Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Kulliyat e Maktoobat e Sir Syed Az Dr Atta Khursheed

Kulliyat e Maktoobat e Sir Syed Az Dr Atta Khursheed

کلیاتِ مکتوباتِ سر سید از ڈاکٹر عطا خورشید

سیدالقوم سر سید احمد خان بہادر کی ہر تحریر کو محفوظ کرنے اور منظرِ عام پر لانے کا کام جاری ہے اور اصحابِ ہمت اِس میں لگے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر سے ایسی کتابوں کی اشاعت کی خبریں وقفے وقفے سے ملتی رہتی ہیں۔ چند ماہ قبل ہندوستان سے چھہ جلدوں میں شائع ہونے والا "کلیاتِ مکتوباتِ سر سید" اِسی تسلسل کا ایک عنوان ہے۔ اِس سے پہلے 2022ء میں تین جلدوں میں سر سید کی تقریروں کا مجموعہ "کلیاتِ خطباتِ سر سید" شائع ہوا تھا۔ یہ دونوں تاریخ ساز کام ڈاکٹر عطا خورشید نے کیے ہیں جو اکسٹرا آرڈنری لائف میڈیا لکھنؤ کے روح و رؤاں جناب عاطف حنیف کی اعتنا سے سامنے آئے ہیں۔

اردو، فارسی اور انگریزی تینوں زبانوں میں لکھے گئے خطوط کے اِس مجموعے میں سر سید کے اپنے خطوط اور اُن کے نام لکھے گئے خطوط شامل ہیں۔ خطوط کے اِس ذخیرے سے بھی سر سید کی قوم کے لیے محبت اور اُس کی بے حیثیتی و درماندگی کا درد چھلکا پڑتا ہے۔ موضوعات کے اعتبار سے یہ خطوط سیاسی، علمی، ادبی، تاریخی، تنقیدی، معاشرتی، اخلاقی، اصلاحی اور مذہبی زمروں میں رکھے جاسکتے ہیں۔ اِن خطوط سے سر سید کے ذاتی حالات، صحافتی زندگی، اعتقادات و نظریات، اخلاق و عادات، عصری معلومات و تحریکات، ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی اور معاشرتی حالات، علی گڑھ تحریک، ہندوستان کی تعلیمی تحریک، مدرسۃ العلوم، نوابین و راجگانِ ہند، اردو ہندی نزاع، وغیرہ، جیسے اہم موضوعات کا علم ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عطا خورشید مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ کے شعبۂ مشرقیات سے منسلک ہیں۔ اِس لائبریری میں سر سید کے خطوط کے تمام مطبوعہ مجموعے موجود ہیں۔ نیز اُن کے چند قلمی خطوط بھی یہاں رکھے ہیں۔ اِن میں حالی کے نام اُن کا وہ خط بھی شامل ہے جو اُنھوں نے "مسدس مدوجزرِ اسلام" کی وصولیابی کی رسید کے طور پر لکھا تھا۔ 10 جون 1879ء کو لکھے اِس خط کا یہ جملہ مسدسِ حالی کے تعارف کے ساتھ لازم و ملزوم ہے کہ "جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا تو میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں اور کچھ نہیں۔ " اِسی طرح سر سید اور بدرالدین طیب جی کے درمیان انگریزی میں جو مراسلت ہوئی وہ اصل خطوط بھی یہاں محفوظ ہیں۔ سر سید اور مولوی سمیع اللہ خاں کا آپسی اختلاف جو ایم اے او کالج کی تاریخ کا ایک سیاہ دور رہا ہے، اُس دوران میں سر سید کا 11 ستمبر 1889ء کو محسن الملک مہدی علی خاں کے نام لکھا خط بھی یہاں موجود ہے۔ اِن سب خطوط کے ساتھ ساتھ سر سید کے اب تک شائع ہونے والے تمام خطوط کو ڈاکٹر عطا خورشید نے یکجا کر دیا ہے۔

سر سید کے خطوط کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اُن کی حیات میں ہی لوگوں نے اُن کے خطوط کی جمع آوری و اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اب تک کی دریافت کے مطابق اُن کا پہلا انگریزی خط جو بدرالدین طیب جی کے خط کے جواب میں لکھا گیا تھا، اَلٰہ آباد سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار پایونیئر نے 1888ء میں شائع کیا تھا۔ اِس سے قبل سر سید اور مولانا قاسم نانوتوی کے درمیان ہونے والی اردو مراسلت "تصفیۃ العقائد" کے نام سے 1880ء میں میرٹھ سے شائع ہوئی تھی۔ اِس میں سر سید کا وہ خط بھی شامل ہے جس میں اُنھوں نے وہ پندرہ اصول لکھے ہیں جنھیں وہ اپنے اسلامی تصورات کی اساس سمجھتے ہیں۔

