Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Gul Bakhshalvi/
  4. Saleem Safi Baz Nahi Aye

Saleem Safi Baz Nahi Aye

سلیم صافی باز نہیں آئے

مسلم لیگ ن کے درباری سلیم صافی کا یہ کالم پڑھیں، اور فیصلہ خود کریں کہ ہم اہل قلم، صحافت کا حق ادا کر رہے ہیں یا اہل زر کے غلام ہیں سلیم صافی لکھتے ہیں۔ زرداری اور مولانا وغیرہ مفت میں تیس مار خان بن رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت ہم نے گرا دی، امریکی سازش کا بیانیہ اتنی ہی بڑی بکواس ہے، جتنی کہ زرداری کی منصوبہ بندی۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ لائی تھی۔

اپنی ساکھ داو پر لگا کر اسٹیبلشمنٹ نے ان کی پارٹی بنوائی، ان سے دھرنے کروائے، انہیں عدالتوں، الیکشن کمیشن اور نیب سے بچایا۔ اسکے باوجود عمران خان مرکز اور پنجاب میں حکومت نہیں بنا سکتے تھے۔ لہٰذا، باپ پارٹی، قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے بازو مروڑ کر ان کے ساتھ اتحاد بالجبر پر مجبور کرایا گیا۔ اس کے بعد بھی ان سے حکومت چل نہیں پارہی تھی اور عمران خان خود کہتے ہیں۔

کہ پارلیمنٹ سے بل پاس کروانا ہوتا یا پھر اعتماد کے ووٹ وغیرہ کا مرحلہ ہوتا تو وہ ایجنسیوں کے ذریعے ممبران پارلیمنٹ کو بلاتے اور کام چلواتے۔ تنگ آ کر اسٹیبلشمنٹ نے ان کی حکومت کو فراہم کردہ غیرقانونی اور غیرآئینی سپورٹ سے دست کشی اختیار کر لی۔ چنانچہ عمران خان کی حکومت دھڑام سے گر گئی۔ حکومت گرنے کے بعد اتحادیوں کے پاس دور راستے تھے۔

ایک یہ کہ وہ اسمبلی تحلیل کرکے فوری انتخابات کی طرف آتے اور دوسرا یہ کہ وہ مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومت بناتے۔ تب زرداری صاحب اور مسلم لیگ (ن) کی یہ رائے بنی کہ انہیں فوری الیکشن میں جانے کے بجائے اپنی اتحادی حکومت بنانی چاہئے۔ زرداری نے اس کیلئے مختلف دلائل تراشے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوری انتخابات سے پیپلز پارٹی گھبراتی ہے۔

وہ سوچتی ہے کہ مرکز اور پنجاب تو دور کی بات اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر سندھ بھی انہیں مشکل سے واپس ملے گا۔ اسی طرح انہوں نے پرویز الہٰی کو ساتھ ملاکر پنجاب میں بھی باالواسطہ اپنی حکومت بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جو آخری وقت میں بوجوہ خراب ہوا۔ تین بڑی جماعتوں نے مگر ہوس اقتدار میں نہایت غلط فیصلے کئے اور اپنے عمل سے یہ سبق دیا کہ پچھلے پانچ سال کی مار سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

مثلاً ان تین بڑی جماعتوں نے آ پس میں وزارتوں کی بندربانٹ شروع کر دی۔ تمام اہم مناصب نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آ ئی نے لے لئے۔ مولانا پی ڈی ایم کے صدر تھے اور اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلا کر زرداری کے ساتھ بیٹھ کر حکومت سازی کرتے، لیکن جب سے حکومت ملی ہے تب سے مولانا نے پی ڈی ایم کا کوئی اجلاس نہیں بلایا۔

انہوں نے آ فتاب شیرپاو کو جائز حصہ دلوایا، نہ محمود خان اچکزئی کو اور نہ ہی اختر مینگل وغیرہ کو۔ دوسری طرف زرداری نے اپنے لئے تو سب کچھ حاصل کر لیا، لیکن اے این پی، جو ان کی خاطر پی ڈی ایم سے نکلی تھی اور جس کے ایمل ولی نے بلاول وزیراعظم تک کے نعرے لگوائے کو کوئی اہم وزارت تو کیا، پختونخوا کی گورنرشپ بھی نہ دلواسکے۔

ادھر عمران خان نے امریکی سازش کا ایک بیانیہ گڑھ لیا، لیکن اس ڈھول کو اس قدر پیٹا کہ عام آ دمی اس پر یقین کرنے لگا۔ دوسری طرف حکومت کے پاس کوئی بیانیہ نہیں۔ بیانیہ بنانا تو دور کی بات، حکومت ملنے کے بعد کبھی یہ لوگ اپس میں بیٹھے ہی نہیں۔ تمام اتحادی جماعتوں کی سرگرمیوں کا مرکز ومحور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مناصب سمیٹنا ہے۔

