Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Kaenaat, Aik Hairat Kada Hai

Kaenaat, Aik Hairat Kada Hai

کائنات، ایک حیرت کدہ ہے

میں 1989ء میں قائدِ اعظم یونیورسٹی شعبہ الیکٹرانکس میں داخل ہوا تو اُس وقت ڈاکٹر سہیل زبیری ہمارے صدرِ شعبہ تھے۔ وہ اِس شعبے کے بانی صدر تھے۔ مسز خان کمپیوٹر سائنس، ڈاکٹر پرویز امیر علی ہودبھائی فزکس اور ڈاکٹر شیریں مہرالنساء مزاری ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیز کے سربراہانِ شعبہ تھے۔ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈاکٹر مشاہد حسین سید تھے اور بھی بڑے بڑے قابل پروفیسران تھے جن میں سے فی الحال صرف یہی نام یاد آ رہے ہیں۔ (کمپیوٹر سائنس کی مسز خان کا نام بھول رہا ہوں، کسی کو یاد ہو تو بتا دے۔)

ہماری کلاسز 6 فروری کو شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر زبیری نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ غالبًا میڈم عظمت کی کلاس تھی جس میں وہ تشریف لائے۔ شدید سردی تھی۔ ہمیں سخت موسم کی وجہ سے اپنا خیال رکھنے کی نصیحت کی۔ یہ بھی کہا کہ کوئی مسئلہ ہو تو بلاجھجک میرے پاس آئیں۔

ڈاکٹر زبیری ہمارے تعلیمی کیریئر کی بہترائی کے بارے میں ہم سے زیادہ سنجیدہ اور متفکر رہتے تھے۔ ایک دن کلاس میں ہمیں بتایا کہ ہمیں ہر سمسٹر میں ہیومینٹیز فیکلٹی کا کم سے کم ایک نان کریڈٹ کورس ضرور انرول کرانا چاہیے تاکہ سائنس کے طالب علم دوسرے شعبوں میں ہونے والی رفتارِ تحقیق و ترقی سے آگاہ رہیں۔ اِسی طرح ایک بار پروفیسر عبدالسلام شعبہ فزکس میں آئے تو ہم لوگ بہت شوق سے اُن کا لیکچر سننے کے لیے گئے۔

شعبۂ الیکٹرانکس کا انتظام نہایت اچھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں کسی بھی موقع پر کوئی مشکل نہ ہوئی۔ تعلیمی نظام، سیشنلز، ٹرمینلز، اساتذہ کا رویہ اور تعلیم، ہر چیز بہترین تھی۔ الیکٹرانکس کی ساری لیبز بہترین ساز و سامان سے لیس تھیں۔ چھوٹے چھوٹے وِن بورڈ اُس وقت بالکل نئی چیز تھی جن پہ ہم سرکٹ بناتے اور تجربے کرتے تھے۔ بیسمنٹ میں 21 نمبر لیب ہمارے لیے چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی جہاں ہم اپنا کمپیوٹر کا "شوق" پورا کرتے تھے۔ فائیو کوارٹر فلاپی اُن دنوں عام تھی اور ساڑھے تین انچ کی سنگل ڈینسٹی اور ڈبل ڈینسٹی کمپیکٹ ڈسکیں جو ذرا مہنگی آتی تھیں، خوشحال اور زیادہ پڑھاکو ہونے کی علامت ہوتی تھیں۔

کمپیوٹر بوٹ آپ کرنے کے لیے فائیو کوارٹر کی ڈاس بوٹ ایبل فلاپی بہت چھپا کر یا تالے والے ڈسک پیک میں رکھی جاتی تھی۔ کمپیکٹ ڈسک والی ڈاس 3.2 اُن دنوں عام تھی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے ڈاس 5.0 آیا اور چھا گیا۔ یوں سمجھیے کہ ہم ایک نئے دور میں داخل ہوگئے۔ ڈاس کے نئے مینوئل نہ صرف کمپیوٹر لیب میں ہوتے تھے بلکہ ڈاکٹر زبیری کے کمرے میں بھی نظر آتے تھے۔ بیسک، جی ڈبلیو بیسک، فورٹران 77، کوبول اور C++ ہمارے کورس میں شامل تھیں۔ رِچی کی C++ والی کتاب اُن دنوں تبرک تھی۔ شام سیریز کی کتابیں مسٹر بکس سے مل جاتی تھیں۔ ایک بار فوٹران 77 کے ایک پروگرام کا کوڈ کارڈ ڈیک پر بھی پنچ کیا۔ یہ سسٹم اُن دنوں پرانا ہوچکا تھا۔ کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ میں ڈاس-1 بھی بطور تبرک رکھا ہوا تھا۔

