Kya 1973 Ka Aeen Kya Ab Bhi Ilaj Ho Sakta Hai?
کیا 1973ء کا آئین اب بھی علاج ہوسکتا ہے؟

کریم نواز صاحب نے 11 ستمبر 2025ء کو "ہم سب" پر چھپا اپنا کالم "کیا 1973ء کا آئین اب بھی علاج ہوسکتا ہے؟" پڑھنے کو بھیجا۔ جس موثر انداز میں اُنھوں نے اپنا موقف بیان کیا ہے اُس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ اُنھوں نے بہت خوبصورت اردو میں اور انتہائی آسان الفاظ میں اپنی بات لکھی ہے۔
متذکرہ کالم ہمارے بلوچ بھائیوں کے ریاستِ پاکستان سے تحفظات کو بیان کرتا ہے۔ ٹیپ کا نکتہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں قومیت، زبان، ثقافت اور دیگر عوامل کے حوالے سے بلوچوں کی وہی صورتِ حال ہے جو قیامِ پاکستان سے قبل انگریزوں کی کالونی برٹش انڈیا میں مذہب کے حوالے سے مسلمانوں کی تھی۔ اِس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جب بھی کوئی ایک کمیونٹی عددی اعتبار سے ایک مستقل اقلیت ہو تو اُسے majoritarianism اور tyranny of the majority کا خوف ہوتا ہے چنانچہ وہ اپنے نزدیک جائز تحفظات کے ازالے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتی ہے، جیسا کہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں نے ایک مستقل اکثریت کی متوقع زیادتیوں سے بچنے کے لیے پاکستان بنا لیا۔
میں کریم نواز صاحب کی اپنے بلوچ بھائیوں کے لیے محبت اور اُس کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہمدردی کی قدر کرتا ہوں۔ ایک اچھے پاکستانی کی طرح اُن کے دل میں تمام ہموطنوں کا درد ہے اور وہ اُن کے لیے موافق حالات اور روشن مستقبل چاہتے ہیں۔ اُن کی حب الوطنی اور نیک نیتی تسلیم کرلینے کے بعد اِس بارے میں میرا تبصرہ یہ ہے کہ اُنھوں نے جو بلوچ بھائیوں کی موجودہ صورتِ حال اور قیامِ پاکستان سے قبل کے برٹش انڈیا میں مسلمانوں کی صورتِ حال کا موازنہ کیا ہے اُس میں سب سے اہم نکتہ وہ ہے جو اَن کہا ہے۔ استدلال میں جو بات موجود ہے مگر اَن کہی ہے وہ یہ ہے کہ جب عوامل وہی ہیں تو پاکستان کے تناظر میں بلوچ وہی کرسکتے ہیں (یا اُنھیں حق ہونا چاہیے) جو برٹش انڈیا کے تناظر میں مسلمانوں نے کیا۔
میرا خیال ہے کہ اِس نکتے پر بات ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بہت پیچیدہ مسئلے کے ایک حصے کو لے کر اُسے موجودہ صورتِ حال پر ایک کلیے کے طور پر منطبق یا چسپاں کر دیا گیا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ بلوچوں کی ایک مستقل اقلیت اور اُس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خدشات اور تحفظات والی بات بالکل درست ہے، لیکن اِس کلیے میں ایسی چیزوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے جو نہ صرف کلیدی ہیں بلکہ دونوں کو مکمل طور پر مختلف بنا دیتی ہیں۔ اِن میں سب سے اہم وہ فریم ورک framework یا ڈھانچہ ہے اور دوسرا وہ دور یا زمانہ ہے جس میں یہ دونوں اقلیتیں وجود رکھتی تھیں۔
