Choudhary Rahmat Ali
چودھری رحمت علی
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ تبلیغی جماعت میں مصر سے آئے ہوئے پولیٹکل سائنس کے ایک پروفیسر صاحب ہمارے شہر میں تشریف لائے اور کوئی دو ہفتے یہاں رہے۔ وہ ہر جگہ یہ بات چھیڑ دیتے تھے کہ مسلمانوں کو اکٹھے ہوکر ایک خلیفہ کی بیعت کرنی چاہیے تاکہ ساری مسلم دنیا اکٹھی ہوجائے۔ میں اُن کی باتیں احترام سے سنتا رہتا تھا تاکہ مہمان کی ناقدری نہ ہو۔ کوشش کرکے اُنھیں صرف ایسے لوگوں سے ملایا جاتا تھا کہ اُن کا خلافتی غبار بھی نکل جائے اور ہمارے چھوٹے سے شہر کے سماج میں کوئی ڈسٹربنگ لہر پیدا نہ ہو۔
ایک دن میں نے اُن سے پوچھ لیا کہ اگر خلیفہ پاکستان کا ہو تو کیا آپ کا ملک یعنی مصر اُس کی بیعت کرلے گا؟ آدمی سمجھدار تھے۔ ذرا سا گڑبڑائے لیکن سنبھلے اور کہنے لگے کہ میں کون سا ابھی خلافت کی بیعت لینے کی بات کر رہا ہوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ایک عمومی ذہن بنے کہ ایک خلیفہ ہونا چاہیے اور ساری دنیا میں مسلمانوں کے موجودہ حکومتی نظام اور ملک ختم ہونے چاہییں۔ میں نے فوراً عرض کیا کہ آپ اپنے ملک میں اب تک کتنے لوگوں کو اِس کام کے لیے تیار کر چکے ہیں کہ وہ اپنا ملک ختم کرکے کسی اور نظامِ حکومت کے نیچے چلے جائیں۔ محترم کی گھگھی بندھ گئی۔ اُن کے ساتھ چار پانچ دن تک ایسے کئی سیشن چلے اور اُن کی تسلی کرائی۔
بالکل ایسے ہی میں سمجھتا ہوں کہ چودھری رحمت علی کا پیش کردہ مملکتِ دینیہ کا پلان صرف وِشفُل تھنکنگ تھا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے اُن دنوں کئی اور لوگ بھی زمین کے مختلف ٹکڑوں کے معاملے میں ایسے خیالات رکھتے تھے کہ فلاں فلاں ٹکڑا اکٹھا کرلیا جائے اور ایک ملک کی شکل دے دی جائے۔ اِن لوگوں کی نیتوں کا حال خدا جانتا ہے تاہم ایسے بہت سے تصورات درحقیقت ناقابلِ عمل تھے۔
مجھے بالتحقیق معلوم ہے کہ پاکستان کا نام چودھری رحمت علی کا تجویز کردہ نہیں ہے اور اُن سے پہلے کچھ اور لوگوں نے بھی یہ نام تجویز کیا تھا۔ مثلًا علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی (29 ستمبر 1904ء - 14 ستمبر 1984ء) نے یکم جولائی 1928ء کو ایبٹ آباد سے ایک ہفت روزہ اخبار "پاکستان" کے اجرا کے لیے ڈیکلریشن کی درخواست دی جسے ڈپٹی کمشنر نے مسترد کر دیا۔ اِس طرح تاریخ میں اُن کا یہ اعزاز ریکارڈ پر آگیا کہ وہ برطانوی ہند کے پہلے شخص تھے جس نے اپنی کسی تحریر میں لفظ "پاکستان" استعمال کیا تھا۔ 1935ء میں اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر ہفت روزہ پاکستان کے اجرا کی درخواست دی جو منظور ہوئی اور یوں یکم مئی 1936ء کو ایبٹ آباد سے ہفت روزہ پاکستان کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ یہ اخبار 1938ء تک جاری رہا۔
تاہم چونکہ چودھری رحمت علی کے تجویز کردہ لفظِ پاکستان کو اور اُن کے بعض ابتدائی خیالات کو مسلم لیگ نے اپنایا ہے، تو یہ اچھا کیا ہے۔ تاہم چودھری صاحب گول میز کانفرنس کے مسلمان شرکا کو مسلمانوں کا غدار قرار دے کر ابتدائی ایام میں ہی مسلم لیگی قیادت سے دوری پیدا کرچکے تھے چنانچہ وہ اپنے مزاج کے مطابق مسلم لیگ کے ساتھ بطور پارٹی کبھی نہ چل سکے اور الگ ہی رہے۔ اُن کا احترام صرف پاکستان کے نام کی حد تک ہے جو پاکستان نے اُنھیں کئی بار دیا بھی ہے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد بانیانِ پاکستان کے بارے میں اُن کی گفتگو اور لہجے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
نیز اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ چودھری صاحب نے ایسی ہتک آمیز گفتگو صرف پاکستان بننے کے بعد کی ہے تو اِس پہ اعتبار کرنا مشکل ہے۔ غالب گمان ہے کہ وہ اِدھر اُدھر بیٹھے ایسی باتیں کرتے رہتے ہوں گے تبھی بانیانِ پاکستان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئے ہوں گے۔
مارچ 1940ء والے جلسے میں جب قیامِ پاکستان کی ابتدائی قرارداد عوام نے منظور کرلی تو اُس وقت چودھری رحمت علی کو جلسے میں موجود ہونا چاہیے تھا۔ یہ عوامی جلسہ تھا جس میں سب کو شرکت کی کھلی دعوت تھی۔ مان لیجیے کہ چودھری صاحب سے اُس وقت ٹرین چھوٹ گئی۔ تب بھی کوئی حرج نہیں تھا۔ اگر وہ چاہتے تو آئندہ سات سال میں کسی بھی وقت مسلم لیگ کے ساتھ ہولیتے، لیکن وہ، غالبًا اپنی افتادِ طبع اور شخصی مسائل کے باعث، ایسا نہ کرسکے۔ قافلہ آگے نکل گیا اور وہ پیچھے رہ گئے۔ اِس احساسِ محرومی نے اُن کا لہجہ تلخ تر کر دیا۔
بڑی تحریکوں میں ایسے کئی لوگ ہوتے ہیں جو مختلف وجوہ سے ٹوٹ کر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ جنابِ مختار مسعود نے بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ قائدِ اعظم نے کسی نوجوان کو اپنا بیٹا کہہ دیا تھا۔ اُس نالائق نے بقیہ ساری زندگی قائد کی اِس بات کو غلط ثابت کرنے میں صرف کی۔
اگر چودھری رحمت علی پاکستان کی تحریک میں شامل نہیں ہوئے تو اُنھوں نے کوئی شرعی جرم نہیں کیا۔ خدا اُن کے بقیہ گناہ معاف کرے۔
آج چودھری صاحب کا یومِ پیدائش ہے۔ آئیے اُنھیں یاد کرلیں۔