Thursday, 18 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Hindustani Zaban Aur Urdu Ka Pehla Safar Nama e Hujj

Hindustani Zaban Aur Urdu Ka Pehla Safar Nama e Hujj

ہندوستانی زبان اور اردو کا پہلا سفرنامۂ حج

جولائی 1836ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کورٹ آف ڈائرکٹرز کی طرف سے گورنر بنگال کو ایک خط بھیجا گیا کہ فارسی کی جگہ کسی اور مناسب مقامی زبان (vernacular) کو درباری، عدلیہ اور دیوانی کی زبان بنایا جائے۔ اِس خط کے نتیجے میں بنگال اور نارتھ ویسٹرن پراونسز (موجودہ اُتر پردیش کا پرانا نام) کی حکومتوں کو ہدایات دی گئیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی 'صدر کورٹس' اور عدلیہ کے افسروں سے اِس سلسلے میں مشاورت کرکے سفارشات پیش کریں۔

اِس سروے کے مقاصد میں خرچوں میں کمی، عوام کو انصاف کی فراہمی اور انتظامیہ کے کام میں سہولت و رابطہ کاری وغیرہ شامل تھے۔ 1836ء کے وسط سے 1837ء تک جاری رہنے والے اِس سروے کے بعد گورنر جنرل لارڈ آکلینڈ نے فارسی کو اردو سے بدلنے کا فیصلہ 20 نومبر 1837ء کو ایکٹ نمبر 29 کے ذریعے نافذ کر دیا۔ بنگال پریزیڈنسی میں تعینات انگریز سول انتظامیہ کے افسروں کے لیے اردو سیکھنا لازم کیا گیا اور اِس کے لیے بڑے پیمانے پر تربیتی انتظامات کیے گئے۔ عوام کو بھی تعلیم و ہنر دینے اور کماکر کھانے کے لائق بنانے کے لیے سکولوں کا سلسلہ بنایا گیا تاکہ غربت دور ہو اور رعایا بیگار کے گھن چکر سے نکلے۔

بالوضاحت عرض ہے کہ اِس سروے کے بعد انگریزوں نے اردو کو اِس لیے اختیار کیا تھا کہ پورے شمالی ہندوستان میں بنگال تک یہ زبان بولی اور سمجھی جا رہی تھی۔ عدالتی کارروائی اِسی زبان میں ہوتی تھی لیکن فیصلہ فارسی میں لکھا جاتا تھا۔

1849ء میں سقوطِ پنجاب اور 1858ء میں تاجِ برطانیہ کے باقاعدہ اقتدار سنبھالنے کے بعد پنجاب میں اردو کے چلن کے لیے سرکاری انتظامات کیے گئے۔ بھوپال ایک آزاد ریاست تھی جو کسی انڈین پریزیڈنسی میں شامل نہ تھی بلکہ 1818ء سے سنٹرل انڈیا ایجنسی کے تحت برطانیہ کے سیاسی کنٹرول میں تھی۔ بھوپال کی آزاد ریاستی حیثیت 1949ء تک رہی اور یہ اُن آخری ریاستوں میں سے ایک تھی جسے زبردستی بھارت میں شامل کیا گیا۔ آج بھوپال مدھیہ پردیش کا حصہ ہے اور یہ کبھی پنجاب میں شامل نہیں رہا۔

مندرجۂ بالا تفصیل یہ بات بتانے کے لیے ذکر کی گئی ہے کہ ہندوستان کے اندر اردو صرف انگریز کے انتظامات کی وجہ سے نہیں پھیلی۔ اُس دور میں بھی اردو کا عوامی استقبال اور پہنچ اِس قدر تھی کہ جہاں اِس کے لیے انگریز مقتدرہ نے سکول نہیں بھی بنائے، یہ وہاں بھی موجود تھی اور آج تک موجود ہے۔ بھوپال اِس دعوے کی مثال ہے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ آج سارے پاکستان میں اردو رابطے کی زبان اِس لیے ہے کہ انگریز نے پنجاب میں اردو کی ترویج کی تھی، انگریز پر لگائی گئی غلط فردِ جرم (چارج شیٹ) ہے۔ اردو کی افتاد ہی عوامی ہے اور اِس کے پھیلاؤ کو اقتدار سے جوڑنا ایک متنازع نظریہ ہے جسے عوامی زبان کی ہتک کے لیے بوجوہ اچھالا جاتا ہے۔