قیامِ پاکستان سے پہلے کے مسلمان ایک برطانوی کالونی میں رہ رہے تھے یعنی اُن کا وجود ایک کالونیل فریم ورک میں تھا۔ اب اُس دور کو دیکھ لیتے ہیں جس میں اُنھوں نے آزادی کی جدوجہد کی تھی۔ انگریزوں سے آزادی کے بعد مسلمانوں کی ایک ملک میں اکثریتی مذہب والوں کے ساتھ نہ رہنے اور اپنے لیے ایک الگ ملک بنانے کی تحریک 1940ء کے عشرے میں چلائی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان کے اِن فریقین اور رعایا کے دیگر گروہوں کو پتہ تھا کہ جلد یا بدیر انگریز اپنی کالونی کو آزادی دے کر چلے جائیں گے۔ اِس لیے اُس دور میں سیاسی کام دو حوالوں سے ہو رہا تھا۔ پہلا مقصد تھا انگریزوں سے آزادی اور دوسرا موضوع تھا انگریزوں کے جانے کے بعد اِس خطے کی ابھرنے والی شکل۔
اِن دونوں عوامل میں پہلی بات تو واضح تھی، یعنی انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد۔ رہ گئی دوسری بات، تو اِس معاملے کا تعین ہونا باقی تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اِس خطۂ زمین کی سیاسی شکل کیا ہوگی۔ چونکہ وہ ایک ایسی تبدیلی سے، جس میں انگریزوں کا کالونیل نظام ختم اور کوئی مقامی نظام قائم ہونا تھا، پہلے کا دور تھا اِس لیے اِس دوران میں فریقین اپنے اپنے مفادات کے حصول کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ وہ اپنے لیے بہترین ڈیل حاصل کرے اِس لیے اُن مخصوص حالات میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک کے مطالبے کو بھی جگہ مل گئی، گو بعض ممتاز مسلمان اِس مطالبے کے حامی نہ تھے۔
کیا پاکستان میں اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی سیاسی معاملات اُسی کالونیل فریم ورک کے تحت ہو رہے ہیں؟ جی نہیں۔ اب برٹش انڈیا نامی کالونی اور اُس میں واقع 565 ریاستوں کی جگہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش نامی تین جدید (قومی) ریاستیں قائم ہیں۔ اِن تینوں ریاستوں کے آئینوں میں درج ہے کہ شہریوں کی پہلی وفاداری اپنی ریاست کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اِس کے علاوہ یہ تینوں ریاستیں اپنی علاقائی سالمیت کے خلاف کسی سازش یا خطرے کو برداشت نہیں کرتیں۔
یہ تو ہوگئی فریم ورک کی بات۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا جس دور میں قیامِ پاکستان سے پہلے کے برٹش انڈیا میں رہنے والے مسلمان جی رہے تھے اور جس دور میں آج کے پاکستانی بلوچ جی رہے ہیں، کیا اِن دونوں میں کوئی مماثلت ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ تصدیق کریں گے کہ اِن دونوں ادوار میں کوئی جوہری مماثلت نہیں ہے۔ جہاں وہ ایک تبدیلی کا دور تھا جس میں انگریزوں کے جانے کے بعد کے دور کے حوالے سے فیصلے ہونا تھے، وہاں آج کا دور عبوری دور نہیں ہے۔ جو فیصلے ہونے تھے وہ (اچھے یا برے) ہوچکے ہیں۔ اِن فیصلوں پر عملدرآمد ہوچکا ہے اور اب اِن تینوں ریاستوں میں اپنے اپنے (اچھے یا برے) نظام نافذ ہیں جن پر پچھلی کئی دہائیوں سے عمل ہو رہا ہے۔
اگر اِن دونوں عوامل کو ملاکر دیکھیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی کہ اب نہ وہ فریم ورک قائم ہے اور نہ ہی وہ حالات باقی ہیں جن میں قیامِ پاکستان سے پہلے کے مسلمان اپنے لیے الگ ملک کا مطالبہ پیش کرسکے تھے۔
