Pak Afghan Sarhad Ke Masail Aur Unka Tasalli Bakhsh Hal
پاک افغان سرحد کے مسائل اور ان کا تسلی بخش حل
امریکہ نے بھارت کو ایک صنعتی مرکز بنانے کے لیے بھارت کے ساتھ مشترکہ شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ پاکستان کو اندرونی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ بھارت کا ویژن بھارت کا اپنا نہیں بلکہ امریکہ کاویژن ہے۔ اسی طرح خطے کے لیے پاکستان کی اختیار کردہ پالیسی بھی امریکہ ہی کی دین ہے۔ مشرف کے "سب سے پہلے پاکستان" اور ترقی اور خوشحالی کے بدلے مغرب کی غلامی کے تصور نے پاکستان کے اسٹرٹیجک اثر و رسوخ اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔
افغانستان پاکستان کے سرحدی علاقے کی جغرافیائی سیاست بڑی طاقتوں اور خطے کے لیے ان کی پالیسیوں کے درمیان ایک مقابلے کے نتیجہ میں تشکیل پائی ہے۔ یہ پالیسی پہلے روس اور برطانیہ، اور پھر سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان کشا کش کے نتیجے میں تشکیل پائی۔ اس کے بعد جب امریکہ اکیلا عالمی طاقت رہ گیا، تو اس نےاس خطے سمیت پوری مسلم دنیا کے لیے اپنی پالیسی دی۔ یوں خطے کے لیے ہمارے اپنے اسٹریٹجک وژن کی عدم موجودگی میں ہمیشہ بیرونی طاقتیں خطے کی تقدیر کو تشکیل دیتی رہیں گی۔
افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد، امریکہ کی طرف سے پاکستانی ریاست کو حکم دیا گیا کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پشتون مسلمانوں کو افغانستان میں جہاد کرنے سے اور امریکہ کے خلاف افغان طالبان کی مزاحمت کی حمایت کرنے سے روکے۔ امریکہ نے جہادی نظریے کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھا اور پاکستان کو پچھلی پالیسی (یعنی افغانستان میں امریکی مدد سے سوویت یونین کے خلاف جہاد کی حمایت)کو واپس لینے کا حکم دیا۔ اسی طرح بھارت میں لڑنے والے جہادی گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا بھی حکم دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پشتون قبائل اور پاکستانی ریاست کے درمیان تصادم واقع ہوا۔ اس تصادم کے لیے پاکستانی فوج کو قبائلی علاقوں میں داخل ہونے اور وہاں چھاؤنیاں قائم کرنے کی ضرورت پڑی۔ ٹی ٹی پی 2007 میں عسکریت پسند کمانڈر بیت اللہ محسود کی طرف سے قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے داخل ہونے کے براہِ راست ردعمل کے طور پر منظر عام پر آئی۔
پاکستان کی فوج اور پشتون عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی نے قبائلی علاقے میں سماجی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ قبائل اور ان کے رہنماؤں پر پاکستانی ریاست یا عسکریت پسندوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ اس تصادم نے خطے میں پرانے سیکورٹی کے نظام کو تباہ کر دیا۔ تاریخی طور پر پاکستانی ریاست کا مغربی سرحد پر سیکورٹی کو یقینی بنانے کا طریقہ کار یہ تھا کہ سرحدی قبائل کو ڈیورنڈ لائن کے آر پار آنےجانے کی اجازت دی جائے، انہیں ہتھیار لے جانے کی اجازت تھی اور انہیں پاکستانی ریاست کی انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ بارڈر سیکورٹی فورسز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ "دہشت گردی" کے خلاف جنگ نے خطے میں سیکورٹی کے اس پرانے ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔
پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں اپنی مستقل موجودگی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو افغان طالبان اور کابل میں نئی حکومت کو سنبھالنے کا حکم دیا ہوا ہے۔ اس کام کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی ریاست قبائلی علاقوں میں فوجی چھاؤنیوں اور قانون نافذ کرنے والے مضبوط ڈھانچوں کی زیادہ فعال موجودگی کو ناگزیر سمجھتی ہے۔ پاکستانی حکمران قبائلی علاقوں اور وسیع تر افغان مسئلے کو عالمی برادری سے جڑے رہنے کا موقع سمجھتے ہیں۔ وہ عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں اور مہمات کو امریکہ اور مغرب سے اُن کےجیو پولیٹیکل اہداف کو حاصل کرنے کے عوض ڈالر حاصل کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اسلامی سرزمینوں میں عسکریت پسندی بنیادی طور پر مغربی استعمار کی پالیسیوں اور مسلم دنیا میں اس کے اثر و رسوخ کا ردعمل تھا۔ لیکن اس حقیقت سے قطع نظر، پاکستانی فوج نے پاکستانی ریاست کی زبردست طاقت کو استعمال کیا تاکہ فاٹا کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا جا سکے اور پاکستانی ریاست کی رٹ کو قبائلی علاقوں تک بڑھایا جا سکے۔ یہ تصور کیا گیا تھا کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے خصوصی اقتصادی مراعات ملنے اور اس کی سیاست میں باقاعدہ شمولیت سے خطے میں عسکریت پسندی کے مسئلہ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پاکستانی ریاست نے فاٹا کے علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے کے حفاظتی نظام پر واپس جانے کی کوشش کی۔ تاہم قبائل اور عسکریت پسند خطے میں پاکستانی فوج کی موجودگی سے سخت ناراض ہیں۔ پشتون عسکریت پسند فاٹا کی خیبرپختونخوا میں شمولیت کی واپسی چاہتے ہیں اور اپنے لیے اور قبائل کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پشتون قبائل کا ایک بڑا اور اہم مطالبہ ڈیورنڈ لائن کو کھولنا اور سرحدی باڑ ہٹانا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر خطے کی معیشت اور سرحدی علاقوں میں سماجی اور سیاسی انتظامات پر پڑتا ہے۔
پاکستانی ریاست کی نوعیت اور اس کی غیر قانونی حیثیت پاکستانی معاشرے میں ایک بہت وسیع بحث ہے۔ پاکستان کو سیکولر ریاست ہونا چاہیے یا اسلامی ریاست، یہ موضوع پاکستان میں فکری گفتگو کا محور رہا ہے۔ پاکستان کی امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کی خارجہ پالیسی کی پشتون قبائل کی جانب سے مخالفت کے نتیجے میں پاکستانی ریاست اور قبائل کے درمیان تصادم ہوا۔ پشتون عسکریت پسندی عملاً پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خلاف بغاوت تھی۔ پاکستانی ریاست کا یہ دعوی کہ صرف وہ ہی ہتھیار رکھنے اور استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے اور قبائل سے اُس کی اس اجارہ داری کوقبول کرنے کا مطالبہ کرنا، درحقیقت قبائل کو خود مختاری دینے، ہتھیار رکھنے اور اپنی زمینوں کو محفوظ رکھنے کی ریاست کی اپنی ہی پچاس سالہ پالیسی کے خلاف تھا۔ قبائل نے درست طور پر یہ بھانپ لیا کہ پاکستانی ریاست کے رویے میں اس اچانک تبدیلی کے پیچھے غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔
نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے دوران، امریکہ کی حوصلہ افزائی سے، پاکستانی ریاست کے اداروں کو عسکریت پسندی سے لڑنے کے لیے باقاعدہ تشکیل دیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں، نیکٹا(NACTA)، پاک فوج کے فوجی نظریے میں تبدیلی، انسدادِ دہشت گردی کے پولیس یونٹس کا قیام، فوجی عدالتوں کا قیام، تعلیمی نصاب میں تبدیلی، مدارس میں اصلاحات اور نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل نے ریاست کی صورت ایسی کردی جسے قبائلی علاقوں میں بہت سے لوگوں نے جابرانہ اور ناجائز سمجھا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے سر اٹھانے نے پشتون قبائل کے غصے کو غیر متشدد سیاسی سرگرمی کی طرف موڑ دیا اور علاقے میں فوج کی پالیسیوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح اس علاقے میں ریاست کی رٹ کے قیام کے مطالبے کو ایک ناجائز ریاست کے مطالبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو قبائل پر اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو وسعت دے کر انہیں اپنے تابع کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ پشتون قبائل اسلام اور جہاد سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کو ایک سیکولر اور غیر اسلامی ریاست، اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمن امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوا دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح عسکریت پسندوں نے سیکولر ریاست کی قانونی حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستان میں علمائے کرام عسکریت پسندوں کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست ایک اسلامی ریاست ہے جس سے وفاداری کرنا لازم ہے۔ تاہم علماء نے عسکریت پسندوں کی جانب سے معصوم مسلمانوں اور سیکورٹی عملے پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ عسکریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک غیر سنجیدہ دلیل نظر آتی ہے کیونکہ ان کے سیاسی مطالبات میں پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ شامل نہیں ہے، لیکن انہوں نے اسے پروپیگنڈے کے مقاصد کے لیے اور پاکستانی ریاست کی قانونی حیثیت کو مسترد کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جسے وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ قبائل پاکستانی ریاست کی بارڈر پر سختی سے عملدرآمد کی پالیسی کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں کیونکہ اس کا براہِ راست اثر ان کی معیشت اور معاش پر پڑا ہے۔ وہ ڈیورنڈ لائن کو ناجائز اور قبائل کی طاقت کو تقسیم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