مزید واضح رہے کہ بھوپال میں اردو کی اشاعت میں انگریز کا کردار مثبت نہیں رہا۔ بیگماتِ بھوپال نواب سکندر بیگم، نواب سلطان شاہ جہان بیگم اور نواب سلطان کیخسرو جہان بیگم کے اقدامات کی وجہ سے بھوپال میں اردو کا چلن ہوا اور اِس لیے ہوا کہ عوام میں اردو کے لیے پہلے سے استقبال موجود تھا، زمین میں صلاحیت نہ ہو تو کوئی پودا جڑ نہیں پکڑتا۔ کچھ انگریز افسران اردو کو بطور دفتری زبان رائج کرنے کے لیے ملازم ضرور رکھے گئے۔ مزید یہ کہ بھوپال میں اردو صحافت کو تاجِ برطانیہ کی حکومت کی طرف سے دباؤ اور ظلم کا سامنا رہا۔ واضح رہے کہ ریاست بھوپال کی دفتری و عدالتی زبان 1859ء تک فارسی تھی یہاں تک کہ تمام حسابات بھی فارسی میں مرتب ہوتے تھے اور خانگی تحریرات بھی ایضًا فارسی میں لکھی جاتی تھیں، تاہم 1859ء کے فوراً بعد اردو کو رائج کیا گیا۔ (حیاتِ سکندری، نواب سکندر کی سرکاری سوانح، 1930ء، ص-214)

اوپر ذکر کی گئی کوئی بھی بات "نئی" نہیں ہے۔ اِس تذکرے کے دوہرانے کی وجہ جناب زیف سید کی مدوَّنہ "سفرنامۂ حج" کا مطالعہ ہے جو آج ختم ہوا۔ یہ اردو کا پہلا سفرنامۂ حج ہے جو نواب سکندر بیگم آف بھوپال کے 1864ء میں کیے گئے سفرِ حج کی روداد ہے۔ یہ تفصیلات زیف سید نے مناسب تقابلی مطالعے کے ساتھ بتمام و کمال اپنے ابتدائیے میں تحریر کر دی ہیں۔

یہ دعویٰ پورے اطمینان سے کیا جا رہا ہے کہ یہ اردو کا واحد سفرنامہ ہے جس میں جذباتیت اور بالخصوص مذہبی جذباتیت پر ایک بھی لفظ نہیں ہے۔ ایک حکمران کو جیسا سفرنامہ لکھنا چاہیے یہ متن بالکل اُنہی معیارات پر اور خالص انتظامی و سیاسی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ نواب سکندر بیگم نے راستوں کے پرامن اور آرام دہ نہ ہونے، سلطانِ روم کی دی جانے والی سالانہ گرانٹ میں خوردبرد، گورنرانِ مکہ و جدہ اور اُن کے گماشتوں کا مال و تحائف کے لیے لالچ، بلدیاتی حکومت کی نااہلیوں، بازاروں میں قیمتوں کے بے ہنگم پن، سرکاری اہلکاروں اور عوام میں رشوت کا سلسلہ، عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بیچنا اور ہر سال لونڈیاں تبدیل کرتے رہنا، وغیرہ، جیسی لاقانونیت اور کمزور گورننس کا بالتفصیل ذکر کیا ہے۔

سرزمینِ حجاز میں اُن دنوں بدامنی اور ڈاکو راج کی کیفیت ایسی بھیانک تھی کہ یہ ہندی مسلمانوں کا شاہی قافلہ مکہ سے مدینہ کا سفر صرف اِس لیے نہیں کرسکا کہ ڈاکو نہ صرف مال لوٹتے تھے بلکہ عورتوں کی آبرو بھی۔ نواب سکندر بار بار تاسف کرتی ہیں کہ کاش ڈاکو صرف مال لوٹتے ہوتے! جان و آبرو کے لاگو ہوئے ہوئے اِن لالچیوں کو بار بار صفائی دی جاتی ہے کہ "میں حج کو آئی ہوں، کچھ تجارت کو نہیں آئی کہ مال بھر کر یہاں سے لے جاؤں۔ " (ص-91)۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ پڑھتے ہوئے پرانی کتابوں میں لکھے وہ واقعات آنکھوں میں پھرنے لگتے ہیں جب حج پہ ہزاروں حاجی قتل ہوا کرتے تھے اور کئی کئی عشروں تک حج موقوف رہتا تھا۔ اِس نوعیت کی کئی اور باتیں بھی اِس متن میں لکھی ہیں جنھیں یہاں بخوفِ طوالت ذکر نہیں کیا جا رہا۔

نواب سکندر بیگم نے جب حج کیا اُس وقت وہ اور ملکہ وکٹوریہ پوری دنیا میں صرف دو خواتین تھیں جن کو نائٹ ہُڈ ملا تھا۔ اِس سفرنامے کا حرف حرف گواہ ہے کہ نواب سکندر کا ذہنی سانچہ ذرا سی کم سطح پر ملکہ وکٹوریہ والا تھا۔ مثال لیجیے کہ جیسے ملکہ وکٹوریہ نے لندن میں بیٹھ کر ہندوستانی رعایا کی بہبودی اور اُسے تعلیم اور ہنر سکھا کر کارآمد بنانے کی فکر کی، بالکل اُنہی خطوط پر نواب سکندر بیگم اپنی بھوپال کی رعایا بالخصوص خواتین کے لیے کر رہی تھیں اور یہ سفرنامہ بتاتا ہے کہ وہ سلطانِ روم کی حجاز میں آباد رعایا کے لیے بھی ایسی ہی فکر کر رہی ہیں۔