تین ماہ ہو گئے لیکن پختونخوا، بلوچستان، سندھ اور گلگت بلتستان کے گورنروں پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ چیئرمین نیب، زرداری صاحب اپنا کوئی نیا جاوید اقبال لگوانا چاہتے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنا چیئرمین نیب چاہتی ہے۔ فرح خان، بشریٰ بی بی، مانیکا خاندان اور کئی وزرا کے خلاف فائلوں کے انبار لگے ہیں، توشہ خانہ کیس تیار ہے۔ لیکن نیب کا چیئرمین نہ ہونے کی وجہ سے حکومت آج تک ان کے خلاف کیسز دائر نہ کراسکی۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ زرداری صاحب وغیرہ کی ترجیح پی ٹی آ ئی کے خلاف کیسز بنانے سے زیادہ اپنے کیسز ختم کرانا ہے۔ وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی ظفر موج بن گئی ہے۔ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ طارق فاطمی جیسے معاونین خصوصی وزیراعظم ہاوس میں بیٹھ کر کیا کر رہے ہیں۔ عمران خان جھوٹ پر مبنی امریکی سازش کا چورن اچھی طرح بیچ سکے لیکن حکومت سچ کو بھی کیش نہ کرا سکی۔

وہ سیاست سازشی تھیوری کی بنیاد پر کر رہے ہیں اور حکومت ناقص میڈیا اسٹریٹجی کی وجہ سے قوم کو یہ سمجھانے میں بھی ناکام رہی کہ عمران خان نے معیشت کس حال میں چھوڑی تھی اور اسے آ ئی ایم ایف کے کہنے پر مشکل فیصلے کیوں کرنے پڑے۔ جس کی وجہ سے عمران خان کی ناقص معاشی پالیسیوں کا ملبہ اس پر آ گرا۔ سب سے زیادہ کھلواڑ خارجہ محاذ پر کیا گیا تھا۔

لیکن وزیر خارجہ بلاول بھٹو جہاز لے کر پوری دنیا کی سیر پر نکلے۔ اتحادی حکومت کے مزے تولوٹ رہے ہیں لیکن حکومت کا دفاع کرنے نہیں آتے۔ جس پارٹی کو جو وزارت ملی ہے، وہاں اس نے اپنی دکان لگا رکھی ہے۔ ہر سیاسی فیصلے کیلئے وزیراعظم کو دس طرف سے مشورہ لینا پڑتا ہے۔ لندن سے منظوری کے بعد پھر زرداری کے نخرے اٹھانے پڑتے ہے، پھر مولانا کے، پھر ایم کیو ایم اور باپ کے۔

اس حکومت میں قوت فیصلہ کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ یہ آج تک قومی اسمبلی سے پی ٹی آ ئی ممبران کے استعفے منظور نہیں کراسکی۔ اس کی وجہ بھی زرداری صاحب ہیں، کیونکہ مسلم لیگ (ن) پر دباو رکھنے کیلئے پی ٹی آ ئی کا دروازہ کھلا چھوڑا گیا ہے اور وہ مسلم لیگ کو اس بات سے بلیک میل کررہے ہیں کہ اگر ہر معاملے میں ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر متبادل بندوبست کرسکتے ہیں۔

حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کے فیصلے کا بھی لوگوں نے برا منایا۔ لوگوں نے دیکھا کہ زرداری نے اپنے بیٹے کو، شہباز شریف نے اپنے بیٹے کو اور مولانا نے اپنے بیٹے کو وزیر بنا دیا یوں پی ٹی آ ئی نے ان جماعتوں کی موروثی اور خاندانی سیاست سے متعلق شور مچایا اور پنجاب کے ووٹر نے جو غصہ نکالا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اتحادی قیادت اور وزیروں کی گردنوں میں جو سریا آ گیا تھا۔

وہ کسی حد تک نکل گیا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اب اسٹیبلشمنٹ کو بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ وہ یا تو عمران خان کو دوبارہ گلے لگا لے گی یا پھر جواب دینے پر آ جائے گی۔ وہ اگر عمران خان کی گالم گلوچ اور دباو سے بلیک میل ہو گئی تو اس صورت میں باقی جماعتوں کو بھی یہ پیغام ملے گا کہ تابعداری اور دوستی کی بجائے گالم گلوچ اور بلیک میلنگ کا طریقہ موثر ہے۔

چنانچہ وہ بھی پوری قوت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف میدان میں نکلیں گی۔ اگر الیکشن کی طرف بات جاتی ہے، تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عمران خان کی جھوٹے کہانیوں کے جواب میں وہ سچی کہانیاں بیان کرے گی اور ظاہر ہے یہ صورت حال بھی اس کیلئے نہایت مشکل ہو گی۔ چنانچہ اب اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی ہو گی۔

اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ لاڈلے کو لاڈلا بنا دیا(جس کا اگرچہ امکان کم نظر آ تا ہے) تو بھی صورت حال واضح ہو جائے گی اور اگر حکومت کا اس طرح ساتھ دینا شروع کیا، جس طرح عمران خان کا دیتی رہی تو پھر پی ٹی آ ئی بکھر جائے گی دونوں صورتوں میں صورت حال واضح ہو جائے گی۔

Check Also

Karakti Bijliyan

By Zafar Iqbal Wattoo