افغان طالبان فعال طور پر ٹی ٹی پی کی حمایت نہیں کر رہے لیکن افغانستان میں اُن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے انکار کرتےہیں۔ ان کے خیال میں اگر پاکستان اور امریکہ سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو افغان طالبان بھی ایسی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ افغان طالبان سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ افغان طالبان کا خیال ہے کہ اگر وہ جہادی ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو طالبان کے جہادی ہونے کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچے گا۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہیں تو اپنی صفوں کے اندر اُن کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔
طالبان کی زیر قیادت افغان حکومت خود ہی "اسلامی ریاست خراسان" (IS-K) کی جانب سے قبول کردہ مسلسل بمباری کی ایک لہر کی زد میں آچکی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی درحقیقت ٹی ٹی پی کے عناصر کو " اسلامی ریاست خراسان " کی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتی ہے یا وہ خود کابل کی حکومت پر اپنی بندوقیں تان سکتے ہیں۔ لہٰذا افغان طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سمجھداری سے نہیں نمٹا گیا تو، مشرقی افغانستان میں عسکریت پسندی کا خطرہ، افغان طالبان مخالف محاذ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
افغان طالبان پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو نرم کرنا چاہتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کا خطرہ اور ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستانی فوج کی فوجی کارروائیاں ڈیورنڈ لائن کو نرم سرحد بنانے کے ان کے ہدف کو مزید مشکل بنا دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خطرے کو حل کرنے میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن بغیر کوئی قیمت ادا کیے۔ ان کی نظر میں ایسا کرنے کا بہترین طریقہ پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنا ہے، جس کی انہوں نے کوشش بھی کی لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
مسلمانوں کے درمیان جنگ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: "اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لئے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے" (النساء، 4: 93)۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا، "مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے"(بخاری و مسلم)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، "جب دو مسلمان لڑائی میں آمنے سامنے ہوں اور ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہیں"۔ صحابہؓ نے پوچھا، "اے اللہ کے رسولﷺ، یہ قاتل ہے لیکن اُس غریب کا کیا ہوگا جو مارا گیا ہے؟" آپﷺ نے فرمایا، "وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا"(بخاری)۔
پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت واضح طور پر افغانستان کے ساتھ اپنی مغربی سرحد کی صورتحال پر پریشانی کا شکار ہے۔ سلامتی کا یہ بحران امریکہ کے اسٹریٹجک وژن کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف اسلام کا نظام خلافت ہی ہوگا جو پاکستان کی مغربی سرحدوں پر سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت دے گا۔ یہ نظام ڈیورنڈ لائن کو ہمیشہ کیلئے مٹا دے گا کیونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کے مسلمان بھائی بھائی ہیں اور امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں۔ ان کے معاملات کو مصنوعی سرحدوں کے ذریعے تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔
خلافت ایک ایسا حفاظتی انتظام قائم کرے گی جس میں قبائل بھی شامل ہوں گے۔ قبائل کی فوجی طاقت، اسلام کے غلبہ کو مزید آگے بڑھائے گی۔ یہ پشتون قبائل ہی تھے جنہوں نے آزاد کشمیر کو آزاد کرانے، سوویت روس کو پسپا کرنے اور استعماری امریکہ کو نکالنے میں مدد کی۔ لہٰذا یہ خلافت ہی ہوگی جو مؤثر طریقے سے قبائلی جنگجوؤں اور مسلح افواج کو کفار کے خلاف ایک قوت وطاقت کے طور پر متحرک کرے گی۔