آج کے جدید ریاستوں کے دور میں، جن میں عرصۂ دراز سے اپنے اپنے نظام رائج ہوں، ایسے کسی بھی مطالبے کو، چاہے وہ کتنا ہی حق بجانب کیوں نہ ہو، فوراً بغاوت قرار دے دیا جائے گا، جسے ریاست اپنی پوری قوت سے کچلنے کی کوشش کرے گی۔ انڈیا میں ایسا جگہ جگہ پر ہو بھی رہا ہے۔ اِس لیے موجودہ پاکستان میں اِس قسم کی جدوجہد کے بارے میں محض اِس لیے سوچنا کہ 1940ء کے عشرے کے دوران میں برٹش انڈیا میں ایسی ہی ایک تحریک کامیاب ہوچکی ہے، ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ڈیزل انجن کی گاڑی میں پٹرول بھروائیں اور توقع کریں کہ جس طرح آپ کی پٹرول سے چلنے والی گاڑی پٹرول ڈالنے سے چلتی ہے اُسی طرح آپ کی ڈیزل سے چلنے والی گاڑی بھی پٹرول ڈلوانے کے بعد اُسی طرح چلے گی۔
اِس بات سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے بلوچ بھائیوں کے ساتھ زیادتی ہونی، یا ہوتے رہنی، چاہیے۔ میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ ایسے کاموں کے بجائے جن میں ریاستی crackdown لازمی ہو، اُن کو اور ہم سب کو، اُن پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور اُن کی حمایت میں آئین اور قانون کی حدوں میں رہتے ہوئے جدوجہد کرنی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں پورا پاکستان اُن کی پرامن اور قانونی جدوجہد میں اُن کا ساتھ دے گا اور اِن شاءاللہ اُنھیں کامیابی ملے گی۔
متذکرہ کالم میں پاکستان کے بابائے قوم کی حکمتِ عملی کو اُسی پاکستان کے خلاف جسے اُنھوں نے بنایا تھا، بہت باریکی سے استعمال کیا گیا ہے۔ اِس کی داد دینے کے بعد عرض ہے کہ کالم میں ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان کے صوبوں کے حوالے سے اِن عوامل کا ذکر کیا گیا ہے: منفرد زبان، قدیم ثقافت، جغرافیہ، جداگانہ سماجی اقدار اور سابقہ ریاستی وجود۔ یہ بیان کردہ سبھی عوامل درست ہیں۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ پاکستان کے سب صوبے منفرد ہیں، اُن سب کی زبانیں عظیم ہیں، اُن کی ثقافتیں قدیم ہیں اور اُن کی سماجی اقدار جداگانہ ہیں۔ اِن سب انفرادیتوں کے باوجود ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ماضی میں اِن کی جو بھی حیثیت رہی ہو، جس وقت اگست 1947ء میں پاکستان کی ریاست قائم ہوئی ہے اُس وقت یہ سب خودمختار ریاستیں نہیں ہوتے تھے۔ پاکستان کو یہ سب کالونیل انڈیا کے صوبوں کی حیثیت میں ملے تھے اور آج بھی یہ خودمختار ریاستیں نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے صوبے ہیں۔ ریاست بے شک اپنے صوبوں کے مقابلے میں بہت کم عمر ہو لیکن اُس کی حیثیت صوبوں کے مقابلے میں بالاتر ہوتی ہے اور یہ کوئی برا ماننے کی چیز نہیں ہے۔
