Do Harf Tasalli Ke
دو حرف تسلی کے
برادرم ڈاکٹر عمران ظفر کی یہ ادا قابلِ داد ہے کہ وہ جو بھی لکھتے ہیں اُس میں سے وہ تحریریں جنھیں وہ قابلِ اشاعت سمجھتے ہیں اُن کو کتابی صورت دے دیتے ہیں۔ "دو حرف تسلی کے" اُن کے تازہ کلام کا دیوان ہے جو اِسی سال کے آغاز میں شائع ہوا ہے۔
اِس مجموعۂ کلام میں غزل، موضوعی غزل، نظم، طویل نظم، آزاد نظم، نثری نظم، قطعہ، رباعی، تروینی، وغیرہ، سبھی سوغات موجود ہے۔ یہ نیرنگی ظاہر کرتی ہے کہ جنابِ عمران ظفر اظہارِ ذات پہ زور دیتے ہیں نہ کہ کسی ہیئت کے اسیر ہیں۔ مجموعے میں شامل 17 غزلیں ثابت کرتی ہیں کہ عمران ظفر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور شاعری کی اُس کلاسیکل روایت سے مربوط ہیں جو اردو ادب کا وقار ہے۔
عمران ظفر کی شاعری کی ایک ظاہر بظاہر خوبی قریبی رشتوں کی محبتوں کو نظمانا ہے۔ مختلف ہیئتوں میں والد، بیوی، اور بیٹا بیٹی کے لیے کہی گئی نظمیں اُن کے اندر کے اُس انسان کو سامنے لاتی ہیں جو تازندگی اپنے سے متعلق رشتوں کی بہترائی کے لیے جان کھپی کرتا رہتا ہے۔ "تانی پارٹنر" کے نام سے بیگم کے لیے کہی گئی نثری نظم لکھ کے تو عمران ظفر نے گویا قلم توڑ دیا ہے۔ مجھے تسلیم ہے کہ یہ وہ مرد ہے جو ہماری فیمنسٹ عورتوں کو سخت برا لگتا ہے اور وہ اِسے مسوجنسٹ وغیرہ کے عنوانات سے یاد کرتی ہیں۔ میں پاکستان کی نامی گرامی فیمنسٹ عورتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ عمران ظفر کی شاعری کا یہ حصہ تنقیدی نگاہ سے دیکھیں اور بتائیں کہ پاکستانی مردوں کی اِس قسم کو وہ کس عنوان سے یاد کرنا چاہیں گی۔
اِس مجموعۂ کلام میں اور بھی بہت کچھ لائقِ توجہ ہے۔ ایک چیز یہ پسند آئی کہ جنابِ عمران ظفر نے ادب و شاعری کے بڑے ناموں کی تقریظیں ٹانکنے کے بجائے اپنے کلام کو اپنے قریبی لوگوں اور شاگردوں سے جنچوانا پسند کیا۔ اشفاق رضا، آسیہ پروین، ڈاکٹر خاور بوسالوی اور ڈاکٹر امیر حمزہ جسرا کی مختصر مگر سچی تحریریں اِس چیز کی شاہد ہیں۔
اِس مجموعۂ کلام کا نام "دو حرف تسلی کے" ڈاکٹر خورشید رضوی کے مشہور شعر
دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اُس کو
افسانہ سنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی
سے لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ادبی روایت کی آبرو ہیں۔ خدا اُن کا سایہ سلامت رکھے اور ڈاکٹر عمران ظفر کے قلم اور فن کو توانا رکھے۔