یہ وہ دور تھا جب ترک حکمران کو "سلطانِ روم" کہا جاتا تھا کیونکہ دنیا میں دو ہی سپر پاورز تھیں: ترکیہ اور برطانیہ۔ البتہ بھوپال آزاد ریاست تھی اور اِن دونوں مسلمان حکمرانوں کے درمیان نظریاتی اور مذہبی یکسانی کے باوجود سیاسی طور پر حکمرانی و ماتحتی والا کوئی سلسلہ نہ تھا۔ نواب سکندر بیگم نے ترک حکمران کو بار بار سلطان روم اس لیے لکھا کہ اُس وقت ہندوستان میں ترکوں کی خلافت کے متعلق کسی کو کوئی خبر نہیں تھی کیونکہ ابھی ابوالکلام آزاد پیدا نہیں ہوئے تھے۔ خلافت والا ڈرامہ سلطان عبدالحمید نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر 1870ء کے بعد شروع کیا تھا۔

یہ سفرنامہ بتاتا ہے کہ نواب سکندر بیگم ایک زیرک حکمران تھیں جو اپنے سفرِ حج کو سلطانِ روم کے ساتھ سفارتی تعلقات کی گرم جوشی کا موقع بھی بنانا چاہتی ہیں۔ اِس کے لیے اُنھوں نے ترک زبان میں قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے لیے زرِ کثیر خرچ کیا اور یہ سلسلہ واپس بھوپال آکر بھی جاری رہا، اگرچہ گورنر مکہ نے اِس بارے میں اُن کے عزم کو متزلزل کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ یہ خواہش کرتی نظر آتی ہیں کہ سلطانِ روم کو حاجیوں کی سہولت کے لیے مکہ و مدینہ و جدہ کو ریلوے اور ٹیلیگراف نیٹ ورک سے جوڑنا چاہیے (اُس وقت ٹیلیفون ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا)۔ عالمی سطح پر سفارتی تعلقات کی افزائش کی خواہش کی ایک مثال اِس متن میں جدہ میں نپولین سوم کے سفیر سے غیر طے شدہ ملاقات میں نواب سکندر کے سوالات اور اعلیٰ درجے کا سفارتی رکھ رکھاؤ ہے۔ نواب سکندر اور یورپی سفیر کی اِس اچانک ملاقات سے ضمنًا یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ سلطانِ روم کی عملداری میں حجاز و عرب میں یورپی سفارتی نمائندوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔

میرٹھ چھاؤنی میں 1857ء میں ہونے والی بغاوت میں عوامی عنصر کے شاملِ سرکشی ہونے کے موقع پر مختلف ریاستوں کا انگریز کے خلاف مسلح عسکری مزاحمت میں باقاعدہ شامل ہونا یا نہ ہونا ایک جداگانہ مطالعہ ہے۔ حیدر آباد، قلات، بہاول پور، کشمیر، سوات، وغیرہ، جیسی بڑی ریاستیں اِس موقع پر خاموش رہیں۔ نواب سکندر بیگم بھی برِصغیر کی اُن دوراندیش حکمرانوں میں سے ایک تھیں جنھوں نے 1857ء کے فسادات میں اپنی رعایا کو انگریز کے خلاف محاذ آرا کرکے اپنی چھوٹی سی پرامن ریاست پر خودکُش حملہ نہیں کیا۔ چنانچہ اُن کی رعایا مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں لگی رہی۔

وہ یہ خواہش کرتی ہیں کہ اُن کے انگریز کے خلاف مسلح عسکری مزاحمت نہ کرنے کا فعل مکہ و جدہ کے حکمرانوں کے علم میں بھی آئے۔ اِس سے وہ نہ صرف اپنی امیج بلڈنگ چاہتی ہیں بلکہ دیارِ غیر میں خود کو اور اپنے کے قافلے کے لوگوں کو فسادی و جرائم پیشہ ہندوستانی کے بجائے پرامن انسان ثابت کرکے مسافروں کے لیے سہولیات لینا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اِس سفرنامے میں جدہ و مکہ میں اُن عوامی رسوم و رواج کا ذکر خوشی خوشی کرتی ہیں جن سے سماجی امن و امان بہتر رہتا ہے۔ مثلًا وہ مکہ میں شبِ برات منائے جانے کا احوال لکھتی ہیں۔ یہ اور ایسی چیزیں اِس سفرنامے میں عرب سماج کا وہ رخ دکھاتی ہیں جسے آج نہایت حیرت سے سنا جائے گا۔