سر سید کی وفات کے بعد اُن کے اور اُن کے نام لکھے خطوط کے مجموعوں کی اشاعت کا تانتا بندھ گیا۔ پہلا مجموعہ مولوی وحید الدین سلیم نے 1901ء میں پانی پت سے شائع کیا۔ دوسرا مجموعہ اُن کے پوتے سید راس مسعود نے 1924ء میں نظامی پریس بدایوں سے شائع کیا۔ اِس کے بعد بعض کام سامنے آئے جیسے 1940ء میں علی گڑھ سے شائع ہونے والی مشتاق حسین کی "مکاتیبِ سر سید احمد خاں" اور ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی 1947ء میں مرتب کردہ اردو، فارسی و انگریزی کے خطوط پر مشتمل Selected Documents from the Aligarh Archives. لیکن ایک اہم اور جامع کام شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی کی "مکتوباتِ سر سید" ہے جو 1959ء میں مجلسِ ترقیِ ادب لاہور سے شائع ہوئی۔ اِس کے بعد کے ایڈیشنوں میں خطوط کا اضافہ ہوتا رہا۔ وغیرہ وغیرہ۔

خطوط کے ایسے اور بھی کئی مجموعے ہیں جن کی تفصیلات "کلیاتِ مکتوباتِ سر سید" پر اپنے طویل عالمانہ مقدمے میں ڈاکٹر عطا خورشید نے پیش کی ہیں۔ اِس کلیات میں یہ تمام بکھرے ہوئے خطوط اکٹھے کیے گئے ہیں اور مرتبین کے لکھے حواشی بھی اُن کے حوالوں کے ساتھ نقل کیے گئے ہیں۔

سر سید کے خطوط کی ایک بڑی تعداد اُن کے جاری کردہ "اخبارِ سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ" میں، جو بعد میں "علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ" کے نام سے چھپنے لگا، شائع ہوئی ہے۔ اِس اخبار میں سر سید نے یہ اہتمام کیا تھا کہ وہ خطوط جو گورنمنٹ کے اہلکاران کو لکھے گئے ہوں، اگر اردو میں لکھے گئے ہیں تو اُن کا انگریزی ترجمہ اور اگر انگریزی میں لکھے گئے ہوں تو اُن کا اردو ترجمہ، بھی شائع کیا جاتا رہے۔ "کلیاتِ مکتوباتِ سر سید" میں بھی سر سید کے اِس اہتمام کو قائم رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہوئی کہ چھہ جلدوں پر مشتمل اِس کلیات کی ابتدائی چار جلدیں اردو خطوط پر جب کہ آخری دو جلدیں انگریزی خطوط پر مشتمل ہیں۔

علاوہ ازیں ہر خط کے آخر میں ماخذ/مآخذ بہت اہتمام سے دیے گئے ہیں۔ جن خطوط میں کوئی لفظ کسی وجہ سے ناخوانا رہ گیا ہے وہاں قیاسی تصحیح یا الحاقی عبارت دینے کے بجائے اُن جگہوں پر نقطے (،) لگائے گئے ہیں نیز ضروری جگہوں پر حاشیہ بھی لگا دیا گیا ہے۔

"کلیاتِ مکتوباتِ سر سید" میں خطوط کی ترتیب تاریخی (Chronological) رکھی گئی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلا خط مرزا اسداللہ خاں غالب کا ہے جو اُنھوں نے سر سید کے ایک خط کے جواب میں 1846ء سے پہلے کسی تاریخ کو لکھا تھا۔ اِس خط کی حتمی تاریخ کا تعین نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی سر سید کا وہ خط دستیاب ہوسکا جس کے جواب میں غالب نے یہ خط لکھا تھا۔ سر سید کا آخری دستیاب شدہ خط 11 مارچ 1898ء کا تحریر کردہ ہے۔

"کلیاتِ خطباتِ سر سید" کی طرح "کلیاتِ مکتوباتِ سر سید" بھی ڈاکٹر عطا خورشید کا اہم تدوینی کام ہے۔ اِس نے پچھلی تقریبًا ڈیڑھ صدی میں شائع ہونے والی سر سید کی تمام خط کتابت کو یکجا کر دیا ہے۔ اہلِ علم اور محققین کے لیے یہ سہولت فراہم کرنے پر دنیائے اردو اُن کی اور جناب عاطف حنیف کی تادیر شکرگزار رہے گی۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan