو عام دنیاوی معاملات میں مذہبی گفتگو اور فتویٰ بازی کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
آپ عرب، مشرقِ وسطیٰ اور ملائشیا انڈونیشیا وغیرہ میں چلے جائیں یا وہاں کے لوگوں کی سوشل میڈیا چیٹس کے موضوعات کا جائزہ لے لیں تو آپ پر یہ حیرت ناک انکشاف ہوگا کہ یہ لوگ ہم سے اچھے مسلمان ہونے کے باوجود اپنے کاروبار، نوکریاں اور مذہبی رسومات کو اپنے اپنے ملک کی رائج فقہ کے مطابق کر رہے ہوتے ہیں۔
مجھے ابھی تک اِن ممالک کا شاید ہی کوئی مسلمان مرد عورت ملا ہو جو سوشل میڈیا چیٹ میں کاروباروں ملازمتوں وغیرہ میں سود اور بنک کے سود پر دریا ہائے علوم بہا رہا ہو۔ مسلمان ہوتا ہی غیرت مند ہے اور سود کو حرام جانتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سود کی تعریف مسلمانوں کے ہر ملک میں مختلف ہے۔
چنانچہ یہاں پر سمجھنے کی دو باتیں ہیں۔ سمجھنے بلکہ خوب سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ کاروبار کا مسئلہ دنیا کا مسئلہ ہے نہ کہ آخرت کا اور جس جس تک نبی کریمؑ کی "انتم اعلم بامور دنیاکم" والی روایت پہنچ گئی ہے اُس پر واجب ہے کہ نبی کا حکم سمجھتے ہوئے کاروبار، ملازمت، صنعتکاری، زمینداری، حکومت، فوج، پولیس، انتظامیہ، مالیات، وغیرہ وغیرہ، کے بارے میں صرف اور صرف اِن شعبوں کے لوگوں سے رہنمائی لے۔
یہ سب شعبے دنیا کے ہیں اور اِن کے معاملے میں کسی غیر متعلق شخص یعنی پادری پنڈت گیانی سادھو وغیرہ سے کوئی رہنمائی نہ لی جائے۔ جہاں معاملہ مذہب اور اُس کی رسومات (نماز روزہ پاکی ناپاکی وغیرہ) کا ہے وہاں صرف اور صرف اپنے فرقے کے مذہبی عالم سے رہنمائی لی جائے۔ اِس حدیث کا فلیکس بنواکر اپنے گھروں اور چوکوں بازاروں میں اور مساجد مدارس کے اندر باہر لگوایا جائے تاکہ دین اور دنیا کو الگ الگ کرنے والی اِس ضروری ترین حدیث کو نہ تو لوگ بھولیں اور نہ ہی مذہبی عالم۔
نیز یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ پانچ ارکانِ اسلام میں سے زکوٰۃ اور حج مالی عبادات ہیں جو صرف اور صرف مالدار مسلمانوں پر فرض ہیں۔ جو شخص مالی استطاعت نہ ہونے کے باوجود حج کرتا ہے یا زکوٰۃ وغیرہ دیتا ہے اُس سے خدا قیامت کے دن خود حساب کتاب کرلے گا۔
نہایت توجہ سے سمجھنے کی دوسری بات یہ ہے کہ جو دنیاوی مسئلہ جہاں پیش آیا ہے وہیں کے ماہرین سے پوچھا جائے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بہن واشنگٹن میں استری کرتے ہوئے انگلی جلا بیٹھی ہے تو اُس کے لیے لکھنؤ کی ڈاکٹر سے نسخہ اور دوائی لی جائے۔ چنانچہ جو مسلمان جس ملک میں ہے وہاں کے کاروباری اور نوکریاتی مسائل وہیں کے قوانین کے مطابق اور وہیں کے لوگوں سے پوچھ کر حل کرے۔
یہ نہایت اعلیٰ درجے کی جہالت ہے کہ چیچو کی ملیاں کی کسی گلی میں یا نارتھ ہیمپشائر کی کسی لین میں کسی پاکستانی کو پیش آنے والے پیٹ درد کے مسئلے کا حل فیسبک پہ بتایا جا رہا ہو۔ اپنا مسئلہ خود حل کرنا چاہیے اور جہاں پہ آپ موجود ہیں وہیں پر دستیاب لوگوں اور چیزوں سے حل کرنا چاہیے۔ موچی سے کرتہ نہیں گنٹھوانا چاہیے۔ کاروبار آپ کیلگری میں کر رہے ہیں اور اِس کا مسئلہ آپ پاکستان کے ایک نوکری پیشہ شخص سے پوچھ رہے ہیں؟
آپ کو آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے سر مبارک کو غور سے دیکھنا چاہیے کہ سینگ نکل رہے ہیں یا نہیں۔ حد ہوگئی ہے نالائقی کی۔ مجھے تو امیگریشن والوں پر حیرت ہونے لگی ہے کہ وہ کس طرح آپ کو انٹرویو میں پاس کرکے اپنے ملک کی شہریت دینے کے لیے تیار ہوگئے؟ شاید امیگریشن والوں میں بھی کوئی پاکستانی بھرتی کرلیے گئے ہیں۔