میں بی ایس سی ڈبل میتھ فزکس میں اچھے نمبر لے کر قائدِ اعظم یونیورسٹی پہنچا تھا۔ ایک روز میں کسی کام سے ڈاکٹر زبیری کے کمرے میں گیا تو وہاں ڈاکٹر ایس ایم یوسف بیٹھے تھے جن کی مشہور کتاب میتھمیٹکل میتھڈز ہم نے بی ایس سی میں پڑھی تھی اور نیومیریکل انالسز ڈاکٹر تالپور والی۔ ڈاکٹر یوسف نے بتایا کہ اُن کی بیٹی بشریٰ یوسف نے اِسی سال بی ایس میں میتھ میں مجھ سے صرف ایک نمبر کم لیا ہے۔ اُنھوں نے مجھے اِس پر مبارک باد دی۔ اِتنے میں ڈاکٹر زبیری کمرے میں آئے اور موضوع بدل گیا۔

کچھ عرصہ پہلے جناب ظہور ندیم کی ایک پوسٹ میں ڈاکٹر زبیری نظر آئے تو یونیورسٹی دور کی شرارتوں کا بہت ذکر ہوا۔ پرسوں 21 جنوری کو ڈاکٹر انور مختار صاحب کی ایک پوسٹ میں ڈاکٹر زبیری کی کتاب "کائنات ایک حیرت کدہ" کا تعارف دیکھا تو سوچا کہ اُن کی کتاب سے ذرا بے تکلفی کرلی جائے۔ اُن کا تعلیمی، علمی و انتظامی تعارف ڈاکٹر انور مختار کی مذکورہ پوسٹ میں لکھا ہے جسے وہیں پڑھ لیا جائے۔

جان وھیلر (John Wheeler) نے لکھا ہے کہ آئن سٹائن نے ایک دفعہ اُس سے کہا کہ "اگر خود سیکھنا ہے تو اوروں کو سکھاؤ۔ " انتہائی اعلیٰ درجے کے تکنیکی مضامین پر مشتمل یہ کتاب "کائنات ایک حیرت کدہ" شاید ہر کوئی پوری نہ پڑھ سکے لیکن اِس میں شامل جان وھیلر کا یہ جملہ وہ شاہ کلید ہے جو کسی بھی شعبۂ علم کی تعلیم حاصل کرنے والے ہر طالب کے لیے برابر کارآمد ہے۔

"کائنات ایک حیرت کدہ" اُس کائنات سے متعلق ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور جس کا 95 فیصد حصہ ہماری فکر و نظر سے دور ہے۔ موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے کائنات کے رازوں پر سے پردہ اٹھاتی اِس کتاب کو کارل ساگان کی مشہور کتاب "کوسموس" کا ضمیمہ سمجھ لیجیے۔ ڈاکٹر زبیری کے ہاں ایسی معلومات کا دریا بہہ رہا ہے کہ ہر ہر صفحہ ہماری موجودہ معلومات کا وضو تازہ کرا دیتا ہے۔ مثال لیجیے کہ بگ بینگ سے، نام کے برعکس، یہ مطلب نہیں ہے کہ کائنات ایک بڑی آواز کے ساتھ دھماکے سے شروع ہوئی تھی، اِس اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ کائنات انتہائی تیزی سے پھیلنے لگی اور اب تک پھیلتی چلی جا رہی ہے۔

ہم لوگ جس بڑے سائنسدان کے دور میں جیے اُس کا نام سٹیفن ہاکنگ ہے۔ ہاکنگ نے بہت سی کتابیں لکھیں اور سائنس اور جدید سائنسی اندازِ فکر کو دنیا بھر کے لوگوں کی عادتِ ثانیہ بنانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اُس کے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دقیق ترین سائنسی کلیہ بھی سائنسی مساوات استعمال کیے بغیر بالکل سامنے کے لفظوں میں بیان کرکے قارئین کو اپنی بات سمجھا دیتا ہے۔ اُس کی مشہور ترین کتابوں کے متن میں ایک بھی سائنسی مساوات شامل نہیں ہے۔ اسلوبِ تحریر کی بالکل یہی روش اور کیفیت نوم چومسکی کی ہے۔

اِن دونوں صاحبِ اسلوب سائنسدانوں نے سائنسیات کو عام لوگوں کی دلچسپی کی چیز بنانے کے لیے نصابی کتابوں کی زبان کو تج کر عوامی اور کسی حد تک ادبی زبان کو وتیرہ بنایا۔ میں اِن دونوں کے اسلوب کا قائل بلکہ گھائل ہوں۔ مذکورۂ بالا دونوں سائنسدانوں کی کتب انگریزی میں ہیں۔ ڈاکٹر محمد سہیل زبیری نے "کائنات ایک حیرت کدہ" میں اسلوب و پیشکش کا یہی کارنامہ اردو میں انجام دے کر حیرت زدہ کر دیا ہے۔ ایں کار از تو آید۔

Check Also

Tabdeeli Ab Nahi Aaye Gi

By Saira Kanwal