اِس بات کو میں ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ فرض کیجیے کہ کسی قصبے میں یونیورسٹی نہ ہو لیکن اُس میں سو سو سال پرانے تین کالج موجود ہوں، ایک سائنس کالج ہو، ایک کامرس کالج اور ایک آرٹس کالج۔ اب حکومت اِن تینوں کالجوں کو ملاکر ایک یونیورسٹی بنا دیتی ہے جس میں یہ کالج بالترتیب سائنس فیکلٹی، کامرس فیکلٹی اور آرٹس فیکلٹی بنا دیے جاتے ہیں۔ حکومت اِن کو ہم آہنگی سے چلانے کے لیے ایک تجربہ کار وائس چانسلر نامزد کر دیتی ہے اور اُس کی ایک انتظامیہ اور سینیٹ قائم کر دیتی ہے۔ اِس نئے نظام میں اِن کالجوں کے پرنسپلوں کو فیکلٹی ہیڈ بنا دیا جاتا ہے اور یہ وائس چانسلر کو رپورٹ کرنے لگتے ہیں۔ اِس صورتِ حال میں یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی ہے جس کی بحیثیتِ یونیورسٹی کوئی تاریخ نہیں ہے جب کہ اِس کی فیکلٹیوں کی، بحیثیت خودمختار کالجوں کے، تاریخیں اور کارنامے اور اسناد سو سال پرانی ہیں۔ اِس صورتِ حال میں کیا یہ فیکلٹی ہیڈز اپنی یونیورسٹی کی عزت میں کمی کرتے ہیں؟ کیا وہ اِس بنا پر اپنے وائس چانسلر کی حکم عدولی کرتے ہیں کہ اُسے وائس چانسلر بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں جب کہ وہ برسوں سے اپنے اپنے کالجوں کے پرنسپل رہے ہیں؟
میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں ہمارے لبرل اور پروگریسو دانشور دوست، خاص طور پر قوم پرست حضرات، اپنے وطنوں، جو اب پاکستان کے صوبے ہیں اور پاکستان کی ریاست کے درمیان تعلق کو شدید مخاصمانہ بناکر پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے صوبے کی محبت میں ریاست کے خلاف انتہائی نفرت کے جذبات پال لیتے اور اُسی نفرت کو پھیلانے لگتے ہیں۔ اِس نفرت میں وہ اپنی ہی ریاست کے خلاف انتہائی توہین آمیز اور جذبات برانگیختہ کرنے والی باتیں کرتے ہیں جیسے، ریاست نے اُن پر "مصنوعی پاکستانیت" کو "تھوپ" دیا ہے، یا ریاست نے اُن کے صوبے کی غالب زبان (یا مادری زبان) کا "قتل" کیا ہے، یا اُن کے "وطن" کو کالونی بنا لیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ عمل انتہائی خطرناک ہے اور وطن اور ریاست کے درمیان جعلی دوئی پر مبنی ہے۔ یہ تاثر دو حوالوں سے غلط، بلکہ جھوٹا ہے۔ پہلا حوالہ یہ ہے کہ ایسے لوگ یہ جھوٹا تاثر دیتے ہیں کہ وطن تو ہر وقت ہمارے ساتھ رہتا ہے اور ہماری ساری زندگی اِسی سے جڑی ہے، جب کہ ریاست کوئی غیر یا مصنوعی چیز ہے جس کا ہماری روزمرہ کی زندگی سے بہت کم واسطہ پڑتا ہے۔ یہ تاثر عالمی طور پر طے کردہ موجودہ ریاستی نظام کی حرکیات سے سراسر ناواقفیت کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔
آج کے دور میں ریاست کوئی مریخ پر قائم اکائی نہیں ہوتی بلکہ وہ ہر طرح سے ہماری روزمرہ کی زندگی میں گندھی ہوتی ہے۔ آئیے ایک لحظے کو اپنی ریاست کے ساتھ ایک شہری کے تعلق کو دیکھے لیتے ہیں۔ میں ایک ایسے ہسپتال میں پیدا ہوا جس کا انتظام میری ریاست سنبھالے ہوئے تھی۔ پیدائش کے بعد گھر جانے سے پہلے میرے بڑوں نے اُس ہسپتال کا بل اُن کرنسی نوٹوں سے ادا کیا تھا جو میری ریاست کے قائم کردہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے چھاپے تھے۔ جس گاڑی میں میں ہسپتال سے گھر لایا گیا اُس میں ڈلا ہوا پٹرول میری ریاست نے درآمد کیا تھا۔ جس معاشی نظام میں میرے والد نے اِتنی روزی کمائی کہ وہ اپنا خاندان پال سکیں، میری ریاست نے ہی قائم کیا تھا۔ میں جو گندم، چاول، دالیں، سبزیاں اور پھل کھاتا ہوں وہ اُن کھیتوں میں اگتے ہیں جنھیں اُس نہری نظام سے سیراب کیا جاتا ہے جن کا انتظام ریاست سنبھالتی ہے۔ میں نے اُن تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی جو ریاست کے نظامِ تعلیم کے تحت چلتے ہیں۔ مجھے اپنی ریاستی شناخت بتانے کے لیے ریاستی ادارے سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بین الاقوامی سفر کرنے کے لیے مجھے پاسپورٹ درکار ہے جو ریاست جاری کرتی ہے۔
بین الاقوامی برادری میں میری پہچان صرف ریاست کے حوالے سے یعنی پاکستانی ہونا ہے۔ میں جو بجلی اور قدرتی گیس استعمال کرتا ہوں وہ ریاست فراہم کرتی ہے۔ میں سڑکوں، ریل اور دیگر انفراسٹرکچر استعمال کرتا ہوں جو ریاست نے تعمیر کیے ہیں۔ اگر میرے ساتھ کوئی زیادتی ہو تو میں انصاف کے لیے ریاست کے عدالتی نظام سے رجوع کروں گا۔ میں اپنی سرحدوں کی حفاظت اور بیرونی خطرات سے بچاؤ کے لیے ریاستی افواج کا محتاج ہوں۔ ہمارے شہروں، قصبوں اور دیہات میں قانون نافذ کرنے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کے لیے پولیس موجود ہے، چاہے اکثر اوقات اُس کی کارکردگی ناقص ہی ہو۔ میرے بچوں کی مستقبل کی تعلیم، اُن کی حفاظت، ہماری روزمرہ زندگی کا بنیادی ڈھانچہ، یہ سب کسی نہ کسی طور پر ریاست کے وجود اور اُس کے کاموں سے جڑے ہیں۔ القصہ یہ تصور ہی غلط ہے کہ شہری کا تعلق تو اپنے وطن سے ہوتا ہے اور اُس کے لیے ریاست کوئی غیر چیز ہوتی ہے۔
اِس بات کو بہت اچھی طرح سے سمجھنا چاہیے کہ میری پہچان میرے گھر میں گڈو، مٹھو، کاکا، گڑیا، وغیرہ ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے کیونکہ اِس میں زیادہ اپنایت ہے، لیکن کنبے اور خاندان سے باہر کے حلقے میں میرا وہی نام پکارا جاتا ہے جو سرکاری کاغذات میں ہے۔ سر سید نے بھی کہا تھا کہ: "ہم لوگ آپس میں کسی کو ہندو، کسی کو مسلمان کہیں مگر غیر ملک میں ہم سب نیٹو (Native) یعنی ہندوستانی کہلائے جاتے ہیں۔ غیر ملک والے خدا بخش اور گنگا رام دونوں کو ہندوستانی کہتے ہیں"۔ چنانچہ ہمیں خوب سمجھنا چاہیے کہ پاکستان سے باہر ہماری شناخت صرف پاکستانی ہے نہ کہ پنجابی یا بلوچی یا سندھی یا پشتون۔ اپنی عالمی شناخت کو مسخ کرنا کہاں کی دانائی ہے؟
اب آتے ہیں دوسرے حوالے پر، کہ ہمارے "وطن" اور اُن کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے جب کہ ریاست تو حال ہی میں بنائی گئی تھی، اِس لیے میری وفاداری اپنے وطن کے ساتھ ہے اور ریاست ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس سوچ کی بہترین مثال مرحوم خان عبد الولی خان کا 1970ء میں دیا گیا وہ مشہور بیان ہے جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ میں پانچ ہزار سال سے پٹھان ہوں، 1300 سال سے مسلمان ہوں اور صرف 25 سال سے پاکستانی ہوں۔ اِس بیان سے اُن کی اور اُن کے ہم خیال لوگوں کی ترجیحات واضح ہوجاتی ہیں۔
یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ شہریت سے پہلے انسانیت آتی ہے۔ ہم سب انسان ہیں اور خدا کے بنائے ہوئے تولیدی نظام کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔ اِس نظام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہماری پیدائش کس ماں باپ کے گھر، کس برادری، کس قومیت یا کس دین میں ہوتی ہے، اِس پر ہمارا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ساری دنیا میں کہیں بھی پیدا ہونے والے بچوں کی طرح ہمیں بھی یہ سب شناختیں اتفاقی طور پر ملتی ہیں۔ اِس لیے کسی بھی قومیت یا وطن میں پیدا ہونے میں ہمارا اپنا کوئی کمال نہیں ہوتا۔ اِسی نظام کے تحت جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو انتہائی کمزور ہوتے ہیں اور یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہماری نگہداشت کی جائے ورنہ ہم زندہ نہ رہ پائیں گے۔
ایک اور بات جو ہم سب پر صادق آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیدائش کے وقت ہمارے ذہن کورے کاغذ ہوتے ہیں۔ اِس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ بے شک جس قومیت میں ہم پیدا ہوئے ہوتے ہیں وہ ہزاروں سال پرانی ہوگی، بے شک اُس کی زبان بہت عظیم الشان ہوگی، بے شک اُس کا تمدن شاندار ہوگا، لیکن وہ ہمیں اتفاقی طور پر ملی ہے اور ذاتی حیثیت میں ہمارا اپنی قومیت، اُس کی زبان، اُس کے تمدن اور تاریخ سے تعارف اپنی پیدائش پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ اِس ہزارہا سالہ تاریخ کا نچوڑ ہمارے گھر کے ماحول، خاندانی اقدار اور گلی محلے میں لوگوں سے اختلاط میں ظاہر ہوتا ہے اور یہ تاریخ کا نچوڑ ہماری زندگیوں کو ڈھالتا ہے، لیکن اِس سے تعارف ہماری پیدائش کے بعد ہی ہوتا ہے۔
یہی بات ہمارے دین، فرقے اور مکتبِ فکر پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جس وقت ہم پیدا ہوتے ہیں، چاہے اپنے وطن میں ہی پیدا ہوئے ہوں، اُسی وقت ہم اپنی قومیت کے فرد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ریاست کے شہری بھی بن جاتے ہیں۔ پیدائش کا اندراج نادرا میں کرانا پڑتا ہے جس سے ہمارا اور ریاست کا رشتہ مرتے دم تک کے لیے استوار ہوجاتا ہے۔ یوں جس دن ہم پیدا ہوتے ہیں اُسی دن ہم اپنی قومیت کے ممبر، اپنے دین کے پیروکار اور اپنی ریاست کے شہری ایک ساتھ بنتے ہیں، چاہے قومیت ہزاروں سال پرانی ہو اور ریاست بالکل نئی ہو۔ چونکہ ذاتی حیثیت میں یہ تینوں چیزیں ہمیں اپنی پیدائش پر ایک ساتھ ملی ہوتی ہیں اور جس وقت یہ ملتی ہیں اُس وقت ہمیں اِن میں سے کسی کا بھی شعور نہیں ہوتا کہ یہ تینوں چیزیں ہماری ہیں، اِس کے بعد جیسے جیسے ہمیں شعور آتا ہے تو ہم اپنے گھر کے ماحول، برادری کی سوچ، اپنے دوستوں، اساتذہ اور حلقۂ احباب وغیرہ کے نظریات سے متاثر ہوکر اِن تینوں عوامل کی درجہ بندی کرلیتے ہیں۔ شدہ شدہ یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ اگر دوسروں کے نظریات کا ہمارے ذہن پر غلبہ ہوجائے تو ہم اُن میں سے کسی ایک کو "اپنا" مانتے ہیں اور باقیوں کو غیر، حتیٰ کہ دشمن بھی۔