اِس متن میں نواب سکندر بیگم کی زبان انتہائی سنبھلی ہوئی اور کسی بھی غیر ضروری لاگ لگاوٹ سے پاک ہے۔ وہ ہر موقع پر صرف وہی بات کرتی ہیں اور اُسی شخص سے کرتی ہیں جو اُس سے متعلق ہے۔ وہ ہر ایسی بات کو سرکاری خط میں لکھنے کا اہتمام کرتی ہیں جو بصورتِ دیگر مستقبل میں کوئی مشکل کھڑی کرسکتی ہو یا مخاطِب کو دبدھا میں ڈال دے۔ مثال لیجیے کہ اُنھوں نے گورنر مکہ کے متعلقہ ملازم کو اپنی قیام گاہ پر ہجوم لائے بھکاریوں کو منتشر کرانے کے لیے لکھا کہ میرے مکان کے اندر صرف "جو بی بی ہندوستانی زبان جانتی ہوں آئیں۔ " (ص-138) اصولی بات ہے کہ اگر یہاں ہندوستانی زبان کے بجائے اردو لکھا جاتا تو اِس لفظ کا سمجھنا گورنر مکہ کے دفتریوں کے لیے ممکن نہ ہوتا۔

اِس سفرنامے کے مطالعے سے سامنے آنے والی ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ حجاز و عرب کا سارا دار و مدار باہر سے آنے والے مال پر ہے۔ جتنا مال و زر نواب سکندر بیگم نے اپنے سفرِ حج میں گورنران و کارپردازانِ مکہ و جدہ کو دیا ہے اُس کی مقدار میں یہاں بوجوہ نہیں لکھ رہا تاکہ ایک تو لوگ کتاب میں پڑھ لیں اور دوسرے یہ کہ اُس مقدار کا توا نہ لگاتے پھریں۔ یہ سارا مال بھی ہندوستان کا تھا جو کھوہ کھاتے گیا۔ معلوم نہیں کب کوئی ول ڈیورنٹ "دی کیس فار انڈیا" میں یا کوئی ششی تھرور "اِنگلوریئس ایمپائر: وھاٹ دا برٹش ڈِڈ ٹو انڈیا" میں ایک ایک باب اِس تحقیق پر لکھے گا کہ مسلمانوں کی آمد کے بعد سے اب تک ہندوستان سے کتنا پیسہ حجاز و عرب میں اور ایران میں ناجائز طور پر منتقل ہوا ہے۔

یہ سفرنامہ جو 1867ء میں نواب سکندر بیگم کے شاہی دفتری اہتمام کے ساتھ اور دورانِ سفر کی گئی سرکاری خط کتابت اور موقع پر لکھے گئے روزنامچوں کی مدد سے کتابت کیا گیا، خالص سرکاری اردو زبان میں ہے۔ یہ اُس دور کی سرکاری اردو ہے جو ریاست بھوپال میں جاری تھی۔ اِس متن میں ترک اور فارسی و عربی الفاظ بھی ہیں اور بعض ایسے الفاظ بھی جو اِن میں سے کسی بھی زبان کی ڈکشنری میں موجود نہیں۔ ترک الفاظ کی موجودگی کی وجہ اُس وقت حجاز میں ترکانِ عثمانی کی عملداری بھی ہے اور ہندوستان میں اِس کے اثرات بھی۔ واضح رہے کہ اُس دور میں ترکانِ عثمانی کی سرکاری اور دفتری زبان عثمانی ترکی (Ottoman Turkish) تھی، جو دراصل عربی اور فارسی کے اثرات سے مالامال ایک ترکی زبان تھی اور عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔

جناب زیف سید نے اِس متن کی تدوین کرتے ہوئے اِس کا 1870ء میں کیا ہوا انگریزی ترجمہ A Pilgrimage to Mecca by The Nawab Sikandar، Begum of Bhopal، GCSI از لیفٹننٹ کرنل Willoughby Osborne بھی پیشِ نظر رکھا ہے اور نہایت باریک نظری سے ایک ایک حرف پر نگاہ رکھی ہے۔ جن مقامات کا انگریزی ترجمہ کرنا مترجم نے بوجوہ غیر مناسب جانا، اُن پر حاشیہ لکھا گیا ہے۔ جناب زیف سید کا تدوین کردہ یہ متن اردو میں اب تک موجود سفرنامہائے حج کے مطالعات میں نئی جہات کا اضافہ کرے گا۔ اِس کے لیے دنیائے اردو اُن کی شکر گزار رہے گی۔

Check Also

Sir Syed Ahmed Khan Ke Mazhabi Aqaid

By Fazal Tanha Gharshin