Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Mashahir e Adab Banam Abdulaziz Khalid

Mashahir e Adab Banam Abdulaziz Khalid

مشاہیرِ ادب بنام عبدالعزیز خالد

برادرم ڈاکٹر محمد نواز کنول نے جب عبدالعزیز خالد کے نام مشاہیر کے خطوط کے پراجیکٹ کو حتمی صورت دینے کا ڈول ڈالا تو مجھے بھی یاد کیا اور حکم دیا کہ میں اپنے والد پروفیسر عابد صدیق کے اور اپنے خطوط فراہم کروں۔ والد صاحب کی بات الگ رہی، اپنے بارے میں یہ سن کر پہلے تو مجھے ہنسی آئی کہ نواز کنول نے مشاہیر کو غالبًا مشاہرہ سے مشتق سمجھا ہے۔ خدا اُنھیں معاف کرے۔ بڑے بڑے لوگوں کو عوامی اشتقاقات (Folk Etymology) میں مغالطہ لگ جایا کرتا ہے۔

تفنن برطرف۔ احوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب کے خط لکھنے کی عادت ہمیشہ رہی اور مجھے ایک دن میں اُن کا چھہ سات خط لکھنا بھی یاد ہے کیونکہ خط پوسٹ کرنے کی ذمہ داری عمومًا میری ہوتی تھی۔ اُن کے خطوط کہاں گئے، یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ یقینی ہے کہ عبدالعزیز خالد سے بھی اُن کی خط کتابت رہی ہوگی۔ اُن کی وفات کے بعد جب اُن کا کلام اور مضامین شائع کرانے کا موسم آیا تو جنابِ مشفق خواجہ نے مجھے عبدالعزیز خالد سے رابطہ کرنے کو بھی کہا۔ یوں مجھے 2002ء سے اُن کی وفات 28 جنوری 2010ء سے چند ماہ پہلے تک اُن کے ساتھ فون پر اور خط کتابت کے ذریعے رابطے میں رہنے کا موقع ملا۔

میں خط ٹائپ کرکے پرنٹ نکال کر بھیجتا تھا اور یہ سب مواد ای میل میں بھی رکھا ہوتا تھا۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ میرا اُس وقت چلنے والا ای میل اکاؤنٹ بند ہوچکا ہے اور پرانی ہارڈ ڈسک میں رکھی فائلیں بھی کرپٹ ہوچکی ہیں۔ کوشش کر رہا ہوں کہ ڈیٹا ریکور ہوجائے لیکن ابھی کامیابی نہیں ہو رہی۔ صرف ایک مضمون ملا جو الحمراء لاہور میں شائع ہوا تھا تاہم اِس کی خوبی یہ ہے اِس میں بعض خطوط شامل ہیں۔ اِس وقت یہی سوغات، قندِ مکرر سہی، پیش کر رہا ہوں۔

جنابِ عبدالعزیز خالد کی لکھائی اِس قدر خوبصورت تھی کہ باید و شاید۔ اِس وقت اُن کا کوئی خط ہمدست نہیں ہے اور یہ صرف میں ہی جانتا ہوں کہ میرے دل پہ کیا بیت رہی ہے۔ اگر یہ خطوط مل جاتے تو اِس مجموعے میں اچھا اضافہ ہوتے۔ تقدیر کے آگے انسان بے بس ہے۔

نواز کنول کی یہ کتاب بھی انشاء اللہ اُن کی خالد صاحب پر آنے والی دیگر کتب کی طرح ایک تاریخ ساز کتاب ہوگی۔ نواز کنول جس توجہ اور تسلسل سے خالد صاحب پہ کام کر رہے ہیں، یہ ہمارے دور کے محققین اور نقادوں کے لیے قابلِ تقلید ہی نہیں قابلِ صد رشک بھی ہے۔

حدِ سفر سمجھ کے جسے خوش ہوا تھا میں
اک تیر کا نشاں تھا وہاں بھی بنا ہوا

Check Also

Imran Khan Ya Aik Be Qabu Bohran

By Nusrat Javed