یہ پس منظر بتانے کے بعد عرض ہے کہ یہ تینوں چیزیں آپ کی ہیں۔ اِن میں کسی ایک کی محبت میں دوسری ایک یا دونوں کو غیر نہ سمجھیے۔ بلکہ اب تو "مٹی"، "دھرتی" اور "وطن" کی اصطلاحات شہروں کے آبائی علاقوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے لیے عام استعمال ہوتی ہیں، یہاں تک کہ "حب الوطنی" کی اصطلاح تو اب استعمال ہی ریاست کے تناظر میں ہوتی ہے۔
آپ کو اپنی قومیتی زبان عزیز ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ ہونی بھی چاہیے۔ آپ اپنے گھر میں، برادری والوں کے ساتھ، محلے داروں کے ساتھ، بازاروں میں اُسے بولیے۔ اپنے بچوں کو اپنے عظیم ورثے سے متعارف کرائیے۔ اُنھیں اپنی تاریخ کی آگہی دیجیے۔ اُنھیں اپنی آبائی/ مادری/ قومیتی زبان میں لکھنا پڑھنا سکھائیے۔ اُنھیں اپنی زبان کے عظیم شعرا اور اُن کے کلام سے متعارف کرائیے۔ لیکن اِس سب کے ساتھ ساتھ قومی زبان میں بھی مہارت دلائیے تاکہ وہ اپنے ملک کے دوسری قومیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے ساتھ کامیابی سے معاملات کرسکیں اور پروفیشنل زندگی میں کامیاب ہوسکیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے بچوں کو عالمی زبان بھی سکھانا ہوگی تاکہ وہ بین الاقوامی کاروباروں اور ملازمتوں کے لیے بھی پورے طور پر تیار ہوسکیں۔
آخر میں درخواست ہے کہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پاکستان دنیا کی پہلی یا اکیلی کثیرالقوم اور کثیراللسان ریاست نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ایسی ریاستیں پائی جاتی ہیں اور اُن کے شہری اپنی قومیت اور شہریت دونوں کے درمیان توازن پیدا کرکے زندگی گزارتے ہیں۔ چاہیے کہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کے بجائے ہمارے دوست بھی اِسی ماڈل کو اپنائیں اور اپنے وطن اور اپنی ریاست کے درمیان دوئی نہ پیدا کریں اور اِن دونوں کو ایک دوسرے کے لیے غیر یا دشمن نہ سمجھیں۔ اِن دونوں کے درمیان ہر وقت محاذ آرائی نہ کریں اور ہر موقع پر اپنے وطن کے مفادات کو اپنی ریاست کے مفادات پر ترجیح نہ دیں۔ ریاست اور وطن میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ریاست بھی ویسے ہی آپ کی ہے جیسے آپ کا وطن۔ ہمیں آئین کا پابند شہری بن کر رہنے ہی میں سہولت اور عافیت ہے۔
آئینِ پاکستان مجریہ 1973ء کا آرٹیکل 5 ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہماری پہلی وابستگی ریاست سے ہو اور اب چونکہ وطن اور ریاست باہم مترادف الفاظ ہیں یعنی آئین کی نظر میں ایک ہیں تو بحیثیتِ شہری ہمیں اِس میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں، آمدہ ضرورت کے تحت آئین میں ترامیم ہوتی رہتی ہیں اور ہونی چاہییں۔ مثلًا میری رائے ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں مرکز کو زیادہ کمزور کر دیا گیا ہے اور کچھ کچھ کنفیڈریشن والی صورت بننے لگی ہے، جو مجھے ناپسند ہے۔ حد یہ ہے کہ ایک صوبے کا وزیرِ اعلیٰ مرکز کے دارالحکومت پہ دھمکیوں کے ساتھ مسلح چڑھائی کرنے جیسا فعل بھی انجام دے چکا ہے۔ چنانچہ مرکز کو صوبوں سے کچھ مراعات واپس لینی چاہییں، وغیرہ۔ لیکن یہ میری رائے ہے۔ اِس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔

